Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان افغان سرحد پر مزید فوج کی ضرورت

 کراچی (صلاح الدین حیدر ) اعلیٰ سطحی ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کو ابھی بڑی تعداد میں ، کم سے کم 60 ہزار مزید فوجی جوان اور افسران افغان سرحد پر تعینات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بارڈر کی حفاظت ہوسکے۔ پاکستان ، افغان تنازعہ ، باوجود تمام تر کوششوں اور خواہشوں کے ابھی تک مسلسل موجود ہے۔ افغانستان کے اندرونی علاقوں سے دہشت گرد اچھی خاصی تعداد میں پہاڑی علاقوں سے پاکستان میں داخل ہو کر لوگوں اور تنصیبات پر حملہ آور ہوتے ہیں۔مسئلے کا فی الحال کوئی حل نظر نہیں آتا اس لئے کہ11 ہزار امریکی فوجی جوکہ ابھی تک افغانستان میں موجود ہیں صرف دارالحکومت کابل اور اطراف میں مقیم ہیں ۔ ملک کا وسیع ترین علاقہ جو کہ بنجر زمینوں اور پہاڑی سلسلوں پر محیط ہے۔ طالبان ، القاعدہ اور شام سے بھاگے ہوئے داعش کے دہشت گردوں کے قبضے میں ہیں۔وہ ہتھیاروں ، خورد ونوش کی اشیاءاور پانی وغیرہ کی تلاش میں پاکستان میں داخل ہوتے ہیں، اور بم دھماکے یا فوجی اڈوں پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ پاکستان کی حکومت اورآرمی کے سربراہ جنرل قمر باجوہ کئی مرتبہ کابل گئے۔ افغان صدر سے ملاقاتیں کی ، فوجیوں سے بھی ملے۔ وعدے پر عمل درآمد ہوتا نظر نہیں آیا۔ پاکستان نے اپنے علاقے میں خاردار تاروں کی فصیل بھی کھڑی کردی۔ یہ سلسلہ کسی صورت ختم ہی نہیں ہوتا۔ خیبرپختون خوا ، اور بلوچستان دو ایسے پاکستانی صوبے ہیں جہاں دہشت گرد ی کے واقعات ابھی تک ہورہے ہیں۔ ہزاروں جانوں کا ضیاع ہوچکا ۔ انتخابات کے بعد حکومت کی تبدےل ہوتے ہی افغان صدر اشرف غنی نے عمران خان کو ٹیلی فون کیا۔ مبارک باد دینے کے بعد ان سے میٹنگ کی درخواست کی جو عمران نے بلاجھجک قبول کرلی۔ اب دیکھتے ہیں کہ وزیر اعظم کا اعلیٰ ترین منصب سنبھالنے کے بعد وہ کس طرف کا رخ کرتے ہیں۔کابل یا تہران ، دونوں ہی دورے کے منتظر ہیں۔ ایران کے صدر حسن روحانی نے بھی عمران سے ٹیلی فون پر لمبی گفتگو کی۔ ہوسکتاہے عمران اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں جاتے ہوئے تہران رکیں یا پھر کابل اور تہران کا مختصر دورہ کرکے حالات کو بہتر بنانے کی سعی کریں ۔افغانستان کی کے پی کے کے ساتھ سرحدوں پر ابھی تاروں کی باڑ لگانے میں دو تین سال کا عرصہ درکار ہے کیوں کہ تقریباً 1500میل کی سرحد پر رکاوٹیں یکدم کھڑی نہیں کی جاسکتیں، وقت اور پیسہ دونوں ہی درکار ہوتے ہیں۔پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کے بعد افغانستان کے جارحانہ روئیے میں مثبت تبدےلی دیکھی گئی ۔یہی صدر اشرف غنی پہلے پاکستانی جارحیت کا الزام دیتے نہیں تھکتے تھے۔ لیکن اب شاید امر یکہ ، ہند اور خود افغانستان کو بھی احساس ہوگیا کہ نئی حکومت نئی حکمت عملی اپنائے گی۔اس لئے خوش دلی کا مظاہرہ کیا گیا۔امریکی سفارت خانے کے موجود ہ انچارج امریکی سفیر کی غیر حاضری میں عمران سے ملاقات کی جس سے قوی امید ہو چلی ہے کہ شاید ڈونلڈ ٹرمپ کے روئیے میں تبدیلی آئے۔ پاکستان کو اپنے مشرقی سرحدوں کی حفاظت میں پہلے سے زیادہ مدد ملے۔ ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ سرحدوں کی پوری طرح حفاظت آسان کام نہیں۔ اگر دو پڑوسیوں کے درمیان خوش دلی کا مظاہرہ کیا جائے تو بہت حد تک حالات پر قابو پایا جاسکتاہے۔
مزید پڑھیں:آئی ایم ایف کا جن منہ پھاڑے کھڑا ہے

شیئر: