Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مسلم اقلیتوں کی مدد

ڈاکٹر عبدالعزیز الجار اللہ ۔ الجزیرہ
سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر درپیش بحرانوں اور مشکل معاملات پر انتہائی فیصلہ کن بیان دینا اپنی پہچان بنائے ہوئے ہیں۔ انکے جملے صاف ستھرے ہوتے ہیں۔ انکے بیان کا ایک ، ایک حصہ مختلف نکات پر مشتمل ہوتا ہے۔ مسئلہ فلسطین ہو یا قطر کا بائیکاٹ یا ایران کیساتھ محاذ آرائی، ہر مسئلہ پر انہوں نے بڑے خوبصورت بیان دیئے ہیں۔ تازہ ترین بیان مسلم وزرائے خارجہ کے 45ویں سیشن منعقدہ ڈھاکا کے موقع پر جاری کیا۔ انہوں نے کہا کہ ”مسئلہ فلسطین ہی ہماری اولیں ترجیح رہیگا، دنیا بھر میں مسلم اقلیتوں خصوصاً روہنگیا کے مسلمانوں کی مدد اشد ضروری ہے۔“
سعودی وزیر خارجہ کے اس بیان پر بعض مسلم ممالک نے تحفظات کا اظہار اس جذبے سے کیا کہ کہیں دیگر ممالک کے اندرونی امور میں اسے مداخلت نہ قرار دیدیا جائے۔ ایران واحد ملک ہے جس نے سعودی وزیر خارجہ کے مذکورہ بیان کو سعودی عرب پر الٹنے کی ہر ممکن کوشش کی اور اس سے انتہا درجے ناجائز فائدہ اٹھایا۔ 
عجیب بات یہ ہے کہ ایران نے مذکورہ بیان کے خلاف اس کے باوجود لن ترانیاں کیں جبکہ شیعہ فرقے کے لوگ جہا ں بھی رہ رہے ہیں وہاں وہ اقلیت میں ہیںاو رعرب ممالک میں انکا تناسب 5فیصد سے زیادہ نہیں۔ حد تو یہ ہے کہ خود مسلم دنیا کی سطح پر شیعہ فرقہ سے منسوب افراد کی تعداد 5فیصد سے زیادہ نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ عرب بہار کے بعد ایران کے سیاسی و عسکری اور ابلاغی تسلط اور میڈیا کے شور و ہنگامے نے معاملات بدل ڈالے۔ عرب بہار نے عرب ممالک کو کمزور کردیا۔ کئی عرب ملکوں اور اقوام کا شیرازہ بکھر گیا۔ اس صورتحال نے شیعہ فرقے اور انکے فرقہ وارانہ انتہا پسندی کو انکی حیثیت اور حجم سے زیادہ دراز قد بنادیا۔
تمام ممالک اور مذاہب کے ماننے والے اپنی اقلیتوںخواہ وہ نسلی ہوں یا دینی ہوں حفاظت کرتے ہیں۔ انہیں نسلی تفریق، جبر و تشدد ، جبری بے دخلی اور حقوق کے ضیاع سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مغربی ممالک، امریکہ، روس ، چین اور ہندوستان وغیرہ مختلف ممالک میں موجود اپنے ہموطنوں کے حقوق کا بھرپور دفاع کرتے ہیں۔ اپنے کارکنان کو تحفظ فراہم کرتے ہیں ۔جہاں تک سنی مسلمانوں کا تعلق ہے تو یہ واحد طبقہ ہے جن کا دفاع ، جن کی وکالت کرنے والا کوئی نہیں اور جنہیں مختلف اقوام و ممالک کے جرائم سے بچانے والا کوئی نہیں۔
سعودی عرب اور مسلم ممالک2 باتوں میں فرق کرتے ہیں۔ ایک بات تو یہ کہ جہاں بھی مسلم اقلیت کے لوگ آباد ہوں، انہیں اپنے ملک کے قوانین و ضوابط کا احترام کرنا چاہئے۔ یہ ان پر واجب ہے۔ انہیں اپنے ملک کی آبادی سے ہم آہنگی اختیار کرنی چاہئے۔ مسلم اقلیتو ںکو اپنے یہاں بغاوت اور انارکی پیدا کرنے سے گریز کرنا چاہئے لیکن جہاں تک فلسطین کا تعلق ہے تو اسرائیل اس پر ناجائز قبضہ کئے ہوئے ہے۔ وہاں2 ریاستوں کے درمیان کشمکش چل رہی ہے۔ ایک وہ ریاست ہے جسے بعض ممالک تسلیم کرچکے ہیں۔ دوسری ریاست وہ ہے جو دنیابھر سے اعتراف کی منتظر ہے۔ جہاں تک روہنگیا کے لوگوں کا تعلق ہے تو وہ مسلم اقلیت ہیں۔ انہیں مسلم اقلیت ہونے کی ہی وجہ سے جبر و تشدد ، جبری نقل مکانی اور جانوں کے ضیاع کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
لہذا مسلم ممالک اور اسلامی تعاون تنظیم کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ دنیا بھر میں مسلم اقلیتوں کی مدد کریں۔ انکے حقوق کی حفاظت کریں اور انکے ساتھ کوئی زیادتی نہ ہونے دیں اور انکے ساتھ ہونے والی حق تلفی کے معاملے کو اٹھائیں ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: