رمضان المبارک اور مکہ مکرمہ ،7 سو سال قبل کے حالات
حرم مکی میں دور رہنے والوں کیلئے اونچائی پر 2قندیلیں روشن کی جاتی تھیں، جب قندیلیں بجھادی جاتیں تو لوگ سحرکھانے سے رک جاتے
* * * *
اللہ تعالیٰ نے اس عالمِ رنگ وبو کو اپنی عبادت و بندگی کیلئے پیدا کیا ہے ،ارشاد ربانی ہے:
’’میں نے جنات اور انسانوں کو محض اپنی عبادت و پرستش کیلئے پیدا کیا ہے۔‘‘(الذاریات 56)۔
انسانوں کے رشد وہدایت اور صراط مستقیم پر لانے کیلئے اللہ تعالیٰ نے کم وبیش ایک لاکھ24ہزار انبیائے کرام مبعو ث فرمائے۔ ہر ایک نے اپنی اپنی قوم کو ضلالت و گمراہی سے نکالکر رشدو ہدایت سے ہمکنار کرنے کی کوشش کی ۔اخیر میں تمام انبیائے کرام کے سردار و سرتا ج محبوب آقا کو مقدس کتابِ الہٰی قرآن پاک دیکر مبعوث فرمایا گیا ۔ یہ کتاب اس مبارک ماہ میں نازل کی گئی جو تمام مہینوں سے زیادہ افضل اور بابرکت ہے جسے رمضان کہا جاتا ہے۔ اللہ بزرگ و برتر نے اس ماہ کو اپنا مہینہ قراردیا ہے جیسا کہ روایت میں آتا ہے کہ نبی کریم نے ارشاد فرمایا :
’’ ماہ شعبان میرا مہینہ ہے جبکہ ماہ رمضان اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ نے اس ماہ میں تمام انسانوں کے رشدوہدایت اور فلاح و کامرانی کیلئے قرآن پاک نازل فرمایا ،ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ماہِ رمضان وہ ہے جس میں قرآن کریم نازل کیا گیا ہے جو لوگوں کو ہدایت کرنے والا ہے اور جس میں ہدایت کی اور حق و باطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں،تم میں سے جو شخص اس مہینے کو پائے اسے روزہ رکھنا چاہیئے۔‘‘(البقرہ185)۔
اللہ تعالیٰ نے اس مبارک مہینے میں اپنے بندوں پر روزے فرض کئے تاکہ وہ متقی و پرہیز گار ہوجائیں اور اسکی اطاعت و فرمانبرداری میں زندگی بسرکریں۔جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہے:
’’اے ایمان والو!تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر روزے فرض کئے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرنے والے بن جاؤ‘‘( البقرہ183)۔
مکہ مکرمہ مرکز اسلام ہے ۔یہیں سے رشدو ہدایت کا سرچشمہ جاری ہوا جس سے دنیا کے انسان سیراب ہوئے اور قیامت تک سیراب ہوتے رہیں گے۔ یہیں پہلا وہ گھر ہے جسے اللہ وحدہٗ لاشریک لہ کی عبادت و بندگی کیلئے تعمیر کیا گیا ہے، ارشادِربانی ہے:
’’اللہ تعالیٰ کا پہلا گھر جو لوگوں کیلئے مقرر کیا گیا وہی ہے جو مکہ (شریف )میں ہے جو تمام دنیا کیلئے برکت و ہدایت والا ہے۔‘‘(آل عمران96)۔
