Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ملک و قوم کی تباہی کا کارگر نسخہ

ثمینہ عاصم۔ جدہ
جنوبی افریقہ کی ایک یونیورسٹی میںلکھا ہے کہ کسی ملک وقوم کو تباہ کرنے کیلئے ایٹم بم یا میزائل کی ضرورت نہیں ہوتی صرف اس ملک کے تعلیمی معیار کو گرا دو، وہاںکے طالب علموں کو نقل کی کھلی چھٹی دے دینا کافی ہوتا ہے۔ یہ ایسا کارگرنسخہ ہے جس سے مندرجہ ذیل نتائج بآسانی حاصل ہوجاتے ہیں:
جوبچے جعلی ڈگریوں اور نقل کرکے پاس ہوتے ہیں، مریض ایسے ڈاکٹروں کے ہاتھوں زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
عمارت ایسے انجینیئروں کے ہاتھوں وقت سے پہلے گر جاتی ہے بلکہ کئی ایک تودوران تعمیر ہی زمیںبوس ہوجاتی ہیں۔
قومی دولت ایسے اکاﺅنٹینٹس کے ہاتھوں لٹ جاتی ہے اور ملک قرضوں کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں۔
انسانیت ایسے اسکالرز کے ہاتھوں دم توڑ دیتی ہے۔ 
آج ہمارے ملک کی جو حالت ہے وہ ایسی حالتوں سے مختلف نہیںہے جہاں میڈیکل کالج کے پیپرز لیک کروائے جاتے ہوں اور پیسہ خرچ کرکے جعلی ڈگریاں حاصل کی جاتی ہوں وہاں کے مریضوں کاپھر برا حال نہ ہو تو کیا ہو؟ ذمہ دار ان کروڑوں روپے بٹور کر دبئی فرار ہوجاتے ہیں پھر ان کو انصاف کے کٹہرے میںبھی لایا نہیں جاسکتا۔ جب یہ نقل زدہ افراد اپنی دو نمبری تعلیم مکمل کرکے عملی میدان میں آتے ہیں تو اداروں پر زوال آجاتا ہے۔ان کے کرتوتوں میں رشوت ، سود اور بے ایمانی بھی شامل ہوتو سونے پر سہاگہ ہوجاتا ہے۔ 
نااہل لوگوں کو ملک کا سربراہ بنا دیا جائے تو ملک خودبخود تباہوجاتاہے۔ آج قومی اداروں کا حال عبرتناک ہے۔ تعلیم کی اچھی بنیاد بنانے کیلئے ایک اچھے، باضمیر اور خوددار استاد کی ضرورت ہوتی ہے جو بچوں کومحنت اور لگن سے پڑھائے اور یہ امر ذہن نشین رکھے کہ تدریس کی ذمہ داری قدرت نے اس کے کاندھوں پر ڈالی ہے ،کل کو اسکا جواب دینا پڑے گا، دنیا میں بھی اور اللہ کریم کے ہاںبھی ۔ یہ جواب بھی دینا ہوگا کہ جو عمارت منہدم ہوئی اس کے انجینیئر کے ٹیچر آپ تھے۔ فلاں مریض غلط دوا کی وجہ سے چل بسا ،اس کے معالج کو تعلیم آپ نے دی تھی۔جس عالم کے ہاتھوں طالب علم راہ راست سے بھٹک گئے یا معاشرے کیلئے اچھے ثابت نہ ہوئے، وہ ان کی بے راہ روی کا ذمہ دار ہوگا۔ وہ استاد بھی تھے جنہوں نے بڑی ایمانداری اور انتہائی محنت کے ساتھ بچوں کوایسا قابل انسان بنایا جو آج قوم کی خدمت کررہے ہیں۔ ان بچوں کے والدین اور وہ بچے بذات خود ان استادوں کی عزت اور احترام کرتے اور انہیں دعائیںدیتے ہیں اور فخر کرتے ہیں۔ 
اس کے برخلاف اگر اساتذہ خود ہی نقل کر کے یا رشوت دے کر پاس ہوئے ہوں یا سفارشی ہوں تو ان کے طالب علم کیا تعلیم حاصل کریں گے۔حال ہی میں ایک خبر نظر سے گزری کہ نائیجیریا میں پہلی کلاس کے اساتذہ کا امتحان لیا گیا تو100کے قریب اساتذہ فیل ہوگئے۔
استاد اور شاگرد کا رشتہ ادب و احترام رشتہ ہوتا ہے۔ ہمارے میٹرک کے امتحانات ہورہے تھے۔ ٹیچر راﺅنڈ لگا رہی تھیں ۔وہ ایک لڑکی کے قریب سے بار بار گزر رہی تھیں کہ اچانک انہوں نے اس لڑکی کا پرچہ چھین لیا کیونکہ وہ لڑکی اپنی قمیص کے دامن پر جوابات لکھ کر لائی تھی۔ہماری سمجھ میں یہ نہیں آیا کہ لڑکیوں کو کیسے پتہ چلا کہ یہی سوالات آئیں گے اور وہ انہی کے جوابات لکھ کر لے آئیں۔ 
یہ تو پرانے زمانے کی بات تھی، آجکل تو موبائل جیب میں ہوتے ہیں ، باتھ روم جاکر کسی بھائی یاسہیلی کو فون کیا اور جواب معلوم کرلیا جاتا ہے۔ اب تو بڑے گھر کے لڑکے چاقو کی نوک پر کتاب کھول کر نقل کرتے ہیں اور استاد بے چارے شکل دیکھ کر رہ جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے داخلے بھی آسانی سے ہوجاتے ہیں جبکہ اچھے لیکن غریب گھر کے طالب علم ڈونیشن یعنی ”عطیہ“ دینے کی سکت نہ رکھنے کے باعث اچھے کالجز میں داخلہ لینے سے رہ جاتے ہیں۔بعض اچھے اسکولوں اور کالجوں میں ایڈمیشن کیلئے رشوت چلتی ہے جو اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ غریب آدمی اس کا متحمل ہی نہیں ہو سکتا۔وہ طالب علم جو چاقو کی نوک پر امتحان دے کر پاس ہوتے ہیں ، وہ ملک کی باگ ڈور کیا سنبھالیں گے۔ یہ صرف لوگوں کو دکھانے کیلئے امتحان میں بیٹھتے ہیں اور ایسے ہی لوگوں نے کالجز اور یونیورسٹیوں میںاپنی پارٹی کے گروپ بنا رکھے ہیں ۔ شاید یہ لوگ تعلیمی اداروں میں صرف سیاسی پارٹی بنانے اور ووٹ حاصل کرنے کیلئے داخلے لیتے ہیں۔ آجکل تعلیمی اداروں میں تعلیم کم اور سیاست زیادہ چلتی ہے۔
 

شیئر: