Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

زکاۃ ، سماجی مساوات اور اتحاد کا ذریعہ

 اللہ تعالیٰ نے زکاۃ کو پاک کرنے کے لئے مشروع کیا ہے ، مالداروں کے دلوں کو، ان کے اموال کو اور مسلم سماج کو زکاۃ پاک کرتی ہے
*  * *مولانا نثار احمد حصیر القاسمی۔ حیدرآباد دکن* * *

اسلام میں زکاۃ کی بڑی اہمیت اور قدر ومنزلت ہے۔ یہ اس کے بنیادی ارکان میں سے ایک اور اہم مذہبی شعار ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ نے ہر صاحب نصاب مسلمان پر فرض کیا ہے۔ قرآن کریم میں 32 مقامات پر اسے نماز کے ساتھ ذکر کیا ہے جبکہ برکت کے مفہوم پر دلالت کرنے والے الفاظ بھی اتنی ہی بار وارد ہوئے ہیں۔ اللہ کے نبی کی بے شمار احادیث میں اس کی ادائیگی پر زور دیا گیا، اس کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا اور اس کی ادائیگی میں کوتاہی اور اس سے لاپرواہی برتنے والوں کے لئے وعیدیں سنائی گئی ہیں۔اس کا انکار کرنے والا کافر ومرتد ہوجاتا ہے، جس سے توبہ کرانے کے بعد بھی اگر توبہ نہ کرے تو اسلامی حکومت میں اس کا خون بے قیمت ہوجاتا ہے۔ اسے نہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جاسکتا ، نہ اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور نہ ہی کوئی مسلمان وارث اس کی میراث کا وارث ہوگا۔ یہاں تک کہ اگر کوئی اسلامی حکومت کے اندر ہو اور وہ بخل و طمع اور لالچ و حرص، مال کی محبت یا سستی ولاپرواہی کی وجہ سے ادا کرنے سے انکار کرتا ہے تو اس سے قتال کیا جائے گا۔
اللہ کے نبی کا فرمان ہے:
    مجھے حکم ملا ہے کہ میں ان لوگوں سے قتال کروں، یہاں تک کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیںاور محمد اللہ کے رسول ہیں اور وہ نماز قائم کریں اور زکاۃ ادا کریں، اگر انہوں نے ایسا کرلیا تو انہوں نے اپنی جان اورمال کو محفوظ کرلیا، سوائے اسلام کے حق کے (حدود اور قصاص کے ) اور ان کا حساب اللہ پر ہے۔(متفق علیہ)
    اس میں شبہ نہیں کہ زکاۃ اسلام کے اہم اقتصادی ستونوں میں سے ایک بڑا ستون ہے۔ یہ مسلمانوں کے لئے بڑی آمدنی کا ذریعہ اور اہم وسائل میں سے ہے، جس کا مقصد سماجی مساوات وبرابری قائم کرنا، معاشرتی اتحاد ویکجہتی بر قرار رکھنا اور سوسائٹی کے افرادکے درمیان جبری تعاون کو نافذ کرنا ہے، یہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی رحمت وعنایت ہے جسے اللہ تعالیٰ بہت ساری حکمتوں ومصلحتوں کے پیش نظر مشروع کیا ہے، اس کے مقاصد بڑے اونچے مصلحتیں بے شمار اور فوائد ہمہ جہت ولا محدود ہیں، جس کا صحیح علم تو اللہ ہی کو ہے مگر ان میں سے چند کی طرف خود اللہ تعالیٰ نے اس آیت قرآنی میں اشارہ کیا ہے:
     آپ ان کے مالوں سے صدقہ لے کر پاک کریں ان کواور بابرکت بنا دیں ان کو اسکے ذریعے اور دعائے رحمت کریں ان کے حق میں، بیشک آپ کی دعائے رحمت ان کے لئے سکون (و اطمینان)کا باعث ہے، اور اللہ سنتا ہے (ہر کسی کی)جانتا ہے(سب کچھ)‘‘ (التوبہ103)