رمضان المبارک کا مہینہ آتے ہی پوری دنیا میں روحانی انقلاب برپا ہوجاتا ہے ۔ ایمان کی بادِنسیم چلنے لگتی ہے۔ رحمتوں ،برکتوں کا سایہ فضاؤں پر چھاجاتا ہے، بندوں کے رزق میں اضافہ کردیا جاتا ہے اور تمام لوگ اس ماہِ مبارک کے فضائل و برکات سے فیضیاب ہونے کی کوشش شروع کردیتے ہیں لیکن اس ماہ مبار ک میں مکہ مکرمہ کی فضا ء قابلِ دیداور قابل رشک ہوجاتی ہے۔ ایک طرف ماہ مبارک میں عمرہ وزیارت کی فضیلت حاصل کرنے کیلئے اندرون و بیرون ملک کے معتمرین و زائرین کی بڑی تعداد موجود ہوتی ہے تو دوسری طرف اہالیان مکہ مکرمہ دل کھول کر ان کی ضیافت و مہمان نوازی کرنے کو اپنی سعاد ت و خوش نصیبی سمجھتے ہیں اور ہرشخص اپنی استطاعت سے زیادہ معتمرین وزائرین کی خدمت بجالانے کی سعی کرتا ہے۔ ہر دور میں مؤرخین اور سیاحوں نے رمضا ن المبارک میں مکہ مکرمہ کی روحانی اور ایمان افروز ماحول کا اپنی کتابوں اور سفر ناموں میں تذکرہ کیا ہے ۔ آئیے !ہم دیکھیں کہ دنیا کی تاریخ کے معروف سیاح ابن بطوطہ نے یہاں کے روحانی ماحول کو کس طرح دیکھا ہے ۔
محمد بن عبداللہ بن محمد اللواتی الطنجی ا لمعروف ا بن بطوطہ 703ھ مطابق 1304ء میں مراکش کے طنجہ شہرمیںپیدا ہوئے۔ 22 سال کی عمر میں فریضۂ حج ادا کرنے کیلئے ارض مقدس کا سفر شروع کیا۔ جزائر ، تیونس اور لیبیا سے ہوتے ہوئے مصر کے شہر فسطاط پہنچے۔ وہاں چند روز قیام کرکے ملک شام روانہ ہوگئے پھر وہاں سے حجاز مقدس آگئے۔ مکہ مکرمہ پہنچ کر سب سے پہلے انہوں نے عمرہ اداکیا ۔انہوں نے اپنے سفر نامہ میں حرم شریف کے روحانی ماحول کا نیز خلیفہ عباسی مہدی کے دور میں 167ھ میں توسیعی منصوبے کا تفصیل سے تذکرہ کیا ہے ۔
ابن بطوطہ کا کہنا ہے کہ’’ پہلے بابِ کعبہ نبی کریم کی تاریخ وفات کے علاوہ ہر جمعہ کی نماز کے بعد عام لوگوں کیلئے کھول دیا جاتا تھا ۔ اس روزلوگوں کی بڑی تعداد نمازجمعہ ادا کرنے اور بیت اللہ شریف کے اندرونی حصے سے مستفید ہونے کیلئے جمع ہوتی تھی‘‘ وہ آگے رقمطراز ہیں کہ ’’ اللہ تعالیٰ نے اس مقدس شہر کو گوناگوں فضا ئل و برکات سے نوازا ہے۔ بیت اللہ شریف میں ایک رکعت نماز پڑھنے کا اجر و ثواب دوسری جگہوں پر ایک لاکھ رکعت نمازیں ادا کرنے کے برابرہے ۔اللہ تعالیٰ نے اسے تمام مسلمانوں کا قبلہ قراردیا ہے اور اس کی طرف رخ کرکے نمازیں ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ حج و عمرہ میں اس کا طواف کرنا لازم اورضروری ہے ۔بیت اللہ شریف کے عجائبات میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ہمہ وقت اس کا طواف کیا جاتارہتا ہے اور کبھی بھی طواف کرنے والوں سے وہ خالی نہیں رہا۔ تمام مؤرخین ،سیرت نگار اور سیاحوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جب سے بیت اللہ شریف تعمیر کیاگیا ہے اُس وقت سے اب تک بیت اللہ شریف کا طواف مسلسل جاری ہے اور تاقیامت انشاء اللہ یہ سلسلہ جاری وساری رہیگا۔‘‘
ابن بطوطہ نے حرم شریف کی درودیوار ، صفا ومروہ کی مسافت اور اسکے آس پاس کے تجارتی مراکز اور وہاں کے لوگوں کی عادات و کردار کا بھی تذکرہ کیا ہے۔انکا کہنا ہے کہ ’’مکہ مکرمہ کے باشندے اعلیٰ اخلاقی قدروں اور بلندعادات و اطوار کے حامل ہیں ۔ انکے اندر ہمدردی ، رحمدلی ، ایثار، غمخواری اور الفت و محبت کے جذبات بدرجہ اتم موجود ہیں۔ وہ غریبوں ،مسکینوں اور ضرورتمندوں کی دل کھول کر مدد کرتے ہیں۔
اپنے پڑوسیوں کا پورا خیال رکھتے ہیں ۔سب سے بڑھ کر ضیوف الرحمن کی خدمت کرنے اور انہیں آرام و راحت پہنچانے میں کوئی دقیقہ باقی نہیں چھوڑتے ۔ یہاں کی خواتین عفت و پاکدامنی اور صلاح و تقویٰ میں بلند مقام پر فائز ہیں۔ وہ شرعی حجاب کا اہتمام کرتی ہیں اور بیت اللہ شریف کا کثرت سے طواف کرتی ہیں۔ شب جمعہ میں انکی تعداد میں کافی اضافہ ہوجاتا ہے۔‘‘
ابن بطوطہ نے اسی دور کے ممتاز علمائے دین اور انکی گرانقدر خدمات کو بھی قلم بند کیا ہے جن میں مدینہ منورہ کے جج نجم الدین محمد الطبری ، خطیب مکہ بہاء الدین الطبری ، حرم شریف کے مالکی امام و مفتی ابو عبداللہ محمد، حنفی امام شہاب الدین احمد بن علی اور حنبلی امام محمد بن عثمان کا بھی تذکرہ کیا ہے۔
ابن بطوطہ نے مکہ مکرمہ میں طویل عرصے تک قیام کیا۔ اس دوران انہوں نے وہاں کے اجتماعی، اقتصادی ، تعلیمی اور معاشرتی حالات کا بہت قریب سے جائزہ لیا ۔رمضان 726ھ میں مکہ مکرمہ کے حالات کا تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ’’ مکہ مکرمہ کے بیشتر باشندے دن میں ایک مرتبہ سے زیادہ کھانا تناول نہیں کرتے ۔ اگر کسی کو زیادہ بھوک لگتی تو وہ کھجور کھانے پر اکتفا کرلیتے ۔یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ بیماری سے محفوظ رہتے ہیں ۔ جب رجب کا چاند نظر آجاتا ہے تو امیر مکہ مکرمہ کے حکم سے اس کا اعلان کیا جاتا تو لوگ خوشیوں میں اپنے گھروں میں قندیلیں روشن کرتے اور جشن مناتے۔ لوگ رجب کی 27تاریخ کو جوق درجوق عمرہ ادا کرنے کیلئے حرم شریف کی طرف روانہ ہوجاتے۔ مکہ مکرمہ کے دوردراز کے لوگ اپنے ساتھ کھانے پینے کی اشیا لیکر پہنچتے، وہ خود بھی کھاتے اور دوسروں میں بھی تقسیم کرتے ۔
15شعبان کی شب میں معتمرین و زائرین کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوجاتا اور پوری رات لوگ عبادت ،تلاوتِ کلام پاک اور سنن و نوافل میں مصروف رہتے اور رمضان المبارک کا مہینہ آتے ہی حرم شریف کی روحانی فضا میں چارچاند لگ جاتے ہیں ۔ حرم شریف کی پوری فضا تلاوت کلام پاک سے گونج اٹھتی۔ ہر طرف حفاظِ کرام تراویح پڑھانے میں مصروف ہوجاتے جبکہ مسالکِ اربعہ کے پیروکار اپنے اپنے ائمہ کی اقتداء میں تراویح پڑھنے میں مشغو ل ہوجاتے۔ حرم شریف کا کوئی گوشہ اور کوئی حصہ خالی نہیں ہوتا جہاں لوگ تراویح نہیں پڑھ رہے ہوتے۔ سحری میں لوگوں کو جگانے کیلئے حرم مکی شریف کی مشرقی جانب میں واقع اذان خانے سے اعلان کیا جاتا تھا۔ علاوہ ازیں دور رہنے والوں کیلئے اونچائی پر 2قندیلیں روشن کی جاتی تھیں جسے دیکھ کر لوگ سمجھ جاتے تھے کہ سحر کھانے کا وقت ہوگیا ہے او ر جب قندیلیں بجھادی جاتیں تو لوگ سحرکھانے سے رک جاتے۔
حرم شریف کے علاوہ ارض مقدس کی تمام مساجد میں بھی تراویح کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ بعض مساجد میں ختم قرآن پاک کا بھی اہتمام ہوتا تھا۔ عام طور پر رمضان المبارک کی 27تاریخ کی شب میں ختم قرآن پاک کا اہتمام ہوتا اور اسی رات جشن کا سماں ہوتا تھا اور لوگوں میں شیرینی تقسیم کی جاتی۔
جب عیدالفطر کا چاند نظر آجاتا تو لوگوں کی خوشیوں کی انتہا نہیں ہوتی تھی ،خاص طور پر بچے پوری رات جاگ کر گزاردیتے ،نئے کپڑے اور جوتے اپنے دوست و احباب کو دکھانے میں مصروف رہتے اور صبح ہوتے ہی نئے کپڑے پہن کر عیدالفطر کی نماز دگانہ اداکرنے کیلئے حرم شریف روانہ ہوجاتے ۔ نماز پڑھنے کے بعد تمام لوگ ایک دوسرے سے ملاقاتیں کرتے اور عید کی مبارکباد پیش کرتے بعد ازاں قبرستان جنت المعلّیٰ جاکر ایصال ثواب کر تے۔ اسکے بعد اپنے گھروں کو واپس چلے جاتے۔اپنے دوست و احباب اور عزیز و اقارب کا استقبال کرتے اور ان میں مٹھائیاں تقسیم کرتے۔‘‘
ابن بطوطہ کہتے ہیں کہ’’ذیقعدہ کی27تاریخ کو غلاف کعبہ بلند کردیا جاتا اور جب ذی الحجہ کا چاند نظر آجاتا تو حجاج کرام حج کی تیاری میں مصروف ہوجاتے۔ ائمہ کرام مساجد میں لوگوں کو حج کی فضیلت اور اسکے ارکان سے آگاہ کرنا شروع کردیتے تھے ۔ہم لوگ ذی الحجہ کی 8تاریخ کو مصر ، شام اورعراق سے آنیوالے حکمرانوں کے ہمراہ منیٰ کیلئے روانہ ہوئے اور 9تاریخ کو وہاں سے عرفات گئے اور سورج غروب ہونے کے بعد عرفات سے مزدلفہ کیلئے روانہ ہوگئے جہاں سنتِ نبوی کی اتباع کرتے ہوئے مغرب و عشاء کی نمازیں ایک ساتھ اداکیں۔ مزدلفہ سے منیٰ کیلئے روانہ ہوئے، رمی جمرات کے بعد قربانی کی اور حلق کے بعد احرام اتارلیا۔‘‘
ابن بطوطہ نے اپنے سفر نامے میں تحریر کیا ہے کہ ان دنوں غلافِ کعبہ مصر سے تیار ہوکر آتا تھا جو سیاہ ریشم سے تیار کیا جاتا تھا۔ اس پر متعدد قرآنی آیات کندہ ہوتیں اور 10ذی الحجہ کو بیت اللہ شریف پر نیا غلاف چڑھایا جاتا تھا ۔اس موقع پر فرزندانِ اسلام کی بڑی تعداد موجود ہوتی اور حسین مناظر سے لطف اندوز ہوتی۔