رمضان کے بعد بھی مسجدوں کو آباد رکھیں
عہد کریں کہ رمضان کے بعد بھی اسی طرح صاف ستھری زندگی گزاریں گے جس طرح رمضان میں گزاررہے تھے
* * *مفتی تنظیم عالم قا سمی۔ حیدرآباد دکن * * *
رمضان المبارک کا شدت سے انتظار تھا مگر وہ اپنی تابانی کے ساتھ جلوہ افروز ہوا اور اس قدر تیز ی کے ساتھ رخصت ہوگیا ، محسوس ہورہا تھا کہ مہینہ ہفتہ میں سمٹ گیا ہے۔رمضان کا مہینہ طلوع ہوا تو سوچ رہے تھے کہ اس مرتبہ جی لگاکر عبادت کریں گے ، روزہ ، نماز ، زکوٰۃ ، تراویح ،اعتکاف اور شب بیداری کے ذریعے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی کوشش کریں گے،روئیں گے ،گڑگڑائیں گے،ندامت کے آنسو بہاکر اپنی زندگی کو گناہوں سے پاک کرکے عیدگاہ کا رخ کریں گے لیکن یہ منصوبہ بنتا ہی رہ گیا اور رحمتوں کا مہینہ آنکھوں سے ایسا اوجھل ہوا کہ ایک بد عمل سے بد عمل انسان کو حسرت رہ گئی اور ہر ایک کی زبان پر تھا کہ کاش رمضان کا مہینہ کچھ اور طویل ہوتا ۔ آہ…! جتنا ہمیں عمل کرنا چاہئے ،نہیں کرسکے،رمضان کے اس بابرکت مہینے کی قدر میں ہم سے کوتاہی ہوئی،اللہ معاف فرمائے اور جو بھی ٹوٹا پھوٹا عمل ہوا ، اللہ تعالیٰ شرف قبولیت سے نوازے۔ہر مسلم کا یہ احساس یقینا قابل قدر اور رمضان سے محبت کی واضح علامت ہے لیکن ذرا سوچئے کہ دل میں اتنا احساس پیدا کر لینا کافی ہے یا رمضان المبارک کے بعد بھی فرائض او راحکام ِشریعت کے ہم پابند ہیں ؟ رمضان المبارک میں اگرچہ عبادات کا رجحان بڑھ جاتا ہے اور ویران مسجدیں بھی بھرجاتی ہیں مگر عبادت اللہ تعالیٰ کی ہی کی جاتی ہے ،اسی کا خوف دل ودماغ میں بسا ہوتا ہے جو دراصل سارے گناہوں کے چھوڑنے اور نیکیوں کا اصل محرک ہوتا ہے ، یہی جذبۂ عبادت اور خوفِ الٰہی رمضان کے بعد بھی ہوناچاہئے ،اس لئے کہ رمضان میں جس طرح اللہ تعالیٰ موجود ہے، وہ سنتا اور دیکھتا ہے، عید کا چاند طلوع ہونے کے بعد بھی وہ اپنی ساری صفات کے ساتھ موجود ہوتا ہے اور ہمیشہ رہے گا، پھر ایک مسلمان کے لئے رمضان اور دوسرے مہینوں میں اس قدر تفاوت کہ رمضان کے بعد مسجدیں ویران ہوجاتی ہیں ، مساجد سے ایک2 صف کے علاوہ باقی صفوں کی چٹائیاں اٹھادی جاتی ہیں کہ اب مسلمان جمعہ کے علاوہ پنج وقتہ نماز کے لئے مسجدوں کا رخ نہیں کرتے بلکہ بسا اوقات نماز ِفجر اور دیگر بعض اوقات میں امام کو کسی شخص کے آنے کا انتظار رہتا ہے تاکہ جماعت بنائی جائے ،کیا مسلمانوں کے اس طرز سے احساس نہیں ہوتا اور غیر مسلم یہ نہیں سمجھیں گے کہ مسلمان رمضان کے پُجاری ہیں نہ کہ اللہ کے ۔اگر اپنے رب کو سجدہ کرنا اور اس سے تعلق مقصد ہوتا تو وہ رمضان سے پہلے زندہ تھے اور رمضان کے بعد بھی، مبارک مہینہ گزرجانے کے بعد بھی مسجدیں آباد رہنی چاہئے تاہم ایسا نہیں ہوتا ۔رمضان کے بعد پھر وہی جھوٹ، وہی رشوت ، وہی ظلم و زیادتی ،وہی بد نظری و زنا کاری ، وہی شراب نوشی اور ہزاروں جرائم کا بازار گرم ہوجاتا ہے اور رمضان میں جمع کی ہوئی نیکیاں رفتہ رفتہ ختم ہوجاتی ہیں۔ اگر اسکے اسباب تلاش کئے جائیں تو بڑی وجہ یہ معلوم ہوگی کہ رمضان کی حقیقت اور اسکے روح کو ہم نہیں سمجھ سکے یا سمجھنے کے بعد دانستہ طورپر ہم نے اسے اختیار نہیں کیا۔ محض ایک رسم کے طور پر روزہ کی اہم ترین عبادت ادا کرلی گئی۔
روزہ کی فرضیت کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
’ ’ اے ایمان والو ! تم پر روزے فرض کردیئے گئے جس طرح تم سے پہلے انبیاء کے پیروئوں پر فرض کئے گئے تھے ، اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی ۔‘‘(البقرہ 183)۔
اس آیت کے آخری جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ روزے کا حقیقی مقصد بندوں میں تقویٰ کی صفت پیدا کرنا ہے یعنی بندوں کا رب سے تعلق مضبوط ہوجائے ،قلب و ذہن میں اس کا خوف رچ بس جائے، روزہ داروں کی سوچ ان کے افکار وخیالات بدل جائیں ، گناہوں سے نفرت ہونے لگے اور ایک صالح معاشرہ کی تشکیل عمل میں آئے ۔ رمضان میں ایک بد عمل انسان بھی جب روزہ رکھتا ہے تو تنہائیوں میں بھی وہ کھاتا ہے اور نہ پیتا ہے حالانکہ کسی انسان کی نظر اسے نہیں دیکھ رہی ۔بند کمروں میں آسانی سے یہ کام انجام دیا جاسکتا ہے مگر وہ یقین کرتا ہے کہ مجھے میرا رب دیکھ رہاہے ، یہ احساس اور یہ ایمان اسے روزہ توڑنے والی ہرچیز سے روکتا ہے اور اسی احساس کے سبب تمام مسجدیں نمازیوں سے بھرجاتی ہیں ،عام گھروں میں بھی نماز کا چلن عام ہوجاتا ہے۔کیا بچے اور کیا عورتیں، سب نماز وں کے پابند ہوجاتے ہیں اور ایک بارونق ماحول بن جاتا ہے۔قرآن کریم کی مذکورہ آیت میں یہ ترغیب دی گئی ہے کہ جس طرح رمضان میں تمہیں اللہ کا یقین ہوجاتا ہے ،ہر وقت اس کا خوف تمہارے خون کے ساتھ پورے بدن میں دوڑتا ہے، اسی طرح رمضان کے بعد بھی یہی خوف طاری رہنا چاہئے اور ایک سچا مسلمان بن کر زندگی گزارنی چاہئے۔ رمضان کا ایک مہینہ در حقیقت اسی کی مشق کرائی جاتی ہے۔ تمام آداب واحکام کی رعایت کرتے ہوئے اگر کوئی شخص30 ایام روزہ رکھ لے تو یقینی طور پر اس کے بعد اس کی زندگی میں انقلاب برپا ہوگا ،وہ شخص نیک اور صالح انسان بن کر آسمانی احکام کا حقیقی متبع ہوگااور اگر روزوں کے آداب کی رعایت نہ کی جائے اور اس کے حقیقی روح کو نہ پہچانا جائے تو یہ روزہ صحیح نتیجہ پیدا نہیں کرسکتا ، جیسا کہ آج کل ایک انسان دسیوں رمضان گزارلیتا ہے مگر اس کے آئینۂ زندگی میں اس کا کوئی عکس نظر نہیں آتا ،رمضان کے بعد بے راہ روی اور گناہوں کا سلسلہ چل پڑتا ہے۔
رمضان کی آمد سے قبل جگہ جگہ استقبالِ رمضان او رمضان میں بھی مختلف جلسے جلوس کرائے جاتے ہیں اور قدردانی کی ہزار باتیں کی جاتی ہیں مگر یاد رکھئے! رمضان کی حقیقی قدر دانی اور اس کا حقیقی استقبال اس کے پیغام پر عمل کرنا ہے۔ اس کا پیغام ہے رمضان کے بعد اپنی زندگی اور افکار و خیالات کو پاک و صالح بنانا، عید کے بعد بھی وہی خوف الٰہی پیدا کرنا جو رمضان میں موجود تھا ، نماز وں کا اہتمام ، ذکر و اذکار کی کثرت ، موت کے بعد کی زندگی کا خیال، عذاب قبر اور عذاب جہنم سے نجات کی فکر اور حصول جنت و رضامندیٔ الٰہی پانے کا شوق۔ایک بندہ اپنے آپ کواللہ تعالیٰ کا حقیقی غلام بنالے اور اسے اپنا رب سمجھ لے تو شریعت کے سارے احکام اس کے لئے آسان ہوجائیں گے۔یہی ساری شریعت کا خلاصہ اور رمضان کا پیغام ہے۔رمضان کے پیغام کو سمجھے اور اس کے پیغام پر عمل کئے بغیر سحر و افطار کا بہتر سے بہتر نظم، بھوک و پیاس کو برداشت کرنے اور مساجد کو سجانے سے کچھ حاصل نہیں ہوسکتا۔ جس کی زندگی میں رمضان میں تبدیلی آئی اور یہ تبدیلی رمضان کے بعد بھی باقی رہی،اس کا ربط اور تعلق اللہ تعالیٰ سے مضبوط رہا تو جان لینا چاہئے کہ توفیق الٰہی نے اسے چن لیا اور رمضان کا غرض اور مقصد اس نے پالیا۔یہ شخص دنیا و آخرت دونوں جگہ کامیاب اور قابل صد رشک ہے۔ کتنے ایسے لوگ ہیں جنہوں نے رمضان عام دنوں کی طرح گزاردیا یا رسم کے طورپر روزہ رکھا لیا ، لوگوں کے ساتھ تراویح کی نماز پڑھ لی، نہ تو ندامت کا آنسو بہاکر اپنی زندگی کو صاف و ستھرا بنایا اور نہ ہی اس کی روح تک اس کی رسائی ہوئی مگر بہت سے ایسے بھی اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں جن کی زندگی کے لئے یہ رمضان انقلاب کا ذریعہ بنا، زندگی کو پاک و صاف بناکر اب وہ ایک سچا مسلمان بن کر زندگی گزارنے کا عہد کرچکے ہیں۔
رمضان کے آغاز سے قبل رسول اکرم نے صحابۂ کرام ؓ کو رمضان کی تیاری کے لئے جو طویل خطبہ دیا تھا اس میں اس مہینے کو صبر اور ہمدردی کا مہینہ قرار دیا ہے ۔صبر اس طرح کہ بھوک و پیاس کی شدت سے اگر انسان تڑپ اٹھے ،نفسانی خواہشات ابھرنے لگیں تو انہیں دبادیا جائے، کوئی گالی گلوج بھی کرے اور برا بھلا کہے تو اس پر بھی جواب نہ دیا جائے ۔صبر کا یہ اعلیٰ ترین درجہ ہے اور ایک مہینہ اس کی مشق کرائی جاتی ہے تاکہ رمضان کے بعد بھی یہی صبر زندگی میں باقی رہے، شریعت نے مسلمانوں کو اپنے آپ کو قابو میں رکھنے ، عقل و ہوش سے کام کرنے اور واقعات سے الگ ہوکر واقعات کے بارے میں سوچنے اور غور و فکر کرنے کی دعوت دی ہے جس کو قرآنی اصطلاح میں ’’صبر‘‘ کہا گیا ہے۔ انفرادی اور اجتماعی زندگی میں صبر کی بڑی اہمیت ہے۔ خوشگوار زندگی گزارنے کے لئے صبر کی اسی طرح ضرورت ہے جس طرح چلتے ہوئے انسانی جسم کے لئے خون کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک مسلمان کو رمضان کے مبارک مہینے سے صبر کا پیغام قبول کرنا چاہئے اور اس پر سختی سے عمل کرنا چاہئے ،معمولی معمولی باتوں میں جذباتیت اور اشتعال مسلمانوں کے لئے نہایت نقصان دہ اور برے نتائج کا حامل ہے۔
رمضان کے مہینے میں ہمدردی اور انسانیت شباب پر ہوتی ہے۔ اپنے رشتہ داروں اور پڑوسیوں اور دوست واحباب کے علاوہ ملت کے غرباء و محتاجوں کی ضروریات اپنی اپنی سطح کے مطابق پوری کرتے ہیں ۔ انہیں افطار بھیجتے ہیں ، کپڑے اور مختلف تحفے دیتے ہیں۔ یہ انسانیت اور ہمدردی اسلام کی اولین تعلیم ہے مگر عید کا چاند طلوع ہونے کے بھی یکایک دل سخت ہوجاتا ہے۔ معمولی مفاد کے لئے رشتہ داریاں بھی ختم کرلی جاتی ہیں اور پھر قتل و قتال ،لڑائی جھگڑوں کا ایک سلسلہ چل پڑتا ہے۔ کیا یہی رمضان کی قدر دانی ہے ؟ عید کے بعد جب تک اس کے پیغام پر سختی سے عمل نہ کیا جائے اور اپنی زندگی میں تبدیلی نہ لائی جائے ،سیکڑوں رمضان بھی آپ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکتااس لئے آئیے ہم عہد کریں کہ رمضان کے بعد بھی اسی طرح صاف ستھری زندگی گزاریں گے جس طرح رمضان میں گزاررہے تھے، اگر یہ جذبہ پیدا ہوگیا تو دنیا و آخرت میں ہماری کامیابی ہے اور یہی اسلام کا حقیقی پیغام ہے۔