Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شریک سفر ہمقدم ہوئے ، زندگی کا زاویہ بدل گیا،کائنات خالد

عنبرین فیض احمد۔ ینبع
    گھڑی کی ”ٹک ٹک“ وقت کے گزرنے کا احساس دلاتی ہے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے ، گزرے وقت کے پچھتاوے کا احساس بڑھتا چلا جاتا ہے۔ وقت کے کھو جانے کا غم ہمیشہ ستاتا ہے خاص کر بچپن کا دور بہت یاد آتا ہے ۔ کتنے ہی بلند مقام و مرتبے پر پہنچ جائیں ، کتنی ہی عمر ہوجائے ، کبھی نہ کبھی لاشعور میں مٹی میں کھیلتے ، بے پروا، معصوم شرارتوں سے مزین بے شمار یادیں کبھی چہرے پر مسکراہٹ بکھیر دیتی ہیں تو کبھی آنسو بن کر بہہ نکلتی ہیں۔ ساری عمر دل و دماغ کے نہاں خانوں میں کہیں نہ کہیں بچپن کاد ور جگمگاتا رہتا ہے جس میں چھوٹی چھوٹی معصومیت، نادانیاں، اٹکھیلیاں، حماقتیں اور والدین سے بے وجہ ضد اور پھر بے شمار دلکش اور دلچسپ باتیں، دلربا یادیں وغیرہ ایسے لمحات ہیں جو زندگی کا قیمتی اثاثہ کہلاتے ہیں جو سینے میں یادوں کی شکل میں دفن ہوتے ہیں۔ جب زندگی کے اوراق پلٹتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ کب زندگی کی اتنی ساری سڑھیاں پھلانگ ڈالیں، خبر تک نہیں ہوئی۔
    موجودہ وقت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ گیا وقت واپس نہیں آتا۔ وقت کا بہترین استعمال کیا جائے ۔ جو وقت گزر جاتا ہے وہ گزر ہی جاتا ہے، اس پر اختیار نہیں ہوتا۔ اس پر افسوس کرنے سے کوئی فائدہ نہیںہوتا۔ جو آنے والا لمحہ ہے اس کا علم نہیں لیکن جو ہاتھ میں ہے وہ اختیار میں ہے اس سے بھرپور فائدہ حاصل کرنا چاہئے۔ وقت کسی کی پروا نہیں کرتا۔ اس کا کام گزرنا ہے وہ گزر جاتا ہے۔ دنیا میں وہی لوگ کامیابی کی منزلیں طے کر تے ہیں جو وقت کی قدر کرتے ہیں ۔ کوشش کرنی چاہئے کہ ہمارا آج، گزرے کل سے بہتر ہو۔ زندگی اسی تگ و دو کا نام ہے۔ زندگی کے نشیب و فراز کو سمجھنے والے ہی کامیاب ہوتے ہیں۔ جو لوگ وقت کی قدر کرنا جانتے ہیں وہی کامیابیاں حاصل کرتے ہیں ۔
    اردو نیوز میں ہوا کے دوش پر آپ کی ملاقات ایک ایسی ہستی سے کراتے ہیں جو نہ صرف تعلیمی میدان میں آگے ہیں بلکہ سلیقہ مندی کی بھی جیتی جاگتی تصویر ہیں۔ محترمہ کائنات خالد خان اپنی پرکشش شخصیت کی بدولت بہت جلد اپنی ہم جولیوں کے دلوں میں گھر کرلیتی ہیں۔ ان سے ملاقات ایک تقریب میں ہوئی۔ کائنات خالد کہتی ہیںکہ میں عروس البلاد کراچی میں پیدا ہوئی ۔ والد کا تعلق حیدرآباد سے ہے اور والدہ کاکراچی سے۔ سارے رشتہ دار کراچی میں ہی آباد ہیں لہٰذا سب کے ہی گھروں میں آنا جانا لگا رہتا ہے۔ بچپن ماشاءاللہ، بہت ہی شاندار اور سہانا گزرا۔ گھر میں سب سے چھوٹی ہی نہیں اکلوتی بیٹی بھی ہوں۔ تین بڑے بھائی ہیں۔ والد سعودی عرب میں تقریباً 40 برس جدہ میں رہنے کے بعد ینبع آگئے۔ ینبع کی جانی پہچانی شخصیت ہیں ۔ بہت زیادہ سوشل ہیں، اس لئے لوگوں کا آنا جانا بھی لگا رہتا ہے۔
اسے بھی پڑھئے:زندگی میں سکون و آرام کیلئے خواہشات کو بے لگام نہ ہونے دیں، ثنا ء درانی
    کائنات نے کہا کہ میں اپنے آپ کو خوش قسمت تصور کرتی ہوں کہ مجھے والد اور بھائیوں کا پیار و توجہ حاصل ہوئی جس سے میں نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ خوب من مانیاں کیں۔ رب کریم کا شکر ادا کرتی ہوں کہ میکے میں اب بھی آپس میں وہ پیار و محبت قائم ہے جس کی والدین خواہش کرتے ہیں۔ اللہ کریم ہمیشہ اس محبت کو قائم رکھے۔
     بچپن کا دور خاص کر بہت ہی شاندار گزرا کیونکہ کافی رشتہ دار بھی ینبع میں ہی رہائش پذیر تھے اس لئے اکثر شامیں بہت اچھی اور مصروف گزرتی تھیں۔ سب کزنز آپس میں ملتیں اور ہنسی خوشی وقت گزر جاتا۔ ویسے تو کئی واقعات ہیں بچپن سے متعلق مگر ایک واقعہ میرے ذہن میں نقش چھوڑ گیا۔ ہوا کچھ یوں کہ ہم سب کزنز مل کر کبھی ایک پارک تو کبھی کسی دوسرے پارک میں کھیلا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ایسے ہی کھیل جاری تھا کہ وہاں کہیں کانچ کا بڑا سا ٹکڑا میری کزن کے پا¶ں میں گھس گیا ۔ پا¶ں بری طرح لہولہو ہوگیا۔ ہم سب ہی خوفزدہ ہوگئے ۔ اسے جلدی سے کسی نہ کسی طرح اٹھاکر گھر لے آئے۔ ویسے ہر ایک کیلئے بچپن کا دور حسین ترین ہوتا ہے۔ سوچ یہی ہوتی ہے کہ یہ دور کبھی ختم نہ ہو، ہمیشہ اس کی حسین یادوں میں کھویا رہے۔ انسان بچپن کے دور کے دوستوں کو یاد کرتا ہے۔ ذہن میں اس دور کی یادتیں تازہ رہتی ہیں جیسا کہ شاعر کہتا ہے:
 بچپن کا زمانہ تھا
خوشیوں کا خزانہ تھا
چاہت چاند کو پانے کی
دل تتلی کا دیوانہ تھا
خبر نہ تھی کبھی صبح کی
اور نہ ہی شام کا ٹھکانہ تھا
تھک ہار کے آنا اسکول سے
پر کھیلنے بھی تو جانا تھا
دادی کی کہانی تھی
چڑیوں کا فسانہ تھا
ہر موسم سہانہ تھا
ہر کھیل میں ساتھی تھے
ہر رشتہ نبھانا تھا
غم کی زبان نہ تھی
نہ ہی زخموں کا پیمانہ تھا
رونے کی وجہ نہ تھی
نہ ہنسنے کا بہانہ تھا
اب نہیں رہی وہ زندگی
جیسے بچپن کا زمانہ تھا
    والدین نے سب کو ہی اعلیٰ تعلیم دلائی۔ اچھے تعلیمی اداروں میں پڑھایا۔ جب ایک سال کی تھی تو سعودی عرب آئی تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے میں جب دو سال کی ہوئی تو سعودی عرب میں ہی تھی۔ پھر سیکنڈری تک تعلیم یہیں حاصل کی۔ تعلیم کے سلسلے میں کراچی کچھ عرصہ کیلئے منتقل ہونا پڑا ۔ وہاں بھی اچھا وقت گزرا۔ میں بی بی اے اور ایم بی اے کرنا چاہتی تھی مگر والدین نے واپس بلوالیا۔ کریئر بہت شاندار ہا۔ والدین کو ہمیشہ بیٹیوں کی شادی کی فکر رہتی ہے لہذا اچھا رشتہ آیا اور جلد ہی میری شادی طے کردی گئی۔
     سسرال سے کوئی خاص رشتہ داری نہیں تھی لیکن دونوں خاندانوں میں دوستی تھی۔ شریک سفر سلجھے ہوئے محبت کرنے والے انسان ہیں ۔ زندگی کا زاویہ تبدیل ہوگیا یعنی وہ زندگی میں بہار بن کر آئے۔ میں پھر وہیں آکر رہنے لگی جہاں والدین کے ساتھ بچپن گزارا یعنی سعودی عرب میں۔ والدین یہاں تقریباً 25 سال گزار کر واپس پاکستان جاچکے ہیں۔
    میرے تینوں بھائیوں کی بھی شادیاں ہوچکی ہیں ، سب ا پنے گھروں میں ماشاءاللہ خوش ہیں۔ تینوں بھائیوں نے انجینیئرنگ اور اس کے بعد ایم بی اے کیا۔ تینوں بھابھیا ں بھی بہت اچھی ہیں۔ سب میرے والدین کا بہت خیال رکھتی ہیں۔ میرے شوہر انجینیئر ہیں اور مملکت میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہیںاور 8 برسوں سے یہی پر ہیں۔ اللہ کریم کا شکر ہے کہ میرے شوہر اپنے ملک کا نام روشن کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں۔ رات دن محنت کرکے ملک کی عزت میں اضافہ کررہے ہیں۔ اب تک کی تقریبا ً پوری عمر یہیں گزری ہے لہٰذا اب تو پردیس کا پرایا پن اپنائیت میں تبدیل ہوچکاہے۔ مجھے تو یہی دیس محسوس ہوتا ہے۔ یہی انسانی فطرت بھی ہے کہ جہاں وہ زیادہ عرصہ رہ لیتا ہے وہاں کے ماحول اور اس کے درو دیوار سے انسیت سی ہوجاتی ہے۔ سسرال میں بھی سب پڑھے لکھے ہیں۔ سب پاکستان میں ہی آباد ہیں۔ شوہر کے بڑے بھائی جامعہ کراچی میں سینیئر لیکچرار کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ دونوں نندیں بھی جامعہ کراچی میں ہی لیکچرر ہیں۔ ایک نند گریڈ 20 کی افسر جبکہ دوسری گورنمنٹ ادارے میں ملازمت کرتی ہیں۔ سسر بھی اپنے زمانے کے مشہور ادیب، شاعر اور صحافی تھے۔ سسرال میں سب ہی مجھ سے محبت کرتے ہیں اس لئے میرا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ میں بھی ان کے ساتھ محبت سے پیش آﺅں۔ جب مجھے اتنی محبت اور اپنائیت مل رہی ہے تو جواب مثبت انداز میں دینا چاہئے تب ہی زندگی سکون سے گزرے گی۔ عفوو درگزر سے کام لینا چاہئے۔
    آج لوگ اپنا قیمتی وقت موبائل فون پربہت زیادہ ضائع کرتے ہیں ، خاص طور پر نوجوان طبقہ اس میں بہت آگے ہے۔ مجھے انہیں دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے ۔وقت بہت ہی قیمتی ہے اسے یوں ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ کائنات خالد خاں کہتی ہیں کہ میں نے بی بی اے کیا ہے اس لئے میں اپنی تعلیمی قابلیت کو ضائع نہیں کرنا چاہتی۔ اس لئے میں گھر میں ہی آن لائن بزنس کرتی ہوں کیونکہ میری بیٹی ابھی صرف ایک سال کی ہے۔ گھر سے باہر جاکر ملازمت نہیں کرسکتی اس لئے گھر سے ہی کام کرتی ہوں۔ بیٹی کے دنیا میں آتے ہی میری زندگی میں رنگ سے بھر گئے۔ وہ سب سے خوبصورت اور حسین دن تھا جب میری بیٹی اس دنیا میں آئی ۔ میں یہ سوچ کر خوش ہوتی ہوں کہ ماں کا درجہ کتنا بلند رکھا گیاہے اور میں بھی ایک ماں ہوں۔
    کائنات کے شوہر سید اصباح عدیل قادری کا کہنا ہے کہ میاں اور بیوی گاڑی کے دو پہئے ہیں اس لئے دونوں میں ہم آہنگی بہت ضروری ہے۔ اسی صورت میں گھر بہتر انداز میں چل سکتا ہے۔ ظاہر ہے جب ہی زندگی خوشگوار ہوسکتی ہے اور اسی میں زندگی کا لطف بھی ہے۔ اللہ کریم کا شکر ہے کہ اہلیہ معاون ساتھی ثابت ہوئی ہیں۔ انہوں نے محبت سے سسرال والوں کا بھی دل جیت لیا ہے، خاص کر میری ماں اور بہنوں کا۔ کائنا ت کہتی ہیں کہ میاں بیوی کے رشتے میں کبھی پیسے کے عوض خوشی حاصل نہیں ہوسکتی۔ محبت، عزت، صبر، شکر گزاری سے شریک سفر کے ساتھ زندگی کے ہر دکھ سکھ میں ساتھ دینا چاہئے اسی سے رشتہ مضبوط ہوتا ہے ۔ اگر ایسا نہیں کیا تو کڑوی کسیلی زندگی ہماری منتظر رہتی ہے۔اس لئے زندگی کو تلخی سے بھر نے کی بجائے ایک چیلنج سمجھ کر قبول کرنا چاہئے۔ بہت زیادہ امیدیں وابستہ کرنا غلط ہے۔ اس طرح انسان کی ازدواجی زندگی کی گاڑی غلط سمت کی طرف چل پڑتی ہے ۔انسان کو اپنے اندر لچک کی خوبی پیدا کرنا چاہئے۔ برداشت کا مادہ ہوناضروری ہے ، کوشش کرنی چاہئے کہ زندگی کی گاڑی کی رفتارقابو میں ہی رہے۔ عورت کی اصل ذمہ داری اس کا گھر اور بچے ہیں۔ خواہ کتنی ہی تعلیم یافتہ کیوں نہ ہوجائے، گھر داری ہی اصل اور اولین ذمہ داری ہے۔
    کائنات نے کہا کہ میں شاعری بھی کرتی ہوں ۔شاعروں میں مجھے فیض احمد فیض اور پروین شاکر کی شاعری کافی پسند ہے۔ آپ بھی پڑھیں:
آج بازار میں پابجولاں چلو
چشم نم جان شوریدہ کافی نہیں
تہمت عشق پوشیدہ کافی نہیں
آج بازار میں پابجولاں چلو
دست افشاں چلو، مست و رقصاں چلو
خاک سرپر چلو خوں بداماں چلو
رخت دل باندھ لو دل فگار و چلو
پھر ہمیں قتل ہو آئیں یادو چلو
    آخر میں دونوں میاں بیوی نے اردو نیوز کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ انٹرویو کا یہ سلسلہ بہت اچھا ہے جس سے بہت ساری معلومات ملتی ہیں۔ یہ بڑے شوق سے پڑھا جاتا ہے۔ معلوم نہیں تھا کہ ہم بھی اس کا حصہ بن جائیں گے۔ اردو نیوز کا بہت بہت شکریہ ۔

 

شیئر: