Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مشرقی یا مغربی دنیا میں عربوں کا مقام؟

ڈاکٹر جاسر الحربش۔ الجزیرہ 
ان دنوں مغرب اور مشرق کے درمیان ممکنہ جنگ کا طبل بجنے لگا ہے۔ اسکی آواز سنی جاسکتی ہے۔ امریکہ اور چین ایک دوسرے پر اقتصادی پابندیاں لگارہے ہیں۔امریکی سیاستدانوں کی شٹل سروس روس کو عیسائی دنیا میں شمولیت پر آمادہ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ یورپی یونین پر دباﺅ ڈال کر اسے عسکری اخراجات میں اپنا حصہ بڑھانے اور مشرقی دنیا سے اقتصادی تعلق محدود کرنے کے لئے دباﺅ ڈالا جارہا ہے۔ یورپی یونین کو مغربی دنیا سے اقتصادی تعلقات بڑھانے کی راہ سجھائی جارہی ہے۔جاپان پر امریکہ کا بھی دباﺅ ہے اورچین کا بھی۔ ابھی تک اس نے کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا۔ مغربی دنیا کو غالباً یہ یقین ہے کہ عرب ممالک تو اسکی جیب میں ہی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ عرب گروپ آنے والی دنیا کی کشمکش میں کہاں کھڑا ہوگا۔ چند روز قبل چین عرب تعاون فورم کا 8واں اجلاس چین میں ہوا۔اس میں 21عرب ممالک کے نمائندے شریک ہوئے۔ فورم کا عنوان تھا ”جامع تعاون مشترکہ ترقی کے لئے تعاون کی حکمت عملی اور مستقبل کی جہت میں سفر “۔ یہ لمبا چوڑا عنوان اس لائق ہے کہ اسے غور سے پڑھا جائے۔ امیر کویت شیخ صباح نے اپنے بیان میں عندیہ دیا کہ کویت اور چین اقتصادی و سیاحتی و اسٹراٹیجک تعاون سے متعلق ایک منصوبے کا جائزہ لے رہا ہے۔شاہراہ ریشم بھی اس پروگرام کا حصہ ہے۔
سوال یہ ہے کیا عرب دونوں براعظموں کے درمیان اسٹراٹیجک جغرافیائی علاقے اور انسانوں کے مجموعے کے طور پر اپنے عظیم الشان وسائل کو بروئے کار لائیں گے۔ اب تک عربوں نے اپنے زبردست وسائل سے بھرپور فائدہ نہیں اٹھایا۔ کیا عرب مغربی دنیا یا مشرقی دنیا کیساتھ مستقبل کے چیلنجوں کی بابت اس حوالے سے اپنا کردارادا کریں گے؟
تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو جغرافیہ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ کئی بار اسٹراٹیجک تمدنی گروپ قائم ہوئے۔ عربو ںنے 1500برس قبل آسمانی اسلامی پیغام مشرق و مغرب تک پہنچایا۔ مشرق سے اکھاڑ پچھاڑ ہوئی۔ یہ جلد ہی دینی اور لسانی امتزاج میں تبدیل ہوگئی۔ ناموں کے تبادلے ہوئے۔ براعظم ایشیا کے ایک، ایک حصے میں قدیم مساجد دسیوں ہزار کی تعداد میں قائم ہیں۔ انڈونیشیا سے لیکر برصغیر ہند و پاک اورچین تک مساجد کی لمبی قطار نظر آتی ہے۔ روس سے متصل مشرقی علاقوں میں بھی مساجد پھیلی ہوئی ہیں۔ ایشیا میں فی الوقت مسلمانوںکی تعداد عرب ممالک سے کئی گنا زیادہ ہے۔ ان ممالک میں محمد ابو بکر ، عمر ، عثمان ، علی ، خدیجہ، عائشہ، فاطمہ، زینب ، الحسن اور الحسین کے نام کثرت سے رکھے جاتے ہیں۔
عربوں نے اسلام کا پیغام مغرب کو بھی پہنچایا۔ عربوں نے 8صدی تک اسپینی براعظم نما پر راج کیا۔ جنوبی اٹلی کے کچھ علاقے بھی عربوں کے زیرنگیں رہے۔ عثمانی مسلمان آسٹریا کے دارالحکومت تک پہنچے۔ پھر کیا ہوا؟ ہوا یہ کہ مغربی نام جوں کے توں برقرار رہے۔ اسلام کو مغربی ممالک میں عقائد کے حوالے سے کوئی قابل ذکر پذیرائی نہیں ملی۔ ساری مغربی دنیا اپنے سابقہ مذہب اور ناموں سے وابستہ رہی۔ صلیب کے پرچم تلے لشکرکشیاں بھی ہوئیں۔ شام، فلسطین اور مصر میں خون کے دریا بہائے گئے پھر 400برس قبل حقیقی عسکری اور اقتصادی استعمار آیا ۔ مغرب کی آخر لشکر کشی عراق کی تباہی و بربادی کی صورت میں دیکھنے کو ملی۔ مغرب نے بحیثیت ریاست اور تمدن عراق کو تہہ و بالا کردیا۔
کہہ سکتے ہیں کہ مغربی دنیا کے ساتھ عربوں کا عسکری اور اقتصادی تعلق بنا۔ کوئی فریق اس پر احتجاج کرنے اور مفادات میں توازن کے حوالے سے شرائط تھوپنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ اب دنیا طاقت کے توازن کے حوالے سے بڑی تبدیلی کی جانب جارہی ہے۔ بلاشبہ چین 5صدی تک مشرق میں توازن کے بگاڑ کو ٹھیک کرنے میں دلچسپی لے رہا ہے۔5صدیاں ایسی گزری ہیںجن میں مغرب عسکری، اقتصادی، سیاسی اور ثقافتی تسلط قائم کئے رہا۔
کیا عرب مشرق ومغرب کی نئی کشمکش میںغیر جانبدار رہ سکتے ہیں؟ امریکی صدر آئزن ہاور کے زمانے میں امریکی وزیر خارجہ جان فوسٹر کہہ گئے ہیں کہ غیر جانبدار ممالک کوٹھے کی خواتین کی طرح ہیں انہیں یا تو امریکہ کے بستر پر سونا ہوگا یا روس کے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: