اُم مزمل۔جدہ
وہ کھنکتی آواز میں کہہ رہی تھی کہ آئس کریم کے لئے سب کو ہی کنٹریبیوٹ کرنا ہے۔ وہ اس کی ہتھیلی میں گم تھا۔ وہ ہنس پڑی کہنے لگی آپ تو یوں چونک گئے ہیں جیسا کہ میں نے آپ سے آپکا ووٹ مانگ لیا ہو اور آپ کو اعتراض ہو کہ جب کوئی سہولت دیتے نہیںتو ووٹ بھی مت مانگو۔ بھئی والٹ سے پیسے دیجیے۔ اس نے اپنی ہتھیلی سے ہوا میں پنکھا جھلنا شروع کردیا۔وہ چونک گیا اور اپنا والٹ اس کے ہاتھ میں دے دیا ۔وہ حیرت سے بولی اتنے ڈھیر سارے نوٹ ،میرا مشورہ ہے آپ یہاں کسی پر اتنا اعتماد نہ کریںکہ اپنا بٹوہ ہی اٹھا کر دے دیں۔ وہ کہنے لگاکہ کسی پر نہیں،میں نے تو آپ پر اعتماد کیا ہے۔ وہ کہنے لگی بہت بہت شکریہ لیکن میرا مشورہ بے جا نہیںکیونکہ ہر مجرم جرم کرنا نہیں چاہتا لیکن اس کے حالات ایسے ہوجاتے ہیں کہ وہ کسی بھی کام کو یہ سمجھ کر کر گزرتا ہے کہ اس کے پاس دوسرا کوئی آپشن نہیں۔
دوسرے دن اچانک وہ چلاگیا ۔وہ جو اپنی لاڈلی بہن کے بیٹے کو اپنا ہی بیٹا خیال کرتے تھے اور اب ڈھائی ہفتے سے اپنے ملک میں موجود تھا کہ اس کی خواہش تھی کہ اپنی بھتیجی کو اپنے گھر ہمیشہ کے لئے لے آئے اور اسی لئے بیٹے کو یہاں امتحان کے بعد بھیجا تھا کہ اس کا حق بنتا ہے کہ وہ اپنی شریک حیات کو نکاح سے پہلے دیکھ لے اور اس نے یہاں آکراپنی جانب سے اقرار کرنے کے بعد اپنی والدہ سے جلد از جلد آنے کی فرمائش کی تھی کہ وہ واقعی پسند کئے جانے کے لائق تھی۔ خوش شکل، خوش اخلاق،اعلیٰ تعلیم یافتہ اور معاملہ فہم۔ ا سکی خوبیوں نے اس کو متوجہ کیا۔کوئی نہ جان سکا کہ کیا ایسا ہوا جو اس کے فیصلے کی تبدیلی کا سبب بن گیا اور جو اپنی والدہ کو آنے کی جلدی سیٹ کرانے کا مشورہ دے رہا تھا، اس نے اچانک خود ہی واپسی کی راہ لے لی۔
9 سال کے بعد وہ اپنے تین بچوں کے ہمراہ پھر اسی گھر میں آج واپس آیا تھا جس کے مکین نے پہلے بھی گرم جوشی سے اسے خوش آمدید کہا تھا اور آج بھی اسی قدر گرم جوشی ان کے سلوک میں موجود تھی۔ وہ خاندان بھر کی خیریت فرداً فرداً معلوم کرتا رہا لیکن اس کے ساتھ موجود تینوں بچوں کی موجودگی میں کوئی یہ سوال نہ کرسکا کہ تم اچانک کیوں چلے گئے تھے اور آج ان بچوں کی ماں کے بغیر یہاں آنا کیا معنی رکھتا ہے؟ وہ خود انتطار کر رہا تھا کہ وہ آج ہی آئے اور وہ اپنی زندگی کی سب سے بڑی بے وقوفی بتائے۔ اس کی یہ خواہش دوسرے ہی دن پوری ہوگئی جب وہ اپنے چاروں بچوں اور شریک حیات کے ہمراہ پہنچی۔اس نے دیکھا واقعی وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ خوب جچ رہے تھے۔ ان کے بچے بھی خوبصورت وذہین تھے ۔ہم عمر بچوں میں فوراً دوستی بھی ہوگئی ۔ایسا محسوس ہوا یہ تقدیر کے فیصلے تھے ۔انسان تو صرف ان پر عمل پیرا ہوتا ہے۔ کئی سال کے بعد وہ اپنی سوچ بتا رہا تھاکہ جب والدہ نے اپنے بھائی کی بیٹی کا ذکر اس کے لئے کیا تو اسے بھی اپنا بچپن جو بہت اچھا گزرا تھا ،یاد آیا اور اس آبائی گھر پہنچا تو ہر چیز نے اس کی آﺅ بھگت کی اور اس نے اپنی والدہ کو گرین سگنل دے دیا کہ آپ جلد از جلدآکر اپنے بیٹے کے سر پر سہرا سجادیجئے لیکن اس دن جب اسکی کزن نے آیس کریم کے لئے کہا تو اس نے قیافہ کیا کہ اس کی صحت و قامت دیکھنے سے بظاہریوں لگتا ہے کہ شاید اس کی عمر بہت مختصر ہوگی اور میں چاہتا ہوں کہ میرے بچوں کی تربیت اسکی ماں کرے۔ جب وہ دنیا میں ہی نہیں ہو گی تو یہ میری خواہش کیسے پوری ہو سکے گی ۔ بس اس نے فوری فیصلہ کیا اور والدہ کے آنے سے پہلے ہی دوسرے دن واپس چلا گیا پھرجس سے شادی ہوئی وہ تیسرے بچے کی پیدائش کے چند دنوں بعد مالک حقیقی سے جاملی۔
آج وہ پھر اسی گھر میں آیاتھا کہ جس کی عمر کم سمجھی تھی آج وہ اپنے بچوں کی پرورش خود کر رہی تھی اور وہ اب اس سے درخواست کر رہا تھا کہ وہ اس کے بچوں کی ذمہ داری بھی اپنے ذمہ لے لے کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ اس کے بچے وہی خوبیاں اپنائیں جو اس کی کزن میں ہیں۔ اس نے انکار نہیں کیااس کے کان میں اس کا بہت پہلے کہاگیا جملہ گونج گیا کہ ”کسی پر نہیں،آپ پر اعتبار کیا ہے“۔