دِینِ اسلام اس لئے نہیں کہ ہر صدی کے بعد اس کے قواعد اور عقائد کو پھر سے موضوع بنا لیا جائے بلکہ’’ یہ تو مکمل ہے
ہمایوں رشید ۔ راولپنڈی
ارشاد ربانی ہے:
’’اور سب اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑے رہنا اور متفرق نہ ہونا۔‘‘( آل عمران103)۔
کسی بھی مذہب یا قوم میں فرقے تب بنتے ہیں جب وہ انفرادیت کو اجتماعیت پر فوقیت دیتے ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے اس دین کو مکمل کر دیا تبھی کلام پاک میں بتا دیا:
’’اور جو شخص سیدھا راستہ معلوم ہونے کے بعد پیغمبرؐ کی مخالف کرے اور مومنوں کے راستے کے سوا اور راستے پر چلے تو جدھر وہ چلتا ہے ہم اسے ادھر ہی چلنے دیں گے اور جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بری جگہ ہے۔‘‘(النساء115)۔
پس ہر مسلمان پر یہ لازم ہو گیا کہ جس(سیدھے) راستے پر مسلمان چل رہے ہیں اْسی کو اپنائے۔ دین ایک تسلسل ہے اور ہر نسل اپنے سے اگلی نسل کو مکمل دین دیتی چلی آئی ہے۔ یہ امتِ مسلمہ کا طرہ ٔامتیاز ر ہاہے کہ اس میں علم کیساتھ ساتھ سند کا بھی التزام کیا گیا ہے۔ مسائل میں اختلاف آج نہیں بلکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور میں بھی تھا بلکہ رسول اللہ کے دور میں بھی ہوا تو آپ نے اسے بْرا نہیں کہااور اختلاف تو ہر فہم رکھنے والوں کے درمیان ہوتا ہی ہے لیکن مشکل تب ہوتی ہے جب اس اختلاف کی وجہ سے پہلوں کو مطعون کیا جائے اور اْنہیں چھوڑ کر نیا نام رکھ لیا جائے اگرچہ بے نام ہی رکھے۔ قرونِ ا ولیٰ ہی میں ایک ہی مسئلے کے کئی حل دئیے گئے جس پر لوگوں نے عمل بھی کیا لیکن کسی نے بھی جماعت کو نہیں چھوڑا۔
اْوپر مذکور آیت میں مومنین کے راستے پر چلنے کا کہا جا ر ہاہے۔ اسے بغور دیکھا جائے تو فرقہ واریت ختم ہو جاتی ہے۔ مثلا ًکسی ایک مسئلے میں اول صدی میں 3رائے بن گئیں‘ پھر2 تین صدیاں گزرنے کے بعد لوگوں نے ایک کو بالکل ہی متروک کر دیا اور باقی پر عمل جاری رکھا۔ پس اب مذکورہ آیت کے مطابق اس تیسری چیز کو چھوڑ دیا جائے گا کہ یہ ترک مومنین کا طریقہ بن گیا ہے۔ اسی طرح اگر اْمت اول سے ایک مسئلے میں3 رائے رکھتی ہے تو اب ان میں کوئی چوتھی رائے قائم کرنا بھی گروہ بنانے والی بات ہے کہ مومنین کا راستہ تو یہ تھا ہی نہیں۔ اگر ان دونوں اصولوں کو دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ اختلاف بڑھ نہیں سکتا کم ضرور ہو سکتا ہے اَگر لوگ عمل کریں تو۔
امت گمراہ نہیں ہو گی اور امت کے ساتھ جڑ کر رہنے کی تعلیم رسول اللہ نے بار بار دی ہے، فرمایا:
’’اللہ تعا لیٰ امت محمدیہ کو کسی گمراہی پر اکٹھا نہیں کرے گا۔‘‘(ترمذی)۔
اور فرمایا:
’’بڑے گروہ کی پیروی کرو ،پس جو علیحدہ ہو گیا آگ میں ڈالا گیا۔‘‘(مشکٰوۃ،باب الاعتصام بالکتاب والسنہ)۔
نیا راستہ جو اختیار کیا جاتا ہے وہ شروع میں غلط نہیں لگتا۔سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں،رسول اللہ نے ایک خط کھینچا اور فرمایا:
’’ یہ اللہ کا راستہ ہے۔‘‘
پھر اس سے نکلتے دائیں بائیں خط کھینچے اور فرمایا :
’’یہ راستے ہیں کہ ہر ایک پر شیطان بیٹھا ہے اور اس کی طرف بلا رہا ہے۔‘‘
پھرآیت مبارکہ تلاوت فرمائی،ترجمہ:
’’پس اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ نیاراستہ نکالنے والا بالکل ہی کوئی نئی بات شروع کرتا ہے تو ایسا نہیں۔‘‘
بلکہ یہ نئے راستے شروع تو اسی اصل راستے سے ہوتے ہیں لیکن جب آدمی یہ دیکھے بغیر کہ مومنین کا رخ کس طرف ہے کوئی رستہ اختیار کر لیتا ہے تو اول قدم پر تو شا ید یہ نظر نہ آئے کہ نئی سمت میں چل پڑا ہے لیکن ایک وقت ایسا ضرور آئے گا کہ شیطان کا شکار ہو جائیگا۔ اکثر لوگ اسی پہلے قدم پر غلطی کرتے ہیں پھر اس کے بعد کم ہی ہیں جو سنبھلتے ہیں۔
یہ تو امت کے ساتھ جْڑ کر رہنے کی بات ہوئی ۔اب جو علیحدہ ہو گا اْس کے بارے میں سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ رسول اللہ سے روایت کرتے ہیں:
’’شیطان انسان کا بھیڑیا ہے،جو علیحدہ ہو ا یا ذرا ہٹے اْسے اْچک لیتا ہے، وادی میں جانے سے بچو اور تم پر لازم ہے کہ جماعت اور عموم کو لازم پکڑنا۔‘‘(مسنداحمد)۔
جس طرح کوئی بکری زیادہ ہریالی دیکھ کر باقیوں سے علیحدہ ہو جائے اور وادی میں اتر جائے تو بھیڑئیے کا تر نوالہ بن جاتی ہے، ایسے ہی بعض انسان اعلیٰ فقیہ ظاہر ہونے کے لالچ میں یا لفاظی کے چکر میں اپنی رائے قائم کرنے لگتے ہیں، پس شیطان انہیں اْچک لیتا ہے اس لئے لازم ہے کہ انسان مومنین کی عمومی رائے کو نہ چھوڑے اور ان کی اکثریت سے بیزاری کا اظہار نہ کرے یہاں تک کہ سیدنا ابوذر و ابن عمر رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ سے روایت کیا ہے:
’’جو جماعت سے ایک بالشت علیحدہ ہو گیا اُس نے اسلام کو اپنے گلے سے اْتار پھینکا۔‘‘
پس ہم پر لازم ہے کہ امت سے علیحدہ نہ ہوں اور نئی رائے قائم نہ کریں بلکہ جو امت نے کہا اور جسے عمومی قبولیت حاصل ہو گئی وہی اختیار کریں۔ تقریبا ًایک صدی ہونے کو آئی کہ لوگ من پسند تفسیریں کرتے ہیں اور سمجھنے کا دعویٰ کرتے ہیں حالانکہ یہ تفسیر یں شرحیں اور تاریخ امت کے متفق علیہ مفاہیم کے خلاف ہوتی ہیں،ان سے ہوشیار رہیں۔ دِینِ اسلام اس لئے نہیں کہ ہر صدی کے بعد اس کے قواعد اور عقائد کو پھر سے موضوع بنا لیا جائے بلکہ’’ یہ تو مکمل ہے‘‘ بس اب اس پر عمل کریں اور جو امت نے کہا وہ بیان کرتے رہیں۔ نئی بات یا تفسیر گھڑنے کی ضرورت ہے ہی نہیں تو مشکل میں کیوں پڑا جائے؟ نئے پیش آمدہ مسائل میں غور کریں اور علمائے کرام رحمہم اللہ کے اختلاف کی صورت میں جس پر اعتماد ہو یا اقرب الی الکتاب والسنہ لگے اْس پر عمل کر لیں۔
اللہ تعا لیٰ ہمیں مومنین کے رستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے،آمین۔
مزید پڑھیں:- - - - - -اولاد کی تربیت محبت سے