چند ایسے اہم امور جن کو نہ صرف حج سے قبل بلکہ حج کے بعد بھی مد نظر رکھنا ضروری ہے ، حج کے مقبول ہونے میںا ن امور کا گہرا دخل ہے
* * محمد منیر قمر ۔ الخبر* *
نبی اکرم نے حج کوافضل ترین اعمال میں سے ایک شمار فرمایا ہے چنانچہ صحیح بخاری ومسلم میں حضرت ابوہریرہؓسے مروی ہے کہ رسول اللہ سے پوچھا گیا ’’سب سے افضل عمل کون سا ہے ؟‘‘آپ نے ارشاد فرمایا:
’’اللہ اوراس کے رسول( ) پر ایمان لانا۔‘‘
پوچھاگیا کہ’’ اس کے بعد ؟ ‘‘ تو ارشاد فرمایا:
’’اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ۔‘‘
پھر پوچھا گیا کہ اس کے بعد ؟ توآپ نے فرمایا:
’’حج مقبول۔ ‘‘ (بخاری، مسلم)۔
حج وعمرہ سے حاصل ہونے والی سعادتوں، کامرانیوں اورفضائل وبرکات کا یہ عالم ہے کہ تمام گناہوں کے کفارے کے ساتھ ساتھ جنت کی خوش خبریاں بھی کانوں میں رس گھولتی ، دلوں میں ایمان جگاتی اورروح کو بالیدگی وتازگی بخشتی ہیں چنانچہ صحیح بخاری ومسلم کی ایک حدیث میں نبی آخر الزماں کاارشاد گرامی ہے:
’’ایک عمرہ دوسرے عمرہ تک کے تمام گناہوں کاکفارہ ہے اورحج مبرور کا ثواب توجنت ہی ہے۔ ‘‘(بخاری ومسلم ) ۔
علمائے کرام نے ’’حج مبرور‘‘ کی شرح بیان کرتے ہوئے متعدد آراء کا اظہار کیاہے چنانچہ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبیداللہ صاحب رحمانی ’’القریٰ قاصد ام القریٰ‘‘ کے حوالہ سے لکھتے ہیں :
بعض کے نزدیک اس سے مراد وہ حج ہے جس کے دوران کسی گناہ کا ارتکاب نہ کیا گیا ہو ۔
بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ حج ہے جو عنداللہ مقبول ہوجائے۔
بعض کا کہنا ہے کہ اس سے وہ حج مراد ہے جس میں ریا وشہرت، فحاشی اورلڑائی جھگڑانہ کیا گیا ہو ۔
eکچھ اہل علم کاکہنا ہے کہ حج مبرور کی علامت یہ ہے کہ اس سے آدمی پہلے کی بہ نسبت بہترہو کر لوٹے اورگناہ کی کوشش نہ کرے۔
حضرت حسن بصری ؒ فرماتے ہیں کہ ایساحج جس کے بعد انسان دنیا سے بے رغبت اورآخرت کاطلبگار بن جائے۔
حقیقت تویہ ہے کہ حج کے مفہوم میںیہ سبھی امور شامل ہیں
یہاں چند ایسے اہم امور کی طرف نشان دہی کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے جن کو حجاج بیت اللہ کو نہ صرف حج سے قبل بلکہ حج کے بعد بھی مد نظر رکھنا نہایت ضروری ہوتا ہے کیونکہ حج کے مقبول ومبرور ہونے میںا ن امور کا گہرا دخل ہے جودرج ذیل ہیں :
شُکر :
اس عظیم عبادت( حج و عمرہ) کی توفیقِ ادائیگی پر اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے ۔ شکر کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ اور زیادہ دیتا ہے چنانچہ سورہ ابراہیم کی آیت7 میں ارشادِ الٰہی ہے:
’’اگر تم شکر گزاری کروگے تو بیشک میں تمہیں زیادہ دوں گا۔ ‘‘
آئندہ سال دوبارہ حج کرنے کی نیت اور عزم کریں ، اگر حج نہ بھی کرسکیں تو کم از کم نیت کے ثواب سے محروم نہ ہوں ۔
تقویٰ :
ہر حاجی کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے ، تقویٰ وپرہیزگاری اختیار کرے اورمقدور بھر کوشش کرے کہ جس طرح پورے سفر حج اورادائے مناسک کے دوران اور حج کے بعد بھی کسی ایسے کام کا ارتکاب نہ کرنے پائے جسے عام حالات میں بالعموم بحالتِ احرام بالخصوص اللہ اوراس کے رسول نے ممنوع قراردیا ہے مثلا ًبیہودہ اورشہوانی افعال ،لڑائی جھگڑا اوردیگر فسق وفجور کیونکہ سورہ بقرہ ، آیت 197 میں ارشاد الٰہی ہے:
’’حج کے مہینے مقررہ معلوم ہیں پس جو شخص ان مہینوں میں حج کااحرام باندھ لے تو شہوت کی باتیں ، گناہ اورجھگڑا نہ کرے اور جو نیک کام تم کرو گے اللہ کو معلوم ہوجائیگا۔‘‘
ایسے ہی صحیح بخاری و مسلم میں بھی نبی اکرم نے فرمایا ہے:
’’جس نے حج کیا اوراس دوران اس سے کوئی شہوانی امر اورگناہ کا کام سرزد نہ ہو تووہ شخص گناہوں سے ایسے پاک ہوکر لوٹا کہ گویا آج ہی اس کی ماں نے اسے جنم دیا ہے۔ ‘‘
اس ارشاد نبوی سے بھی معلوم ہواکہ دوران حج ان افعال کاارتکاب کرنا نہ صرف منع ہے بلکہ کفارۂ ذنوب وسیئات کی راہ میں رکاوٹ کاسبب بھی ہے،حج کے مقبول ومبرور ہونے میں ایک مانع کی حیثیت رکھتا ہے اور اگر حج کرلینے کے بعد حاجی ان امور کا ارتکاب کرنے لگے تو اسکا معنیٰ یہ ہوگا کہ اسکا حج مقبول و مبرور نہیں ہوا ۔
توبہ:
ہرحاجی کو چاہیے کہ جس طرح سفر حج پر روانگی سے قبل اسکے لئے ضروری ہے کہ اپنے سابقہ تمام گناہوں کی اللہ تعالیٰ سے معافی مانگے اور خلوص نیت کے ساتھ توبہ کرلے کیونکہ ارشاد الہٰی ہے:
’’اے ایمان والو!تم سب اللہ کی طرف تائب ہوجائو تاکہ تم فلاح پائو۔ ‘‘
اسی طرح ادائے حج و عمرہ کے بعد بھی اپنی توبہ پر قائم رہے کیونکہ حج کے قبول ہونے کی علامات میں سے ہے کہ واپسی کے بعد نیک کاموں کی پابندی اختیار کرے اور محرمات سے پرہیز کرے۔
یاد رہے کہ پرخلوص توبہ وہی ہوتی ہے جس میں گناہوں سے کلی وفوری اجتناب اختیار کیاجائے ،آئندہ گناہ نہ کرنے کا عہدِ مصمم اور عزم جازم وپختہ ارادہ کیاجائے اور سابقہ گناہوں پر ندامت وشرمندگی کااظہار کیاجائے ۔ ایک صحیح حدیث میں ہے:
’’ندامت توبہ ہے۔ ‘‘ (ابن ماجہ)۔
اگر توبہ کرلینے کے بعد اپنے آپکو ان امو رپر سختی سے پابند پائے تو سمجھ لے کہ اسکی توبہ اور حج و عمرہ کو اللہ تعالیٰ کی ذاتِ غفاری نے قبول کرلیا ہے اورا سکے سابقہ تمام گناہ معاف کردیئے ہیں۔ نبی اکرم نے ارشاد فرمایا ہے:
’’گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہوجاتا ہے کہ گویا اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں۔ ‘‘
حقوق وامانات کی ادائیگی :
جس طرح یہ ضروری ہے کہ ہر عازم حج اللہ کے گھر کی طرف روانگی سے پہلے دوسرے لوگوں کے حقوق اورامانتیں اداکردے ۔ کسی پر کوئی ظلم وزیادتی کی ہو تو اس سے معافی مانگے ۔ کسی سے کوئی قرضہ لیا ہو ا ہو اورتاحال واجب الادا ہو تو وہ دے کر جائے یا کم از کم لکھ کر یا ویسے ہی اپنے گھروالوں کواچھی طرح سمجھادے کہ فلاںشخص کی فلاں چیز میرے پاس امانت ہے یا ا س کا میں نے اتنا قرض لیاہے تاکہ بوقت ضرورت ومہلت وہ اداکرسکیں۔ اس سلسلہ میں سورہ نساء آیت58میں ارشاد الٰہی ہے:
’’اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے مالکوں کو واپس لوٹادو۔‘‘
اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ حج و عمرہ کی ادائیگی سے فراغت کے بعد اپنی آئندہ زندگی میں یہ عہد کئے رہے کہ وہ کسی کمزور و زیردست پر کبھی ظلم و زیادتی نہیں کریگاکیونکہ قرآن و سنت کی بکثرت نصوص کی بناپر ظلم و زیادتی اور جبر و استبداد ہمیشہ ہی منع ہے ۔ نہ کسی مزدور و ملازم کی حق تلفی کریگا کیونکہ یہ بھی ظلم ہی کی ایک شکل ہے اور اگر اسکے پاس کسی نے کوئی امانت رکھی تو اسکی حفاظت کریگا ، اسے ہضم نہیں کرجائے کیونکہ امانت میں خیانت کرنا کسی مسلمان و مومن کا شیوہ ہرگز نہیں ہوسکتا بلکہ یہ تو ایک صحیح حدیث کی رو سے منافق کی نشانی ہے جیسا کہ ارشادِ نبوی ہے:
’’منافق کی 3 علامتیں ہیں :جب بولے جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے ، جب اسکے پاس امانت رکھی جائے تو امانت میں خیانت کرے۔‘‘
ایک روایت میں ہے کہ : جب جھگڑے تو گالی گلوچ بکے۔
خلوص وللہیت :
جس طرح سفرحج پر روانگی کے وقت حاجی کو یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ وہ اپنے اندر خلوص وللہیت پیداکرے ویسے ہی اسے حج کے بعد بھی اپنا شعار بنائے رکھنا چاہئے کیونکہ تمام اعمال میں ہی اخلاص قبولیت عمل کی بنیادی شرط ہے خصوصاًحج وعمرہ کے اس جلیل القدر عمل کو ریا کاری، شہرت اورفخر ومباہات کا ذریعہ ہرگز نہیں بنا نا چاہئے جیساکہ بعض لوگ یہ غلط روش اختیار کرتے ہیں کہ گھر وں کوجھنڈیوں سے سجایا جاتا ہے، دروازوں پر محرابیں بنائی جاتی ہیں، انہیں رنگ وروغن کیاجاتا ہے اوردروازے پر ’’حج مبارک ‘‘اورتاریخ وغیرہ لکھی جاتی ہے ۔
یہ سب نمود ونمائش،ریا، دکھاوا اورفخر ومباہات نہیں تو اورکیا ہے ؟اللہ تعالیٰ نے توقرآن کریم کے متعدد مقامات پر ایسے افعال سے روکا اور اخلاص کی تعلیم دی ہے ۔ ارشا د الٰہی ہے:
’’لوگوں کوحکم دیاگیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کریں اِطاعت کو اس کیلئے خالص کرتے ہوئے ۔‘‘(البینہ5)۔
خلوص فی العمل کی برکات نہ صرف آخرت میں بلکہ اسکے ثمرات تو انسان دنیا میں ہی دیکھ لیتا ہے ۔ صحیح بخاری و مسلم میں ان 3 آدمیوں کا واقعہ مذکور ہے جو ایک پہاڑی غار میں بند ہوگئے اور انہوں نے خالص اللہ کیلئے سر انجام دیئے گئے اپنے عمل کو یاد کرکے اللہ سے دعا مانگی تھی تو غار کے منہ سے چٹان سرک گئی اور انہیں اس جگہ سے نجات مل گئی تھی جبکہ ریا کاری حج میں ہو یا کسی بھی عمل میں اسے تو نبی نے شرک خفی اور دجال کے فتنے سے بھی زیادہ خطرناک قرار دیا ہے(ابن ماجہ)۔
ایک حدیث میں اسے شرک اصغر قرار دیا گیا ہے( ابن ماجہ)۔
صحیح مسلم ، ترمذی اور نسائی میں نبی نے فرمایا :
’’ قیامت کے دن سب سے پہلے میدانِ حشر میں شہید ، عالم و قاری اور سخی کو لایا جائیگا اور انکی ریا کاری کی وجہ سے انہیں منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں پھینک دیا جائیگا ۔‘‘