’’ اس خوش فہمی میں مبتلا نہ رہناکہ تم میرے خوابوں کی تعبیر ہو۔۔۔۔۔یہ کسی زاویہ سے ممکن نہیں۔۔۔۔‘‘ویسے میرا جرم کیا ہے میں نے ایسا کونسا گناہ کردیا؟ثانیہ نے سوال کیا
ناہید طاہر،ریاض
قسط13
شہر واپسی پر دادونے ملازموں کو حکم دے رکھا تھاکہ گاڑی کو دْلہن کی طرح سجادیا جائے۔’’یہ کیا تماشہ ہے ‘‘رضا زیرِلب بڑبڑایا اس کی یہ جھنجھلاہٹ ثانیہ سے چھپ نہ سکی۔۔۔اس کی آنکھیں شدت کرب سے سرخ ہوگئیں۔۔۔۔۔اس کو کسی کے جذبات واحساسات کا لحاظ ہی نہیں تھا۔پتہ نہیں کس قسم کا انسان ہے؟وہ سوچنے لگی۔
"دادو آپ کی محبتوں کو سلامِ عقیدت پیش کرتا ہوں۔۔۔"
"آپ نے ثانیہ جیسی سلیقہ شعار لڑکی سے میرا بیاہ کرواکر میری زندگی گلزار بنادی۔۔۔۔۔وہ تصنع سے کام لے رہا تھا۔چہرے پر مصنوعی مسکان صاف عیاں تھی۔
رضا احمدجھوٹ بولنا کوئی آپ سے سیکھے۔۔۔۔!!!ثانیہ کڑوے گھونٹ پیتی ہوئی سوچنے لگی۔دوسرے ہی لمحہ وہ دادو سے لپٹ گیا شاید وہ اْنھیں یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ وہ اپنی ازدواجی زندگی سے کافی خوش و مطمئن ہے۔۔۔دادو بھی رضا سے لپٹ کر بڑے جذباتی ہوگئے۔۔۔۔۔ان کی آنکھیں نم ہوگئیں۔ پوتے کی خوشیوں پر نچھاور ہوتے ہوئے اپنی چیک بک پرایک ڈیجٹ کے آگے پتہ نہیں کتنے صفر کا اضافہ کیا اور چیک رضا کے ہاتھوں میں تھما دیا۔ ثانیہ حیرت سے دیکھتی رہ گئی۔رضا اپنی جیت پر مسرورسر شاری سے جھوم رہا تھا اور وہ دادوْکے گلے لگ کر دکھ سے رو دی۔۔
’ اْستانی کوئی غم نہ کرو۔۔۔۔ان شاء اللہ میں شہر آتا رہوں گا۔۔۔ بس اس کم بخت کا خیال رکھنا۔۔۔آزاد پنچھی ہے۔۔۔!
ویسے میں نے اس بیاہ سے اس کے پر تو کاٹ دیئے ہیں۔۔۔۔۔تم صرف نظر رکھنا۔۔۔۔ !!! ثانیہ نے مسکرانے کی کوشش کی۔۔۔’ دادو آپ بھی نا۔۔۔‘ رضا نے دادوْکے کاندھے پر سر ٹکاکر ثانیہ کو تیز نگاہوں سے دیکھا۔
'’ اْستانی کا خیال رکھنا۔۔۔"یہ کہتے ہوئے اْنکا گلا بھر آیا۔
رضا خیال رہے ثانیہ کو ہلکی سی چوٹ بھی نہ لگنی چاہئے۔۔۔۔! حمیدہ بیگم بھی روتی ہوئی کہنے لگیں تو رضا کو ثانیہ کی اہمیت کا اندازہ ہونے لگا۔لیکن دوسرے ہی پل وہ کاندھوں کو لاپروائی سے اْچکاتا ہوا امی کے گلے لگ گیا۔حمیدہ بیگم نے قریب کھڑی ثانیہ کو بھی اپنی دوسری جانب کھینچ لیں۔یہ بہت اچانک ہوا تھا جس کے لئے دونوں ہی تیار نہ تھے۔۔۔۔۔ثانیہ سٹپٹاگئی،اس کادل زورزور سے دھڑکنے لگااور چہرے کا رنگ تیزی سے سْرخ مائل ہوگیا۔ یہ دیکھ کر رضا کے ہونٹوں پر شوخ مسکان پھیل گئی۔
شوکت صاحب کہنے لگے۔’’میں نے تمہارے لئے شہر میں ایک فلیٹ بک کر دیا ہے کچھ کاغذات کی تکمیل باقی ہے بہتر ہے تم اپنے پرانے فلیٹ میں کچھ اور دن ایڈجسٹ کر لو۔۔۔کیونکہ ہمارے یہاں داماد سسرال میں نہیں رہتے۔۔۔‘
’ آپ کا حکم سر آنکھوں پر۔۔۔ویسے بھی چھوٹے گھر اور بغیر اے،سی ، میرا دم گھٹنے لگتا ہے۔۔۔ رضاکے لہجے میں چْھپے طنزاور تذلیل پر ثانیہ کی پلکیں تیزی سے نم ہونے لگیں ثانیہ کی آنکھوں کی نمی محسوس کرتے ہوئے دادو ،حمیدہ بیگم اور شوکت صاحب نے غصے سے رضا کو دیکھا۔ وہ دھیرے سے آگے بڑھ آیااور 'سوری ' کہتا ہوا اْس کی آنکھوں سے جھلک رہی نمی کو اپنے رومال میں جذب کرلیا۔۔۔ثانیہ دوبارہ سٹپٹاگئی۔۔۔ ڈرامہ باز۔۔۔۔!!! وہ اندر ہی اندر زہرکے گھونٹ پی گئی۔حمیدہ بیگم خوشدلی سے ہنس پڑیں۔
سبھی نے ان دونوں کو رخصت کیا۔۔۔جیسے ہی گاڑی حویلی کے آہنی گیٹ سے باہر نکلی ۔رضا نے سکون سے جسم کو پھیلا کر سیٹ کی پشت سے سر ٹکاتا ہوا سگریٹ سلگایا۔ایک گہرا کش لیتا ہواثانیہ کی جانب دیکھا۔وہ باہر کے خوبصورت نظاروں میں کھوئی ہوئی تھی۔ رضا کی اْچٹتی نگاہیں لمحہ کو ٹھہر گئیں۔۔۔ثانیہ کا سوگوار حْسن غصب ڈھارہا تھا۔ تیز ہوائیں بڑی گستاخی سے اْس کی زلفوں سے شرارت کرتی ہوئی نظر آئیں۔ وہ کافی جھلا رہی تھی اورانھیں کان کے پیچھے کرلیتی۔۔۔۔ لیکن دوسرے ہی پل وہ کسی ضدی بچے کی طرح مچل اْٹھتیں۔حسن اسقدر قاتل ہوسکتا ہے اس بات کا احساس رضا کو بے چین کرگیا۔ اس نے سر کو خفیف جھٹکادیتا ہوا گاڑی کی رفتار کچھ اور تیز کردی۔ایسا کرنا ضروری تھا کیونکہ اس کا پتھر دل ثانیہ کی جانب مائل ہورہا تھا۔جو وہ کسی حال نہیں چاہتا تھا۔
پلیز گاڑی کی رفتار کم کیجئے۔۔۔
یہ حکم ہے یا گزارش؟
حکم۔۔۔۔!ثانیہ جھلا کر بولی۔
جس کی قطعی تکمیل نہیں ہوسکتی۔رضا نے بہت سارا دھواں آزاد کرتا ضدی لہجے میں جواب دیا۔دوسرے ہی پل قہقہہ لگا تے ہوئے اس کی سیاہ آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"کیوں۔۔۔۔! موت سے ڈرلگتا ہے؟"
موت سے کیسا ڈر۔۔۔؟جواب کافی سرد انداز میں نوازا گیا تھا۔
"آپ کے ساتھ گزرا ہر پل موت سے کم نہ
تھا۔"نہایت دلیری سے موت کا سامنا کیا نا؟
بہت بولتی ہو !رضا نے دوبارہ گہرا کش کھینچا دوسرے سیکنڈ دھوئیں کے مرغولے نے گاڑی کی اندرونی فضاء کو اپنے حصار میں قید کیا تو وہ اپنا غصہ روک نہ سکی۔
"بد تمیز انسان۔۔۔! پتہ نہیں کن گناہوں کی شکل میں خدا نے اس مصیبت کومجھ پر مسلط کررکھا۔۔۔"وہ دبے لب بڑبڑائی تھی۔ رضا کی سماعت سے یہ بدبداہٹ ٹکرائی تو وہ غصے سے غرایا۔۔۔
محترمہ اپنی اوقات نہ بھولیں۔۔۔؟
اوقات۔۔۔۔!!!!وہ تمسخر سے مسکراپڑی اس وقت آپ ڈرائیور کی سیٹ پر ہو۔۔۔۔!!!
اچھا۔۔۔۔۔! بڑی مالک بنتی ہو۔۔۔۔رضا نے گاڑی کی رفتار تیز کردی۔۔۔۔۔ کچے راستے تھے ثانیہ لہرا کر اس کے قریب آگئی۔اس کی گھنی زلفیں جب رضا کے چہرے کو چھو گئیں تو وہ سٹپٹاگیا اور رفتار پر بمشکل قابو پاسکا۔
بزرگوں کی تمام تر امیدیں آپ سے وابستہ ہیں،یوں جوانی میں موت کو گلے لگانے کا شوق اچھا نہیں۔۔۔!
اچھا۔۔۔۔۔یہ بات ہے رضا زور سے ہنسا۔۔
موت کو گلے میں نہیں بلکہ کوئی اور لگائیگا۔
آپ چاہ کر بھی یہ تحفہ مجھے دے نہیں سکتے۔۔۔۔۔۔کیونکہ آپ کے دادو کی جان مجھ سے جڑی ہے۔وہ تو میرے بنا مر ہی جائیں گے۔۔۔۔۔!!!
شٹ اپ۔۔۔۔!!!وہ ایک اور سگریٹ سلگاتا غرایا۔
زندگی بہت خوبصورت ہے۔۔۔۔اسے یوں برباد کرنے پرکیوں بے چین ہو۔۔۔۔۔ابھی
خوابوں کو حقیقت کا روپ دینا باقی ہے۔
" اس خوش فہمی میں مبتلا نہ رہناکہ تم میرے خوابوں کی تعبیر ہو۔۔۔۔۔یہ کسی زاویہ سے ممکن نہیں۔۔۔۔وہ مضحکہ اڑاتا ہنسا۔۔۔
میں نے صرف گاڑی کی رفتار اور سگریٹ نوشی کے لئے کہا تھا۔ثانیہ نے طنزیہ انداز میں ہنستے ہوئے جواب دیا۔ثانیہ کو سگریٹ کے دھویں سے الرجی تھی بہت برداشت کے بعد وہ ابکائی لینے لگی۔۔۔۔
گاڑی روک دیں۔۔۔۔مجھے متلی ہورہی ہے۔۔۔۔ہوسکتا قے بھی آجائے۔۔۔۔۔
گاڑی نہیں رک سکتی۔۔۔۔۔۔
جیسی آپ کی مرضی۔۔۔۔۔ گاڑی گندی ہوجائے تو پھرمجھے نا کہنا۔۔۔۔۔ اس نے زور سے ابکائی لی۔
ٹائر ایک جھٹکے سے چرچرائے۔۔۔
ثانیہ تیزی سے دروازہ کھول کر قے کرنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔رضانے اس کی جانب پانی کی بوتل بڑھادی۔
ویسے میرا جرم کیا ہے میں نے ایسا کونسا گناہ کردیا جو اس قدر غصہ دکھاتے ہو؟؟؟ثانیہ نے پانی کا گھونٹ پیتے ہوئے سوال کیا۔
" تم میری زندگی میں بنا اجازت چلی آئی اس کا گناہ۔۔۔! "
"تمہاری مفلسی کا گناہ۔۔۔۔۔۔! "
"ہاں اْس تھپڑ کا ارتکاب۔۔۔۔! "جس کی گونج تم مجھے تاحیات سنانا چاہتی تھی۔۔۔
اوہ۔۔۔۔۔۔!ثانیہ نے سختی سے ہونٹ بھینچ لیے۔
وہ ایک اچانک سرزد ہونے والا ردِعمل تھا جس کے لئے میں معذرت خواہ ہوں۔آپ کو احساس بھی نہیں اْس وقت دوپٹہ نے میری گردن پر کتناگہرا زخم بخشا ، کئی دنوں تک وہ زخم مندمل نہ ہوسکا۔ ویسے بھی آپ سوائے زخموں کے اور کچھ نہیں دے سکتے۔۔۔۔ والدین کو اپنی جدائی کا زخم۔۔۔! دادو جیسے نیک صفت کو دھوکا دہی کا زخم ! اپنی شریک حیات کو نفرت کا زخم۔۔۔!!! ثانیہ کی آنکھوں میں آنسو جھلک آئے۔۔۔ ثانیہ کی باتیں سن کر رضا نے غصے سے اسٹیرنگ پر مکامارا۔ رضاکی آنکھیں شدید غصے سے سرخ ہوگئی تھیں۔۔۔۔۔ اس نے گاڑی کو دوبارہ اسٹارٹ کیا۔تیز چلتی ہوئی گاڑی کو اچانک بریک لگا کربائیں جانب گھمایا توثانیہ کاماتھاٹھنکا۔۔۔گاڑی ثانیہ کی دادی کے مکان کے سامنے رکی تھی۔
’’محترمہ نیچے اْتر جائیں ۔۔!۔ہماری منزل اور راستہ ایک ہونے کے باوجود ایک نہیں ہوسکتا۔۔۔ !
کیا مطلب۔۔۔۔؟وہ اپنی پھیلی آنکھوں میں بے پناہ تشویش اور وحشت لئے رضا کو دیکھنے لگی۔
رضا احمد کی یہ 'درآمد شدہ' گاڑی تمہارے قابل کبھی نہیں ہوسکتی۔
اتنی تذلیل۔۔۔۔۔ثانیہ کے دماغ کی رگیں شدت غصہ سے پھٹنے لگیں .۔۔۔۔
وہ پوری قوت سے چیخی۔۔
’’ میں کسی دن آپ کا خون کردوں گی۔۔۔چاہے اس کے لئے مجھے پھانسی کیوں نا لگ جائے...‘‘
’’ جوتشی کا کہنا ہے ! میرے ہاتھوں کی لکیروں میں ، ایک خون لکھا ہے ‘‘ رضا نے ڈھٹائی سے مسکراتے اس کے زخموں پر نمک چھڑکا اورگاڑی آگے بڑھا دی۔۔۔۔۔اتنا بے رحم۔۔۔ڈھیٹ انسان میں نے زندگی میں نہیں دیکھا وہ شدت غصے سے جھنجھلاگئی۔۔۔۔۔۔اس بے عزتی پر آنکھوں سے آنسوؤں کا ایک سیلاب سا امنڈ آیا۔(باقی آئندہ)
٭٭٭٭٭٭٭٭