اس کی مشروعیت کی حکمتوں ومصلحتوں میں سے بعض کا خلاصہ اس طرح کیا جاسکتا ہے:
    زکوۃ مالداروں، امیروں اور صاحب ثروت کے نفوس کو بخل ولالچ اور حرص وطمع کی گندگی سے پاک کرتا ، ان کے دلوں کو انانیت، حد سے زیادہ مال کی چاہت اور مال پر ٹوٹے پڑنے اور سمیٹ سمیٹ کر رکھنے کے جذبے سے صاف کرتا، مال ودولت کے حصول میں بے لگامی، خود غرضی اور بد ترین قسم کی لالچ سے دھوتا ہے۔
    زکوۃ مالداروں کو گناہوں، لغزشوں، کوتاہیوںاور معصیتوں سے پاک کرتا اور ان برائیوں ومعصیتوں کا کفارہ بنتا ہے، جس کا ان سے ارتکاب ہوتارہا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اگر تم اپنے صدقات ظاہر کر کے دو تو یہ بھی ایک اچھی بات ہے، اور اگر تم ان کو پوشیدہ رکھو اور محتاجوں کو دے دو، تو یہ تمہارے لئے اور بھی زیادہ اچھا ہے، اور (اس طرح ان صدقات و خیرات کی بنا پر)اللہ مٹا دے گا تم سے تمہارے کچھ گناہ، اور اللہ پوری طرح باخبر ہے تمہارے ان کاموں سے جو تم لوگ کرتے ہو۔(البقرہ271)
    جس مال کی زکاۃ نکالی جاتی ہے ،زکاۃ اس مال کو اللہ کے اور بندوں کے حقوق سے پاک کردیتی اور صاحب مال کے لئے اسے حلال وطیب اور عمدہ بنا دیتی ہے، ارشاد نبوی ہے:اللہ نے زکاۃ اسی لئے فرض کیا ہے کہ وہ اس کے ذریعہ تیرے بقیہ مال کو پاک کرکے عمدہ بنادے۔
    زکاۃ اسلامی معاشرہ کو فقر وافلاس، بے کسی وبد حالی، ناداری ومحرومی اور دست سوال پھیلانے سے پاک کرتی اوران ناداروں وبے کسوں کے دلوں سے بغض وعناد، نفرت وحسداور کینہ وکدورت سے دور کرکے اسے صاف کرتی ہے، انہیں طبقاتی کشمکش اور علاقائی تعصب سے نکال کر اخوت ایمانی کے پر فضا مقام پر لاکھڑا کرتی ہے۔
    اس سے اندازہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے زکاۃ کو مشروع ہی کیا ہے، پاک کرنے کے لئے ، یعنی مالداروں کے دلوں کو، ان کے اموال کو، ان کی آمدنی کو اور مسلم سماج کو، زکاۃ ہر ایک کو پاک کرتی ہے۔ اس کے نتیجہ میں زکاۃادا کرنے والے کا مقام ومرتبہ عند اللہ بھی بلند ہوجاتا اور سماج میں بھی وہ ہر دلعزیز ہوجاتا ہے، اس کے مال میں برکت ہوتی ، اس میں اضافہ ہوتا ہے، جبکہ وہ مال جو اس نے نکال کر غریبوں ومستحقین کو دیا ہے، اللہ اسے بڑھاتا رہتا اور ذخیرۂ آخرت بنا دیتا ہے، جو اس وقت اسے کام آئے گا جب کہ اسے کوئی کام دینے والا نہیں ہوگا، نہ مال اسے کام آئے گا نہ اولاد واحباب واقارب۔
    زکاۃ کی فرضیت میں بندوں کا امتحان وآزمائش بھی ہے کہ وہ اپنے اسلام میں سچے اور ایمان میں درست ہیں یا نہیں، ان کا اعتماد وبھروسہ اللہ کے وعدہ پر ہے یا نہیں، اللہ کے نبی نے فرمایا ہے:صدقہ دلیل ہے (یعنی ایمان کی درستی اور اسلام کی سچائی کی)۔(مسلم)
    کیوںکہ شیطان تو اسے اللہ کے راستہ میں مال خرچ کرنے سے روکنے پر ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوتا ہے، اور معاصی میں خرچ کرنے پر اکساتا رہتا اور ترغیب دیتا رہتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
