جس کے سر پر چھت، پیروں تلے زمین تھی، آج سڑک پر آگئی تھی
اُم مزمل۔جدہ
وہ درخت کے سائے میں گرتے پتوں کی صفائی کر رہی تھی۔ وہ ماں کے پاس بیٹھا ٹھنڈی میٹھی مزیدار لسی کا دوسرا گلاس ختم کر رہا تھا۔ اس نے کہا کہ واقعی ماں کے ہاتھوں میں تو لگتا ہے، انوکھا پن ہے کہ یہی دودھ دہی کی لسی میں روزانہ سحری میں پورا گلاس بھر کر لیتا ہوں لیکن آج وہی ماں کے ہاتھوں بنا تو دوسرا گلاس ختم کرنے پر بھی دل نہیں بھرا ۔ ایسی لذت ماں کے ہاتھوں کا ہی کمال ہو سکتی ہے ورنہ لوگ تو شہر میں بھی دودھ دہی کی لسی بناکر اپنی دکان پر یا ریسٹورنٹ میں قیمتاً دیتے ہی ہیں ۔ ماں نے کہا ، گھر کی بنی ہر چیز میں برکت ہوتی ہے ۔
چھوٹا بھائی دور سے ہی شور مچاتا آیا ، باجی جی جلدی سے ریڑھی دے دو ہم لوگوں کو آم توڑنے کے بعد میچ دیکھنے جاناہے ۔ معلوم ہے اتنی بڑی اسکرین لگا رہے ہیں کہ پورا گاﺅں ہی میدان میں جمع ہوجائے تو میچ دیکھ لے ۔ بڑے بھائی کو اس نے اور تفصیل بتائی۔ ہم سب وہیں تھے ۔ اتنی بڑی گاڑی آئی اور سب لوگ جو دن میں لکڑیوں سے سیڑھیاں بنا رہے تھے، وہ سیڑھیاں نہیں تھیں بلکہ دیوار جیسا بناکر اس پر ٹی وی لگا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ دیگ بھی کل چڑھائیں گے ۔سب گاﺅں والے وہیں جمع ہیں ۔وہ بے دلی سے دوبارہ دوسرے صحن کی صفائی کرنے لگی۔
بڑے بھائی نے کہاکہ تمہاری سہیلیاں جائیں تو تم بھی چلی جانا۔ وہ بولی، میچ کی تو مجھے سمجھ نہیں آتی اس لئے سب جائیں گی اور مجھے بلائیں گی مگرمجھے نہیں جانا ،مجھے تو اس دن کا انتظار ہے جب بھائی ہم سب کو بھی شہر بلالے گا ۔ابا ہمارے پاس تھے جب ہی تم نے شہر جاتے وقت کہا تھا کہ ہم سب کو بھی شہر میں گھر لیکر رکھو گے اور ابا نے کہا تھا کہ جب تک وہ ہیں، گاﺅں چھوڑ کر کہیں نہیں جائیں گے اور اب تو وہ یہ جگہ کیا دنیا ہی چھوڑگئے ۔پتہ نہیں شاید یہ سوچا ہو کہ ہم لوگ بڑے ہوگئے ہیں تو خود اپنی زندگی جی لیں گے اس لئے اب تم ہم سب کو شہر
بلا لو۔
بھائی بولا، شہر میں رہنا اتنا آسان نہیں ۔وہ چھٹ بولی جہاں تم رہتے ہو وہیں لے چلو ۔ وہ تنگ آگیا۔ ماں اسکی دیرینہ خواہش جانتی تھی۔ اسی لئے کہا کہ جب بھی انتظام ہوجائے گا تو یہاں کا گھر بھی تو دیکھنا ہوگا ۔اپنی سوسال پرانی جگہ تو یونہی نہیں چھوڑ سکتے۔ وہ اپنی شہر میں بسنے کی خواہش سے کسی صورت پیچھے نہیں ہٹنا چاہتی تھی ۔جب ہی اس نے فوراً مسئلے کا حل بتلادیا ۔ کہنے لگی کہ یہاں اس گھر میں ہے ہی کیا، چند چارپائیاں،پرانے کھیس اور اپنا وقت پورا کرچکنے والے مٹی کے برتن،دوگھڑے ،تین صراحیاں، اسی قسم کی چیزیں جن سے بس زندگی کو دھکا دیتے رہے ہیں ۔دیوار میں بنے طاق اور الماریاں تو یہاں سے اپنے ساتھ نہیں لے جاسکتے۔ بھائی کہنے لگاکہ وہاں جانا الگ بات ہے لیکن گھر بار ختم کرکے جانا توحماقت ہوگی۔
وہ بھائی پر طنز کرتے ہوئے کہنے لگی ،ہاں خود شہر میں رہو، شادی بھی شہری لڑکی سے کر لینا اور پھر ہمیں بتانا کہ وہ چونکہ شہر کی رہنے والی ہے اس لئے وہیں رہنا ہوگا اور ہمارا کیا کہ نہ پڑھیں نہ لکھیں، نہ شہر کی رونق دیکھیں۔ بس اسی دھول مٹی میں زندگی گزاردیں۔ یہاں تو شہرجیسی ایک بھی سہولت نہیں ،وہاں تو ایک بٹن دباﺅ تو کپڑے کی مشین کپڑے دھودیتی ہے اور لکڑی کے چولہے کی بجاے بجلی کے چولہے پر سب کھانا منٹوں میں تیار ہوجاتا ہے۔ ابھی اور بھی وہ کہتی کہ وہ ماں کو یہ کہتے ہوئے وہاں سے اٹھ گیا کہ تم لوگ جب بھی آنا ہو، بتادینا، میں خود لینے آجاﺅں گا یا پھر خط لکھ کر بتادوں گا کہ کیسے تم سب کو آنا ہے۔ چاہے اس گھر کو رہنے دو، چاہے بیچ دو، مجھے اس بارے میں اور کچھ نہیں کہنا ۔
بہن کی تلخ باتیں ایسی تھیں کہ وہ سوچے سمجھے بغیر فیصلہ اس کے ہاتھ میں دے کر چلا گیا۔ اسے یہ بات سب سے بری لگی تھی کہ وہ اسے خودغرض کہہ رہی تھی کہ صرف اپنا بھلاچاہا اور گھر والوں کو بھول گیا ۔
5 مہینے کے بعد گھر کا انتظام ہو ا تھا لیکن اس نے خط لکھا تھا کہ اپنا گھر بیچنے کی ضرورت نہیں لیکن وہ تو یہاں سے ایسی جانا چاہتی تھی کہ دوبارہ یہاں کے تمام راسے بند ہو جائیںاور ہمیشہ شہری زندگی ہی گزاریں۔ اسی دوران ایک نیا شادی شدہ جوڑا تو شہر سے گاﺅں آیا تھا معلوم نہیں کیوں لیکن انہیں گھر کی ضرورت تھی اور اس نے اپنی ماں سے کہا کہ امیر لوگوں کو شوق ہوتا ہے ہر جگہ گھر خریدنے کا، اسی لئے یہ لوگ یہاں گھر خریدنا چاہتے ہیں ورنہ چند دنوں کے بعد ہی ان کا دل بیزار ہو جائے گا۔
گھر کے کاغذات بن گئے، پیسے مل گئے مارے خوشی کے وہ ہر ایک کو بتاتی کہ بس ہم فلاں دن شہر بھا ئی کے پاس چلے جائیں گے لیکن نجانے کیا مشکل ہوئی کہ پھر اس کے بھائی کافون نہیں آیا۔ نہ ہی گھر والوں کو لینے آیا۔ اب تو ایک ایک دن گزارنا اس کے لئے مشکل تھا۔ جن جن کے سامنے کہتی رہی تھی کہ اب ہم لوگ بس چند دنوں میں شہر جارہے ہیں ،جاکر بتائیں گے کہ گھر کہاں ہے تو تم لوگ بھی ہم سے ملنے آنا ، لیکن بھائی کے فون کا انتظار ہی رہا ۔آخر کار اس دن کسی طرح بھائی سے فون پر رابطہ ہو گیا۔ آواز خراب تھی۔ لائن بھی کھڑ کھڑ کر رہی تھی ۔پہلے تو اس نے یہی سمجھا کہ کسی اور کی آواز ہے لیکن جب پوچھا کہ بھا ئی ہم لوگ تمہارے فون کا انتظار کرتے رہے، اب فلاں گھر کی مالکن نے اپنے گھر سے فون کرنے کی اجازت دی ہے۔ تو بھائی کیا ہم لوگ خود شہر آجائیں ،تم ہم لوگوں کو اسٹیشن لینے آجانا۔
کچھ دیر خاموشی کے بعد تیسرے دن کی ٹرین سے آنے کا کہا۔ اسے خوشی نے غور کرنے کی مہلت ہی نہیں دی کہ وہ اتنا کم کیوں بول رہا ہے ۔بس ذہن میں یہی رہا کہ بھائی چونکہ اس فیصلے سے بہت خوش نہیں ، اس لئے کم سے کم بات کر رہا ہے۔ وہ خود ہی جلدی جلدی بتانے لگی کہ چھوٹا بھائی بھی خوش ہے ۔ماں نے بھی تیاری کر لی ہے۔ گھر بیچ دیا ہے ۔انہوں نے ہمیںاچھی رقم دی ہے۔ ہمیں شہرمیں کوئی دشواری نہیں ہو گی۔
ٹرین اپنے وقت پر پہنچی اور ان لوگوں کی طرف ایک غیر شناسا شخص تیزی سے آیا اور اس کے بھائی کا نام لے کر کہا کہ آپ لوگ اس کے گھر والے ہوناں ؟ ان لوگوں نے مثبت جواب دیا تو اس نے بتایا کہ میں اس کا دوست ہوں ۔وہ ابھی یہاں ہوتا اگر اس کے مالک نے اسے کام سے نہ بھیجا ہوتا ۔اس نے مجھے آپ سب کو لینے بھیجااور کہا ہے کہ وہ جب تک گھر پہنچ جاے گا ۔ شہر آنے کی ایسی خوشی تھی کہ کیسی طلسمی جگہ ہے کہ ہر ایک چیز انوکھی اور انہونی لگ ری تھی اور کسی کو بھی کیا ضرورت ہے کسی کے گھر والوں کو گھر پہنچائے۔یقینا یہ بھا ئی کا بہت ہی اچھا دوست ہوگا جو اسٹیشن لینے آگیا ۔اب ذہن نے سوچا یہاں پر اتنی رونق ہے۔ بھائی نے پتہ نہیں کتنی دور اپنا گھر لیا ہوگا لیکن گھر تھا کہ آکر ہی نہیں دے رہا تھا۔ اب تو دیر بھی ہو گئی تھی اور راستہ بھی سنسان ہوتا جا رہا تھا ۔آخر کار ماں نے کچھ پریشانی محسوس کی اور کہا کہ اس اندھیرے گھپ راستہ پر کہاں لے کر جارہے ہو؟ ایسا کرو ،دوبارہ ریل گاڑی کے اسٹیشن پہنچادو۔ خود وہ جب بھی آئے گا، ہم لوگ اسی کے ساتھ آجائیں گے۔ اس نے کہا زیادہ دور نہیںہے۔ یہ کہہ کر وہ اور زیادہ تیز چلانے لگا ۔اب تو انہیںبھی خطرے کا احساس ہو گیا تھا کہ اچانک ان دونوں نے چیخنا شروع کر دیا لیکن کوئی دور دور تک روشنی نظر نہیں آرہی تھی ۔ اس نے اپنی اصلیت بتادی کہ میرااس سے کوئی واسطہ نہیں۔ میں نے تو اس کو جیل کی ہوا کھلادی ہے ۔بڑا ایا تھا میرے خلاف گواہی دینے کہ اسٹریٹ کرائم میں میری گولی سے طالب علم جاں بحق ہو گیا ہے۔ اسے شاید میرے واسطے کا اندازہ نہیں تھا۔ اب سچی گواہی کا مزہ تب آئے گا جب کئی سال میرے بدلے میں اسے چکی پیسنی پڑے گی ۔اس روح فرسا خبر پر ماں نے اندازہ لگالیا کہ یہ کیسی دشمنی پر اتر آیا ہے ۔آخری چیخ اتنی تیز تھی کہ بیٹی نے گاڑی کا دروازہ کھول دیا۔ اس نے اپنے پستول سے بھائی کو ڈرانے کے لئے فائر کردیا۔ گولی چھوٹے بھائی کی ٹانگ میں لگی۔
وہ جو ماں کے وجود کو ساکت محسوس کرکے خود بھی ساکت ہو کر رہ گئی تھی، اچانک فائر کی آوازسے چونکی ۔ پٹرولنگ پر موجود پولیس انکی مدد کو پہنچ گئی۔ قدرت نے ماں کی دعا کو قبولیت بخش دی تھی۔
وہ نئی جگہ پر پریشان تھی اور کہہ رہی تھی کہ ہم لوگ یہاں کیسے رہیں گے ۔کوئی جگہ بھی رہنے کی نہیں اور گاﺅں میں تو کوئی ریسٹ ہاﺅس بھی شاید نہیں ہوتا ۔وہ کہنے لگا اللہ کریم انتظام فرما دے گا اورپھر قریبی مسجد میں نماز ادا کرنے چلا گیا۔ وہاں بچے تماشے کی طرح ارد گرد تکتے تھے کہ دو بچے آم کی ریڑھی لئے باتیں کرتے جارہے تھے کہ ہم لوگ اب شہر میں رہیں گے ،گھر بھی یہاں کا بیچ دیں گے۔ پھر تم لوگ بھی ہمارے شہر والے گھر آنا۔ وہ نماز پڑھ کر آیا تو اس نے بچوں کی یہ بات بتائی۔ وہ مسکرایااور کہا کہ دیکھو کسی کا احسان بھی نہیں لینا پڑا اور قدرت نے انتطام کر دیا۔
وہ پہلے دن بالکل بھی خوش نہیں تھی۔ کہنے لگی کہ آپ سمجھتے ہیں کہ مجھے ان خواتین کو قرآن شریف پڑھانا چاہئے کہ وہ علم حاصل کر پائیں کہ ہمیں اس دنیا میں کیسے رہنا ہے ؟کیا عبادت کرنی ہے؟ لیکن وہ لوگ تو کوئی دلچسپی نہیں لے رہے کہ ہم نماز پڑہتے ہیں اور قرآن کریم کی تلاوت بھی کرتے ہیں، لیکن سچ تو یہ ہے کہ انہیں درستگی کی ضرورت ہے ۔ وہ کہہ رہا تھاکہ یہی تو تمہارا امتحان ہے کہ انہیں پڑھاﺅ۔ وہ ہر نماز میں مالک حقیقی سے دعا کرتی۔ بالآخر کئی عورتیں سپارہ لے کرآئیں کہ ہماری اصلاح کردو۔ اس دن آغاز تھا۔پھر اس محلے کی ہر عورت، لڑکی اور بچی نے قاعدہ پڑھ کراپنے مخارج درست کئے اور پھر تیسواں پارہ وہ زبانی یاد کرانے لگی۔ اب اس علاقے کی ہر لڑکی نے تیسواں پارہ زبانی یا د کر لیا۔
وہ نہایت خوشی سے وہ دن یاد کررہی تھی کہ میری ملاقات آپ لوگوںسے ہوئی تھی تو لگتا تھا کہ یہ کام بہت مشکل ہے لیکن جب یہ کام مکمل ہوگیا تو محسوس ہوا کہ جیسے کوئی مشکل کبھی درپیش نہیں آئی ۔سب کچھ آسانی سے ہوتا چلا گیا۔
آج وہ باغ کے آم لے کر اپنے میکے اور سسرال جارہی تھی کہ وہی لڑکی راستے میں ملی جس نے اپنا گھر ان کے ہاتھ فروخت کیا تھا اور اپنے گھر کی برابر والی زمین بھی جس پرآم کے درجنوں درخت ایک باغ کی صورت اختیار کر چکے تھے۔ وہ آج آم ٹھیلے پر رکھے فروخت کر رہی تھی۔ اس کی دلدوز داستان سن کر اس کی آنکھوںمیں آنسو آگئے کہ اس کے بھائی کو جیل ہوئی،ماں فوت ہوگئی،گولی سبب بنی چھوٹے بھائی کی معذوری کا۔ وہ جس کا آبائی گھر بار تھا، اپنے بچپن کے لوگ تھے، سر پر چھت تھی ،پیروں کے نیچے اپنی زمین تھی، آم کا چھوٹا سا باغ تھا جو رزق کا ذریعہ بھی تھا،وہی شخصیت آج سڑک پر آپہنچی تھی۔
٭٭ جاننا چاہئے کہ شکر گزاری، نعمت کی فراوانی کا ذریعہ ہے اور ناشکری موجود نعمت کو معدوم کر دیتی ہے ۔