Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نئی خارجہ پالیسی اور عمران خان کی دوراندیشی

***تنویر انجم***
پاکستان تحریک انصاف کی حالیہ انتخابات میں نمایاں کامیابی کے بعد وفاقی حکومت بنانے کے لیے جاری کوششوں کے اگلے اہم مرحلے کا آغاز آج 13 اگست سے ہو رہا ہے۔ اس حوالے سے نومنتخب قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا جا چکا ہے جس میں اراکین حلف اٹھائیں گے جس کے بعد 15 اگست کو اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب ہوگا۔ساتھ ہی یہ بات بھی واضح ہو چکی ہے ( اب تک) کہ عمران خان 18 اگست کو ملک کے بیسویں (20ویں) وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف اٹھائیں گے۔
الیکشن میں اپنی جماعت کی واضح برتری اور خود اپنی پانچوں نشستوں سے کامیابی حاصل کرنے کے بعد تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے غیر معمولی دعوؤں کو ذرائع ابلاغ میں نمایاں اہمیت دی جا رہی ہے۔ الیکشن کے ابتدائی نتائج آنے کے بعد عمران خان کی جانب سے کی جانے والی تقریر اور اس کے بعد وفاق سمیت خیبر پختونخوا اسمبلی میں حکومت بنانے کی یقین دہانی کے بعد اگلے مرحلے میں پنجاب پر حکمرانی کے لیے تیاریاں جاری ہیں جبکہ حالیہ انتخابات کے نتائج کی شکل میں ملک بھر میں آنے والی ایک نئی تبدیلی کے بعد عالمی سیاست اور اس کے کھلاڑیوں کا رخ بھی پاکستان کی نئی حکومت اور جلد وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے والے عمران خان کی طرف ہو چکا ہے۔
اس حوالے سے امریکا اور ہندمیں مچی کھلبلی واضح دکھائی دے رہی ہے۔ الیکشن کے بعد آئندہ کی صورت حال واضح ہوتے ہی ہندمیں بھی عمران خان ہی اخبارات کی شہ سرخیوں کا موضوع بنے رہے جبکہ امریکا کی جانب سے بھی ان تک رسائی کی کوششیں کی گئی جس کے مطابق گزشتہ ہفتے پاکستان میں امریکی ناظم الامور جان ایف ہوور نے عمران خان سے اہم ملاقات کی اور انہیں انتخابات میں کامیابی پر مبارک باد بھی دی۔ بنی گالہ میں ہونے والی اس اہم ملاقات میں امریکی سفیر نے دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید بہتر بنانے پر زور دیا۔ دوسری جانب عمران خان نے دوسرے ممالک سے تعلقات سمیت افغانستان سے متعلق دو ٹوک موقف کا اظہار کردیا جو کہ امریکی توقعات کے بالکل برعکس ثابت ہوا۔ عمران خان نے واضح کیا کہ ہم امریکا کے ساتھ تجارتی اور معاشی تعلقات کو اہم ضرور سمجھتے ہیں تاہم افغانستان سے متعلق انہوں نے کہا کہ ہم پڑوسی ملک میں امن کے خواہاں ہیں اور طاقت کا استعمال اس مسئلے کا کبھی حل نہیں ہو سکتا۔ ماضی میں اس حوالے سے درجنوں شواہد موجود ہیں جب امریکا نے اپنے مختلف ذرائع اور وسائل کا استعمال کرتے ہوئے پاکستانی حکومتوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی ۔ سیاسی طور پر کامیابی نہ ہونے کی صورت میں مالیاتی اداروں کے ذریعے اور بسا اوقات تو اپنے ایجنٹوں کا استعمال کرتے ہوئے بھی ملکی سیاست اور معاملات میں اپنے مفادات کے حصول کی امریکی کوششیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔
اسی پیرائے میں فوج کے سابق سربراہ جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ امریکا پاکستان کے خلاف گریٹ گیم کو جاری رکھتے ہوئے چاہتا ہے کہ ماضی کی طرح آئندہ بھی پاکستان اس کی ڈکٹیشن کا نہ صرف تابع ہو بلکہ اس کی (امریکی) پالیسیاں پاکستانی نظام اور حکومتی پالیسی پر اپنا اثر قائم کیا جائے اور (پاکستان) کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ضائع نہ کیا جائے۔
قبل ازیں اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے بھی بنی گالہ میں عمران خان سے ملاقات کی اور انہیں انتخابات میں کامیابی پر مبارک باد دی۔ اس موقع پر عالمی امور سمیت بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے کردار پر بات چیت کی گئی۔ 
اہم بات یہ ہے کہ امریکی وفد کی عمران خان سے ہونے والی ملاقات سے چند روز قبل ہی ایرانی سفیر مہدی ہنر دوست نے بنی گالہ میں تحریک انصاف کے چیئرمین سے ملاقات کی تھی جس میں تہران اور ریاض حکومتوں کے مابین تعلقات میں پاکستان کے کردار سے متعلق بات چیت ہوئی۔ ذرائع ابلاغ میں بتایا گیا کہ دونوں رہنماؤں کی ملاقات میں انتخابات میں کامیابی پر ایرانی صدر کا پیغام پہنچایا گیا اور دونوں ممالک کے مابین تعاون اور اشتراک کی راہیں کھلی رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔ ایرانی سفیر کا ملاقات میں کہنا تھا کہ خطے کی صورتحال نہایت حساس ہے تاہم ایران خطے میں امن کے لیے پاکستان کی تجاویز کا خیرمقدم کرے گا۔
امریکا، تہران حکومت پر خطے کے دیگر ممالک خصوصاً مشرق وسطیٰ میں مداخلت اور جوہری پروگرام سمیت بیلسٹک میزائل پروگرام کے حوالے سے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتا ہے جبکہ ایران کا کہنا ہے کہ وہ عالمی معاہدے کی نہ صرف مکمل پاسداری کرتا ہے بلکہ عالمی طاقتوں سے کیے گئے سمجھوتے پر ہر لحاظ سے عمل پیرا بھی ہے۔ پاکستان کا پڑوسی ہونے کے ناتے ایران کسی بھی صورت حال میں پاکستان سے اپنے تعلقات برقرار رکھنا چاہتا ہے جبکہ امریکا اپنی مخاصمت اور نفرت انگیز پالیسی کے تحت ایران کے خلاف موقف اپنانے کے لیے پاکستان کی حمایت حاصل کرنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔
اُدھر پی ٹی آئی کے ترجمان فواد چوہدری نے نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے حالیہ سیاسی گرما گرمی کے موسم میں امریکا کو پیغام دیا ہے کہ ہم خطے کی پالیسی سے متعلق امریکی پالیسی کے آلہ کار نہیں بن سکتے۔ برابری کی بنیاد پر تو امریکا سے تعلقات قائم رکھ سکتے ہیں تاہم اگر امریکا ہم پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرے گا تو اسے ناکامی کا سامنا کرنا ہوگا۔ اس سے پہلے ممکنہ وزیر خزانہ اسد عمرنے بھی امریکا کی جانب سے قرضوں سے متعلق متنازع بیان پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا خود پر چینی قرضوں کی فکر کرے، پاکستان سے متعلق اسے فکرمند ہونے کی قطعی ضرورت نہیں۔ قبل ازیں امریکی وزیر خارجہ نے دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تھی کہ ہم اس بات پر نظر رکھیں گے کہ پاکستانی حکومت چینی قرض چکانے کے لیے آئی ایم ایف کے جاری کردہ فنڈز کا استعمال تو نہیں کررہی۔
اسی دوران خطے کا اہم اور پاکستان کا پڑوسی ملک ہند بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ اس نے بھی اپنے ہائی کمشنر کو بنی گالہ بھجوا کر نئی حکومت بننے سے قبل اپنی حاضری لگانے کو یقینی بنا لیا ہے۔
اس موقع پر ہند کی توقع کے برخلاف عمران خان نے واضح موقف اپناتے ہوئے کشمیر میں  ہندوستانی جارحیت پر اپنی تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ وہاں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، ساتھ ہی انہوں نے امید بھی ظاہر کی کہ جلد ہی سارک سربراہ اجلاس پاکستان میں منعقد ہوگا۔ اس سے پہلے ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی بھی عمران خان کو فون کر چکے ہیں۔
عالمی رہنماؤں کے پیغامات، روابط اور دوسرے ملکوں کے سفیروں کے رابطوں کے سلسلے ہی میں اتوار کو خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے بھی عمران خان کو انتخابات میں کامیابی پر مبارک باد دیتے ہوئے ملک کی خوشحالی کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا ہے جبکہ ولی عہد محمد بن سلمان بھی عمران خان کو وزیر اعظم بننے سے قبل ہی عہدے کی مبارک باد دے چکے ہیں۔ قبل ازیں سعودی عرب اور چین کے سفیر بھی چیئرمین پی ٹی آئی سے ملاقات کر چکے ہیں۔ 
نئی حکومت کے قیام سے پہلے تک تو پاکستان تحریک انصاف اور اس کے رہنماؤں کی جانب سے جاری کیے گئے بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ ملک میں تبدیلی کے لیے انتخابی برتری حاصل کرنے والی جماعت واقعی بڑے فیصلے کرنے میں سنجیدہ ہے جبکہ پارٹی کی قیادت اور وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بیٹھنے کے لیے تیار عمران خان بھی غیر ملکی رہنماؤں سے ملاقاتوں اور اپنے بیانات میں دو ٹوک اور واضح موقف ظاہر کر چکے ہیں۔ ایسے میں پی ٹی آئی کے لیے خارجہ پالیسی سب سے بڑا چیلنج بن کر سامنے آ رہی ہے جس کا اندازہ حکومت بننے کے ابتدائی 100 دن میں ہو جائے گا کہ یہ نیا سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھنا چاہتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ عمران خان اور ان کی منتخب کردہ ٹیم نئے عزم اور ولولے کے ساتھ میدان میں اترنے کو تیا رہے اور وہ ابتدائی تین ماہ سخت محنت کے ذریعے ملک کو بہتری کی راہ پر لانے میں کامیاب ہو جائیں گے تاہم ناقدین کی بات بھی غیر اہم نہیں سمجھی جا سکتی کہ برسوں کے بگڑے معاملات چند روز یا چند ماہ میں ٹھیک کرنا نئی حکومت کے لیے ممکن نہیں ہوگا۔ اگر کپتان نے اپنی ٹیم میں نئے، پرعزم اور مخلص کھلاڑی ساتھ رکھے تو مثبت تبدیلی کی توقع کی جا سکتی ہے لیکن اگر پرانے اور پہلے سے ناکام کھلاڑیوں ہی کو آزمایا گیا تو نتیجہ اچھا نکلنا مشکل ہوگا۔ یہ وقت عمران خان کی دور اندیشی کا بڑا امتحان ثابت ہوگا۔
 

شیئر:

متعلقہ خبریں