    شیطان تم کو ڈراتا دھمکاتا ہے فقر (و محتاجی کے خوف)سے اور وہ سکھاتا ہے تم لوگوں کو (بے ہودگی و)بے حیائی جب کہ اللہ تم سے وعدہ فرماتا ہے اپنی طرف سے عظیم الشان بخشش اور مہربانی کا، اور اللہ بڑا ہی وسعت والا نہایت ہی علم والا ہے۔(البقرہ268)
    ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:
    3 چیزیںجو کرلے اس نے ایمان کا مزہ چکھ لیا، جس نے تنہا اللہ کی عبادت کی اور یہ کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور اپنے مال کی زکات خوش دلی سے نکالا اور ہر سال اسی طرح خوش دلی سے نکالتا رہے۔(ابوداؤد)
    زکاۃ دخول جنت کا اور جہنم سے نجات کا آسان راستہ ہے، حدیث میں ہے کہ ایک دیہاتی رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! مجھے کوئی ایسا عمل بتادیجئے کہ جس پر عمل کرنے سے میں جنت میں داخل ہوجاؤں تو اللہ کے نبی نے فرمایا:
    اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، فرض نماز قائم کرو، فرض زکاۃ ادا کرو، اور رمضان کے روزے رکھو، اس شخص نے کہا: اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے میں اس میں نہ کمی کروں گا نہ زیادتی، جب وہ مڑکر جانے لگا تو اللہ کے نبی نے فرمایا: جسے اس بات سے خوشی ہو کہ وہ جنت کے کسی شخص کو دیکھے تو اسے اس شخص کو دیکھ لینا چاہئے۔(بخاری)
    چوںکہ یہ سیدھے جنت کا راستہ ہے، اسی لئے اللہ نے اسے مسلمانوں پر ہی فرض کیا ہے، اس کی ادائیگی کو مسلم ملک کے غیر مسلم باشندوں پر فرض نہیں کیا ہے اور اگر کسی غیر مسلم نے زکاۃ دینا بھی چاہا تو رسول اللہ نے یا خلفائے راشدین نے اسے قبول نہیں کیا۔
    اللہ تعالیٰ نے زکاۃ کو مابقیہ مال کی بربادی سے حفاظت کا ذریعہ بنایا ہے، یہ اس مال کے لئے آفتوں اور حوادث سے بچاؤکی تدبیر اور امان وتحفظ کی صورت ہے، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ زکاۃکی آمیزش جب بھی اصل مال میں ہوجاتی ہے تو یہ زکاۃکا مال اصل مال کو ہلاک وبرباد کردیتا ہے، ایک دوسری روایت میں ہے کہ کبھی تمہارے مال میں زکاۃواجب ہوچکی ہوتی پھر تم اسے نہیں نکالتے ہو تو یہ حرام حصہ اصل حلال حصے کو تلف کردیتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے بلا وجہ زکات فرض نہیں کی بلکہ اس کے عظیم مقاصد اور بے شمار حکمتیں ہیں، جو مسلمانوں کے خلا کو پُر کرنے، دین حنیف کی مدد کرنے ، مسلمانوں کے درمیان باہمی تعاون کو فروغ دینے، مالداروں وغریبوں کے درمیان اخوت وبھائی چارگی اور الفت ومحبت کو پروان چڑھانے اور ملکی امن وسلامتی کو بر قرار رکھنے کے لئے ہیں۔
    نصاب زکاۃ مال کا وہ متعین حصہ ومقدار ہے جس سے کم میں زکاۃ واجب نہیں ہوتی، سونے کا نصاب رسول اللہ نے 20 مثقال یعنی ساڑھے 7 تولہ سونا مقرر کیا ہے جو 85 گرام کے مساوی ہے اور چاندی کا نصاب 200  درہم یعنی 52 تولہ خالص چاندی جو گرام کے حساب سے 595 گرام ہوتا ہے تو کرنسی یا روپے پیسے اگر 85 گرام سونے یا 595 گرام چاندی کی قیمت کو پہنچ جائیں اور اس پر سال گزرجائے تو اس میں زکاۃواجب ہوجائے گی یا عورتوں کے استعمال کے ہیرے جواہرات کے زیورات جو سونے یا چاندی میں سے نہ ہوں اس پر زکاۃ نہیں، خواہ اس کی قیمت کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو۔
    زکات کی ادائیگی میں اکثر غفلت وتساہل برتاجاتا ہے جو ایک مسلمان کے لئے مناسب نہیں، جو اپنے مال کی زکاۃ نہیں نکالتے کتاب اللہ میں ان کے لئے سخت وعیدیں آئی ہیں، سورہ توبہ کی آیت 34-35 اسی سے متعلق ہے۔
ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے نبی نے فرمایا:
    جو بھی سونے چاندی کا مالک اس کا حق ادا نہ کرتا ہو تو قیامت کے روز اسے آگ کی پلیٹ میں تبدیل کردیا جائے گا، پھر اسے جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا، پھر اس سے اس کے پہلو، پیشانی اور پشت کو داغا جائے گا، جب ختم ہوگا تو از سر نو یہ عمل شروع کیا جائے گا، ایسے دن انہیں یہ عذاب دیا جاتارہے گا جس کا ایک دن پچاس ہزار سال کے برابر ہوگا، یہ عذاب بندوں کے درمیان فیصلہ کئے جانے تک جاری رہے، پھر وہ اپنی راہ یا تو جنت کی طرف یا جہنم کی طرف دیکھ لے گا۔
    حضرت اسماء بنت زید فرماتی ہیں کہ میں اپنی خالہ کے ہمراہ رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئی ، میرے ہاتھ میں سونے کے کنگن تھے تو رسول اللہ نے فرمایا: کیا تم اس کی زکاۃ ادا کرتی ہو؟ میں نے جواب دیا : نہیں، تو آپ نے فرمایا: کیا تمہیں خوف نہیں کہ قیامت کے دن اس کی وجہ سے آگ کے کنگن پہنائے جائیںگے۔ (مسند احمد)
اسی طرح کی ایک روایت حضرت عبد اللہ بن عمر سے بھی مروی ہے کہ ایک بچی کے ہاتھ میں وزنی کنگن تھا تو رسول اللہ نے اسی طرح کا سوال کیا اور وعید سنائی تو عورت نے بچی کے ہاتھ سے وہ کنگن نکال کر رسول اللہ کو پیش کردیا کہ یہ اللہ کی راہ میں ہے۔
ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام میں زکاۃ کا نظام انسانی تاریخ کا پہلا ومنفرد نظام ہے جس کا مقصد غریبوں، ناداروں اوربے کسوں کی سرپرستی کرنا، ان کے پورے سال کے معاش کا انتظام کرنا، معاشرہ کے اندر اس کے افراد کے درمیان سماجی انصاف کو یقینی بنانا اور مالدار وغریب طبقہ کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرناہے۔
    اس کے مصارف اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں8 ذکر کئے ہیں(التوبہ60):
    فقراء یعنی ایسے نادار جن کے پاس مال واسباب تو ہیں مگراتنا نہیں ہیں کہ اس میں زکاۃ واجب ہوتی ہو۔
    مسکین ایسے غریب ونادار جن کے پاس کچھ بھی نہیں، جسے معدم اور ذا متربہ سے تعبیر کیا گیا ہے اور وہ نان شبینہ تک کے محتاج ہوتے ہیں۔
    زکاۃ وصول کرنے والے، جو اس کی وصولی میں اپنا وقت صرف کرتے، محنت وجد وجہد کرتے ہیں، انہیں بھی زکاۃ دی جاسکتی ہے، جیساکہ مدارس ودینی خدمات انجام دینے والے ادارے کی جانب سے مقرر کردہ سفراء حضرات۔
    تالیف قلب کے لئے غیر مسلموں کو بھی زکاۃ دی جاسکتی ہے اورایسے نو مسلموں کو بھی جنہیں دے کر ایمان میں پختگی پیدا کیا جانا مقصد ہو یا ایسے کافروں کو دیا جاسکتا ہے جن کے شر سے محفوظ رہنا مقصود ہو تاکہ اس کے اندر اسلام سے عداوت میں کمی آئے یا ایسے کافروں کو دیا جاسکتا ہے جن کے بارے میں توقع ہو کہ ان کی مالی مدد کرنے سے یہ اسلام کے دائرہ میں آسکتے ہیں۔
    گردن چھڑانے اور غلاموں کو آزاد کرانے کے لئے زکاۃ کی رقم دی جاسکتی ہے ، اب غلامی کا دور تو نہیں رہا مگر اس وقت ایسے مسلم نوجوان جو بلا وجہ فرضی الزامات کے تحت غیر مسلم حکمرانوں کی جانب سے گرفتار کرکے قید خانوں میں ڈال دئے گئے ہیں انہیں رہائی دلانے اور مقدمات وقانونی چارہ جوئی کے ذریعہ انہیں قید وبند سے آزاد کرانے کے لئے زکات کی رقم دی جاسکتی ہے اور اس مصرف میں وہ داخل ہیں۔
    مقروض کے قرض کی ادائیگی کے لئے زکاۃ کی رقم دی جاسکتی ہے، خوہ اس نے یہ قرض کسی بھی جائز مقصد سے لیا ہو، مثلاً بچوں یا بچیوں کی شادی کے لئے، کاروبار کے لئے، سرچھپانے کے مقصد گھر بنانے کے لئے، تعلیم کے لئے علاج معالجہ کے لئے کتابوں کی اشاعت کے لئے یا کسی بھی جائز وجہ سے ، اگر کسی نے قرض لیا اور اس کی ادائیگی سے قاصر ہے تو اسے ادا کرنے کے لئے زکاۃ دی جاسکتی ہے۔
    ساتواں مصرف ہے اللہ کے راستہ میں یعنی دین کے راستہ میں اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے جو بھی جد وجہد کررہے ہیں ،وہ مستحق زکاۃ ہیں، خواہ جہاد کے ذریعہ ہو، تعلیمی اسفار کے ذریعہ ہو، دعوت وتبلیغ میں وقت لگانے کے لئے ہو یا دفاع کے لئے آلات کی خریدی کے لئے ہو ، یا جس طرح بھی دین کی سربلندی اور اس کی حفاظت ہوتی ہو ، جیسے اس وقت برصغیر ہندو پاک میں مدارس اسلامیہ ہیں جو دین کی حفاظت کے سب سے بڑے قلعے ہیں۔
    ابن سبیل، مسافر یعنی کوئی کسی جائز کام سے سفر کرتا ہے، جیسے حج وعمرہ کے لئے ہو، دواعلاج کے لئے ہو، بھائیوں، عزیزوں یا کسی سے ملنے کے لئے ہو، یا ملازمت کی تلاش کے لئے ہو، یا کاروبار کے مقصد سے ہو یا صلہ رحمی یا دوستوں سے تعلقات استوار رکھنے کے لئے ہو، ظلم وزیادتی سے بچنے کے لئے ہو یا کسی بھی جائز کام کے مقصد سے ہو تو خواہ گھر میں مالدار ہو، اسے اگر سفر میں ضرورت پڑجائے تو اسے زکات دی بھی جاسکتی ہے اور زکات کے مال سے اس کا اپنی ضروریات پورا کرنا بھی درست ہے۔
    مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ خوش دلی سے اپنی زکاۃادا کریں اور انہی مصارف میں ادا کریں، صحابۂ کرام اور سلف صالحین رمضان میں زکاۃنکالنے کا اہتمام کیا کرتے تھے کیونکہ اس ماہ میں اجر وثواب 700 گنا تک زیادہ کردیا جاتا ہے۔

مزید پڑھیں:- - - - -لیلۃ القدر، امت محمدیہ کا خاصہ

شیئر: