Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’لوٹ سیل لگی ہے‘ آؤ عوام کی کمائی لیتے جاؤ‘‘

اسلام آباد:  عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ اداروں میں عوام کی کمائی ک لوٹ سیل لگی ہے۔ ذرائع کے مطابق چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے پیٹرولیم مصنوعات پر لیے گئے از خود نوٹس کیس کی سماعت کی، اس دوران ایم ڈی پی ایس او کی بھاری تنخواہ اور مراعات کا نوٹس لیتے ہوئے نیب اور ایف آئی اے حکام کو سپریم کورٹ طلب کیا گیا۔
چیف جسٹس نے ایم ڈی پی ایس او اکرام الحق سے کہا کہ آپ 37 لاکھ روپے تنخواہ کیوں لیتے ہیں، میرا خیال ہے کہ آپ گزشتہ حکومت میں کسی بڑی شخصیت کے دوست رہے ہیں۔ ایم ڈی پی ایس او نے کہا کہ میں کسی کا دوست نہیں تھا، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اکرام الحق نے سندھ یونیورسٹی سے ماسٹر کیا ہے ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ان کی غیر ملکی نہیں بلکہ مقامی ڈگری ہے ، انہیں آئل سیکٹر کا کوئی تجربہ بھی نہیں، ان کا تقرر کس نے کیا؟۔ ایم ڈی پی ایس او اکرام الحق نے بتایا کہ میری تقرری کی منظوری وزیر اعظم نواز شریف نے دی تھی، اس وقت وزیر پیٹرولیم شاہد خاقان عباسی تھے ، یہ آسامی اشتہار کے ذریعے آئی تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ میں آپ کو یہی دوستی سمجھا رہا تھا، تقرری کی بہترین ایجنسی سے تفتیش کرا لینگے ، آپ کو دیکھ کر اوپر پرابلم شروع ہو جاتی ہے ۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس آسامی کے لیے چھ افراد شارٹ لسٹ ہوئے اور سمری تیار ہوئی تھی۔ ایم ڈی پی ایس او نے کہا کہ انٹرویو اور اہلیت جانچنے کے لئے نجی کمپنی کی سروسز حاصل کی گئیں، عہدے کی مدت تین سال ہے ، تقرر ستمبر 2015 ء میں ہوا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عجیب دھندا بنایا ہے کہ نجی کمپنیوں کو کہتے ہیں ہمارے لیے افسر تلاش کریں، گریڈ 20 کا افسر 2 لاکھ تنخواہ لیتا ہے ، کیوں نہ آپ کو عہدے سے معطل کر دیں، پاکستان میں اس طرح کی چیزیں قابل قبول نہیں، آدھے گھنٹے میں نیب اور ایف آئی اے کو بلالیں، ان سے تفتیش کرائینگے ، اس کا مطلب ہے آپ کے دو تین ماہ ہی باقی ہیں ، اکرام صاحب آپ سے زیادتی نہیں کررہے ہیں۔
ایم ڈی پی ایس او نے کہا کہ او جی ڈی سی کے سربراہ کی تنخواہ بھی 44 لاکھ روپے ہے ۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یعنی سب جگہ لوٹ سیل لگی ہے ، لیتے جاؤ اس ملک کے ٹیکس دہندگان کی کمائی۔

شیئر: