کراچی(صلاح الدین حیدر ) پے در پے شکست۔قدم قدم پر ناکامی۔ ہر فیصلہ غلط، نواز لیگ اتنی تجربہ کار سیاسی پارٹی ہوتے ہوئے بھی، کاش گھمنڈ کی مصنوعی دنیا میں رہنے کے بجائے عقل سے کام لیتی۔شہباز شریف ، پارٹی کے سربراہ کو وزیر اعظم کے انتخاب میں بری طرح ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ کہاں عمران کے ووٹ دیکھ لیں اور شہباز شریف کے صرف 90 ووٹ۔اتنی بڑی ہزیمت کے بعد بھی انہوں نے اپنے بیٹے حمزہ شہباز کو پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے لئے تحریک انصاف کے خلاف کھڑا کردیا۔بھول گئے کہ عمران کی گڈی فی الوقت تو بلندیوں کے اتھاہ گہرائیوں کو چھو رہی ہے۔ ووٹ کا فرق زیادہ نہیں تھا ۔ لیکن شکست شکست ہوتی ہے۔ریکارڈ میں تو وہ ہارے ہوئے لکھے جائیں گے۔ ان تمام باتوں کے باوجود اب ن لیگ نے جس کے فیصلے شاید نواز شریف جیل میں بیٹھ کر تے ہیں۔ بھائی کو حکم دیتے رہتے ہیں، اب اپنے کئے کا پھل کھانے پر مجبور ہیں۔ انگور کھٹے ہیں۔لالچ تو ہوتی ہی ہے کہ شاید شاخ ٹوٹ جائے۔ درخت کا پھل ڈالی سے ٹوٹ کر ان کے دامن میں آگرے۔ نیوٹن کے فلسفے نے ایک مرتبہ ہی بتایا اور آج تک سائنسدان اس پر اکتفا کئے ہوئے ہیں۔ اگر پی ایم ایل (ن) بار بار ٹھوکر کھا چکی ہے تو لازم تھا کہ سنبھل جائے ، اس نے پیپلز پارٹی کو بجائے منانے کے تصادم کے راستے کو ترجیح دی۔ ظاہر ہے پیپلز پارٹی بھی، بری بھلی جیسی ہے۔ ایک عوامی پارٹی ہے، اس کی جڑیں 1967میں بھٹو کے زمانے سے عوام میں موجود ہیں۔بھٹو کی مقبولیت پر ہی بینظیر نے 2 مرتبہ الیکشن جیتا اور برسراقتدار آئیں۔میں نہیں کہہ سکتا کہ بھٹو کی بیٹی میں بھی غرور اور تکبر تھا۔ وہ بھی انسان تھیں، غلط فیصلے انسان سے ہی ہوتے ہیں۔ فوری طور پر ان کا ازالہ کردینے میں ہی عافیت سمجھتی تھیں۔بے نظیر سیاسی دور کا سب سے بڑا منفی پہلو خود ان کے شوہر نامدار آصف زرداری تھے، جنہوں نے بیوی کو پےسے بنانے پر مجبور کیا۔ دنیا نے نتیجہ دیکھ لیا، خود بے نظیر کے نامزد صدر فاروق لغاری نے انہیں اپنے قلم سے اقتدار سے ہٹایا۔ اس کے بعد وہ کبھی اقتدار میں دوبار نہیں آسکیں۔ حالات ہی مناسب نہیں تھے۔ 2007میں شاید وہ انتخابات جیت جاتیں۔گو کہ حالات ان کے خلاف تھے۔ شہادت کا درجہ حاصل کرکے پارٹی کو سرخرو کر گئیں۔ اس سے پہلے 40/45سال میں واحد مثال ہندوستان کی وزیر اعظم اندراگاندھی تھیں،جو اپنے ہی سیکیورٹی گارڈ کی گولی سے ہلاک ہونے کے بعد ر اجیو کے لئے راستہ ہموار کرگئیں۔ر اجیو بہت ہی کم عمری میں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے وزیر اعظم بنے ۔ مثال مشہور ہے کہ دودھ کا جلا چھاج بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔وہی کچھ پیپلز پارٹی کے ساتھ ہوا، وہ نون لیگ کی سیاست سے اس قدر مایوس ہوچکی تھی کہ اب بالآخر ان سے صدر مملکت کے انتخاب کےلئے جو 4ستمبر کو ہوگا۔ پی ٹی آئی نے ڈاکٹر عارف علوی اور پیپلزپارٹی نے ملک کے مایہ ناز وکیل، بیرسٹر اعتراز احسن ، کو نامزد کردیا۔ن لیگ نے مخالفت کردی ، اگر وہ ایسا نہیں کرتی تو عین ممکن تھا کہ پی پی پی اور پی ایم ایل (نون) مل کر پی ٹی آئی کو حیرت زدہ کر سکتی تھیں۔ نون لیگ نے پیپلزپارٹی کی حمایت سے انکار کرکے خود اپنی آخرت خراب کر لی۔ پنجاب میں اسے اچھی خاصی کامیابی ہوئی تھی عمران حکومت کی غلطیوں سے وہ دوبارہ اپنی مقبولیت حاصل کرسکتی تھی۔ ان سب باتوں میں ہوش کی ضرورت ہوتی ہے، جو ن لیگ سے دور ہوتی جارہی ہے۔ اعتراز احسن سینیٹ کے ممبر، بینظیر حکومت میں وزیر داخلہ بھی رہ چکے ہیں۔زرداری کے قریب اور پر اعتماد ساتھی ہیں، وہ چاہتے تو انکار کرسکتے تھے لیکن مروت بھی کوئی چیز ہوتی ہے، جس پر انسان قربان ہوجاتاہے۔