Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خواتین نے ووٹ کی جنگ جیت لی

کراچیصلاح الدین حیدر )یہ امر واقعی خوش آ ئند ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں اسلام کا نام صرف لفا ظی کی حد تک ہی محدود ہے لیکن عورتوں کو مساوی حقوق دینے پر واویلا کھڑا ہو جاتا ہے ، وہاں خواتین نے ووٹ ڈالنے اور الیکشن لڑنے کی جنگ جیت لی ۔ انتظامی نظام کی گرتی دیواریں ہی آج کا موضوع ہونا چاہیے تھا لیکن اصل الفاظ میں یہ کہنے میں خوشی ہوتی ہے کہ سابق ریاست دیر سے تاریخ میں پہلی مرتبہ 3 خواتین ووٹ کے لئے گھروں سے نکلےں گئیں۔ ا نہیںیہ حق دلوانے میں عوامی رائے عامہ نے الیکشن کمیشن کو مجبور کر دیا کہ ان فرسودہ روایت کو ر دکردیں جن سے لوگوں کے حقوق پر حرف آتا ہو۔ انتظامیہ نے امیدواروں کو مجبور کر دیا کہ سیاسی جماعتیں خواتین کو ووٹ کا حق دینے پر راضی ہوگئیں۔ آج سے چند برس بلکہ 2013کے الیکشن میں بھی خیبر بختون خوا میں جہاں پٹھان اپنی عورتوں کو پردے میں رکھنے پر مصر تھے اب آزا ی خیال سے آراستہ نظر آتی ہیں۔ حمیدہ شاہد جو کے پارلیمانی انتخابات میں قبائلی علاقوں سے لڑ رہی ہیں خوش ہیں کہ عورتوں کی جیت ہو گئی ۔ان کا انتخابات اورامید وار بننا تاریخ میں نئے باب کا اضافہ ہے ۔ دیر، جو کہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں افغانستان کی سرحد کے نزدیک پہاڑی علاقہ ہے وہاں اب بھی تہذیب، پرانے رسم و رواج کے مطابق ہی گزاری جاتی ہے لیکن دور ِجدید میں جہاں اور بیشمار تبدیلیاں آ چکی ہیں وہاں اس امر پر خاموشی کیسے اختیار کی جا سکتی ہے۔ دیر، سوات، چترال اور دوسری ریاستوں کی طرح بھی ایک ریاست تھی۔ جنرل یحی خان نے1970میں ان تمام ریاستوں کو ختم کر کے ملکی قوانین رائج کئے لیکن دیر طالبان کا گڑھ رہا ، جہاں عورتوں کے حقوق نہ ہونے کے برابر تھے ۔ ا ب ایسا نہیں ہے پھر بھی الیکشن کمیشن نے عوامی رائے کا احترام کرتے ہوئے گذشتہ مقامی حکومت کے الیکشن کے نتائج کو روک دیا تھا کہ عورتوں نے ووٹ کیوں نہیں ڈالا۔ آج یہ قانون بن گیا ہے کہ ہر حلقے میں کم از کم 10 فیصد خواتین وٹرزکا ہونا لازم ہے ورنہ وہاں الیکشن نہیں ہو گا ۔ حمیدہ سابق کرکٹر عمران خان کی پارٹی تحریک انصاف کی طرف سے قومی اسمبلی کی امید وار ہیں، انہیں خوشی ہے کہ جب بھی وہ گھر سے باہر قدم نکالتی ہیں تو مرد حضرات پی ٹی آئی زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں ، کچھ اسکولز اور کالجز کے طالب علم بھی نعرہ لگانے والوں میں شامل ہوتے ہیں۔میں سمجھتی ہوں کہ اگر ایک عورت ووٹ ڈال سکتی ہے تو الیکشن بھی لڑ سکتی ہے اسے بہت بڑی تبدیلی سمجھتی ہوں اور الیکشن لڑنے پر تیار ہوئی ہوں۔ حمیدہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔ میں گھر گھر خواتین کے ووٹ کے لئے جاتی ہوں۔ معاشرے میں بیداری پیدا کرنا ضروری ہے۔ وہ سب اس بات پر خوش ہیں کہ انہیں ووٹ دینے کا حق مل گیا ہے اور خوشی خوشی میری کامیابی کے دعا گو ہیں۔پاکستان کے حالات پر نظرطر ڈالی جائے تو اس بے رحمی کے آثار اب بھی دکھائی دیتے ہیں۔ پنجاب جیسے ترقی یافتہ صوبے میں بھی کچھ ایسے علاقے ہیں جہاں عورتوں کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں۔ دارلحکومت اسلام آباد سے صرف150میل پر واقعہ ایک علاقہ ہے دارنال کے نام سے جہاں کی تاریخ اب بھی عورتوں کو ووٹ نا دینے پر مصر ہے۔ افسوس کا مقام ہے ، فرسودہ رسم و رواج کے دلدادہ مرد حضرات اس بات پر راضی ہونے کو تیار نہیں کہ عورتوں کو بے پردہ رکھا جائے یا پارلیمنٹ میں مردوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کی اجازت ہو۔ دنیا بدل رہی ہے آج نہیں تو کل یہ تمام رسم و رواج خود ہی اپنی موت مر جائیںگے۔ 

شیئر: