توبہ، پُرسکون انسانی معاشرے کی ضمانت
اگر تمہاری برائیاں آسمان تک پہنچ جائیں اسکے باوجود بھی اگر تم توبہ کرو تو اللہ تعالیٰ تمہاری توبہ قبول فرمائے گا
* * * مولانا محمد الیاس گھمن ۔ سرگودھا* * *
اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی صدق دل سے معافی مانگنا اور آئندہ ان سے بچنے کا پختہ عزم کرنا ’’توبہ‘‘ کہلاتا ہے۔نفس و شیطان کے بہکاوے کے ساتھ ساتھ انسان میں نسیان کا عنصر بھی پایا جاتا ہے اس لئے وہ اللہ تعالیٰ کے احکامات ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک طریقے اور شریعت اسلامیہ کی پاکیزہ تعلیمات سے روگردانی کر بیٹھتا ہے۔ کبھی نفسانی خواہشات ، کبھی شیطانی وساوس،کبھی برے ماحول کی وجہ سے ، کبھی جہالت اور لاعلمی کی بنیاد پر بدعملی اس سے سرزد ہو جاتی ہے ،یہ وہ واقعاتی حقائق ہیں جن سے ہم سب کا اکثر اوقات واسطہ پڑتا رہتا ہے۔
افسوس کا مقام ہے بلکہ یوں کہیے کہ افسوس صد افسوس یہ ہے کہ ہم جس معاشرے میں پرورش پا رہے ہیں، اس معاشرے میں علم دین ، اسلامی تہذیب و تمدن ، اخلاقیات و آداب اور احساسِ عبدیت و انسانیت ختم ہوتے جا رہے ہیں اس لئے معاشرے میں مسلسل بے سکونی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ آج ہمارے گھروں اورتمام شعبہ ہائے زندگی میں باہمی نفرتیں ،آپسی ناچاقیاں ، دوریاں اور لڑائی جھگڑے، فسق و فجور ، بری عادات و اطوار ، فرنگی تہذیب و کلچرفروغ پا رہا ہے۔ یہ ہم سب کا مشترکہ المیہ ہے جس کا رونا ہم روتے تو رہتے ہیں لیکن اس مصیبت سے عملاً جان چھڑانے کی کوشش نہیں کرتے۔
علم سے دوری ، بدعملی ، بداخلاقی ، بدامنی ، بد تہذیبی ، جہالت اور معاشرتی جرائم کا پورا معاشرہ بحیثیت قوم مجرم بن چکا ہے۔ ایسے حالات میں اپنے ماحول کو درست کرنے کی ضرورت پہلے سے کہیں بڑھ کر ہے ،اللہ تعالیٰ سے باغی انسانیت کو پھر سے اللہ کے لطف وکرم، فضل و احسان، مہربانی اور رحمت کے قریب کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔اسے گناہوں کی دلدل سے نکال کر اطاعت و فرمانبرداری کی شاہراہ پر ڈالنا ہوگا جو شاہراہ سیدھی جنت جاتی ہے۔
اس کیلئے بنیادی طورپر جن اوصاف کی ضرورت ہے ،ان میں سے ایک وصف یہ ہے کہ برائی اور اس پر ندامت گناہ اور اس پر شرمندگی کا احساس دلوں میں زندہ ہو جائے۔ یہی احساس انسان کو توبہ پر آمادہ ، نیکی پر ابھارتا اور شریعت پر چلاتا ہے۔ اس کو باقی رکھنے کیلئے اپنی زندگی کا محاسبہ کرنا ہوگا کہ ہماری زندگی کس قدر شریعت کے مطابق اور کتنی شریعت کے مخالف میں گزر رہی ہے؟اگر ہماری زندگی اس رخ پر چل رہی ہے جس پر اللہ اور اس کا رسول چاہتے ہیں تو ’’مقامِ شکر‘‘ ہے اور اگر خدانخواستہ ہماری زندگی شیطان کی مقرر کردہ پُرخطر راہوں میں سے کسی بھیانک راہ پر چل رہی ہے تو’’ مقامِ فکر‘‘ ہے۔
ہر شخص اپنے گریبان میں جھانک کر اپنے ضمیر کا فیصلہ سن سکتا ہے۔ حالات و واقعات اور زمینی حقائق یہ بتلاتے ہیں کہ اس وقت پوری مسلم امہ گناہوں کے گرداب میں بری طرح پھنسی ہوئی ہے ۔ بداعمالیوں کا ایک طوفان ہے جو ہماری ٹوٹی پھوٹی نیکیوں کو بہائے لے جا رہا ہے ۔ ہمارے نیک اعمال بھی بعض کبیرہ گناہوں کی وجہ سے مٹتے جا رہے ہیں اس لئے ہمیں اپنے اندر احساس پیدا کرنا ہوگا تاکہ توبہ کی توفیق نصیب ہو۔
توبہ ایسی نیکی ہے جو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جلد قبول ہوتی ہے ۔ اللہ کو محبوب ہے۔ انسان جب گناہ کرتا ہے توکراماً کاتبین اس کے نامہ اعمال میں لکھ دیتے ہیں ۔ قیامت کے دن انسان کے اپنے وہ اعضاء جن سے اس نے گناہ کیا ہوگا ، زمین کا وہ حصہ جس پر گناہ کیا ہوگا اور نامہ اعمال سب کے سب اس کے خلاف گواہی دیں گے۔ اگر انسان صدق دل سے توبہ کر لے تو اللہ تعالیٰ اپنے رحم و کرم سے فرشتوں کو بھلا دیتے ہیں ،اعضاء کو بھلا دیتے ہیں ،زمین کو بھلا دیتے ہیں اور نامہ اعمال سے مٹا دیتے ہیں۔دنیاوی و اخروی مصائب و تکالیف سے اسی توبہ کی بدولت نجات ملتی ہے۔ اس سے اچھی طرح معلوم ہوگیا کہ ہمیں توبہ کی کس قدر ضرورت ہے !!!
دوسری بات یہ ہے کہ اگر ایک بار توبہ ٹوٹ جائے تو پھر توبہ کریں ، پھر ٹوٹ جائے پھر توبہ کریں، لاکھ مرتبہ بھی توبہ ٹوٹ جائے پھر بھی توبہ کریں۔ اس اندیشے کی وجہ سے توبہ نہ کرنا کہ کہیں ٹوٹ نہ جائے شیطانی دھوکہ ہے اس سے خود کو بچائیں۔توبہ کے حوالے سے آیات و احادیث تو بکثرت موجود ہیں لیکن ان میں سے صرف چند ملاحظہ ہوں:
٭ زیادہ توبہ کرنے والے اللہ کے محبوب ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
’’ بے شک اللہ تعالیٰ بہت زیادہ توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتے ہیں۔‘‘(البقرۃ222)۔
٭ توبہ سے کامیابیاں ملتی ہیں ، ارشاد باری عز و جل ہے:
’’اے ایمان والو!تم سب کے سب اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔‘‘( النور31)۔
٭ نزع اور سکرات کے وقت یعنی جب روح نکلنے لگے تو اس وقت توبہ قبول نہیں ہوتی، قرآن کریم میں ہے :
’’ان گناہ گار لوگوں کی توبہ قابل قبول نہیں جب ان کی موت کا وقت سر پر آن پہنچے تو وہ کہے کہ میں اب توبہ کرتا ہوں۔ ‘‘( النساء 18)۔
ً نوٹ:مدارک التنزیل میں امام نسفی رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ سکرات اور غرغرہ موت کے وقت توبہ کرنا یہ اضطراری حالت ہے اختیاری نہیںجبکہ توبہ اختیاری قبول ہوتی ہے اضطراری نہیں۔
٭ توبہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ گناہوں کو نیکیوں میں تبدیل کر دیتے ہیں ،قرآن کریم میں ہے :
’’مگر جنہوں نے توبہ کی اور اللہ کی بات کو مانا ، نیک اعمال کیے تو اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو نیکیوں سے تبدیل کر دیں گے اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔ ‘‘( الفرقان 70)۔
٭ اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرتے اور گناہوں کو معاف فرماتے ہیں ،ارشاد باری تعالیٰ ہے :
’’اللہ وہ ذات ہے جو اپنے بندوں کی توبہ کو قبول کرتاہے اور گناہوں کو معاف فرماتا ہے۔‘‘(الشوریٰ 25)۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ اس وقت تک قبول فرمائیں گے جب تک سورج مغرب سے طلوع نہ ہوجائے۔ ‘‘(صحیح مسلم )۔
نوٹ:سورج کا مغرب سے طلوع ہونا قیامت کی ایک بڑی نشانی ہے۔ ایک دن ایسا بھی ضرور آئیگا جب سورج مغرب سے طلوع ہوگا اوردوپہر کے وقت درمیان تک پہنچے گاپھر دوبارہ مغرب کی طرف غروب ہو جائیگا۔ اس کے بعدمعمول کے مطابق مشرق سے طلوع ہوگا اور مغرب میں غروب ہوگا۔ بعض محدثین نے لکھا ہے کہ مغرب سے سورج طلوع ہونے کے 150 سال بعد قیامت آئیگی۔ واللہ اعلم ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’اگر تمہاری برائیاں اور بداعمالیاں اس قدر زیادہ ہوجائیں کہ وہ آسمان تک پہنچ جائیں اسکے باوجود بھی اگر تم توبہ کرو تو اللہ تعالیٰ تمہاری توبہ قبول فرمائیں گے۔‘‘(سنن ابن ماجہ )۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم نے ارشاد فرمایا:
’’ساری اولاد آدم(سوائے انبیائے کرام علیہم السلام کے) گناہ گار ہے اور سب سے اچھے گناہ گار وہ ہیں جو کثرت کے ساتھ توبہ کرنے والے ہیں۔ ‘‘(جامع الترمذی )۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’گناہ سے (صدق دل سے شرائط و آداب کے ساتھ )توبہ کرنیوالا ایسا ہے جیسے اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں۔ ‘‘(سنن ابن ماجہ)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ نے فرمایا:
’’مومن بندے کی توبہ سے اللہ تعالیٰ اس سے بھی کہیں زیادہ خوش ہوتے ہیں جیسے کوئی مسافر شخص کسی ایسی وادی میں پہنچا جو بالکل بیابان اور ہلاکت خیز تھی۔ اس کی سواری پر اسکا سامان ، کھانا پینا وغیرہ موجود تھا ، اسے نیند آئی ،وہ سو گیا ۔جب نیند سے بیدار ہوا تو دیکھا کہ اس کی سواری موجود نہیں تھی ، اس کی تلاش میں وہ گھوما ، گرمی اور پیاس نے اسکا برا حال کردیا ، پھر وہ مایوس ہو کر واپس آگیا کہ اور یہ سوچ کر سو گیا کہ اب موت کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ اچانک اس کی آنکھ کھلی تو کیا دیکھتا ہے کہ اس کی سواری اسکے سامنے موجود ہے تو اس شخص کو جس قدر سواری کے مل جانے سے خوشی حاصل ہوئی اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندے کی توبہ سے اس سے بھی زیادہ خوش ہوتے ہیں۔ ‘‘(صحیح مسلم )۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ،آپنے فرمایا:
’’بنی اسرائیل میں کفل نامی ایک شخص تھا ،کوئی گناہ کا کام ایسا نہیں تھا جو اس نے نہ کیا ہو ۔ایک دن ایک خاتون اس کے پاس آئی تو اس نے اسے60دینار دئیے تاکہ وہ اس سے اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کر سکے ، جب وہ اس کیلئے مکمل طور پر تیار ہوگیا تو وہ خاتون کانپنے لگی اور زور زور سے رونے لگی۔ کفل نے ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے اس سے رونے کی وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا کہ میں پیشہ ور فاحشہ عورت نہیں ہوں،میں نے کبھی یہ کام نہیں کیا۔
اب میں کسی شدید ضرورت کی وجہ سے بے حد مجبور ہو گئی ہوں۔ کفل نے اس خاتون کو کہا کہ اگر یہ بات ہے کہ تُونے کبھی یہ برا کام نہیں کیا تو جا میں بھی تمہیں کچھ نہیں کہتا ۔یہ رقم بھی اپنے پاس رکھ لے اور ساتھ میں یہ بھی کہا : اللہ کی قسم آج کے بعد میں کبھی بھی اللہ کی نافرمانی نہیں کروں گا۔ وہ شخص رات کو فوت ہوا ۔
جب صبح ہوئی تو اسکے گھر کے دروازے پر یہ لکھا ہوا موجود تھا :ان اللہ قد غفر للکفل۔ اللہ تعالیٰ نے کفل کی مغفرت کردی ہے۔‘‘(جامع الترمذی )۔
توبہ کی شرائط:
(1)سب سے پہلے تو اس گناہ کو چھوڑ دے۔
(2)ندامت کے ساتھ اللہ کے حضور معافی مانگے۔
(3)اور آئندہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں توبہ کی توفیق نصیب فرمائے اور ہماری توبہ کو قبول بھی فرمائے۔ آمین یا رب العالمین ۔