Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”منفی سوچ نسوانی ذہن پر ہی مسلط نہیں ہوتی ، مرد بھی شکار ہوتے ہیں“

 تسنیم امجد۔ریا ض
ہماری خالہ جان اکثر ہمارے ہا ں آ جا تیں۔ان کا گھر زیادہ دور نہیں تھا اس لے پیدل ہی چلی آ تیں۔ہا نپتی ہو ئی ہمیں پانی کے بعد چائے لانے کا حکم صادر کر دیتیں ۔اما ںسے کہتیں کہ بہن تھو ڑی دیر کے لئے آ ئی ہو ں تم سارے کام چھو ڑ کر بس میرے پاس آ کربیٹھ جاﺅ۔ذرا دل ہلکا کرلو ں۔ان کی تھو ڑی دیر بھی 2 گھنٹے سے کم نہیں ہو تی تھی۔ ہر مرتبہ ان کے پاس اپنی دیورانی کی نئی کہا نی ہو تی۔معلوم نہیں ان کو اس سے کیا لگاو ٹ تھی۔
اما ں کہتیں کہ ان کو سب سے زیادہ مشکل اپنی دیورانی سے ہے ۔وہ شکل و صورت میں اچھی ہے ،ڈاکٹر ہے اور دیور کاکا روبار بھی اچھا ہے ۔سلیقے میں بھی اس کا جواب نہیں ۔اما ں انہیں سمجھا تیں کہ کیو ں اپنا خون جلاتی ہو ۔تمہارے شو ہر بھی کسی سے کم نہیں ۔ہر ایک کااپنااندازِ زندگی ہے لیکن ان کا ایک ہی رونا ہوتا کہ میرے پاس یہ نہیں، وہ نہیں۔خالہ کے بیٹے اعلیٰ تعلیم کے لئے اسکا لر شپ پر لندن چلے گئے ۔وہ اس پر بہت خوش تھیں۔مٹھائی لیکر آ ئیں۔اما ں بو لیں ، اللہ کریم کا شکر ہے کہ آپ بھی خوش توہو ئیں۔وہ فو ر اً بو لیں کہ اس کے بچے بھی بہت لا ئق ہیں،ہر سال اول آ تے ہیں۔ دو چار سال کی ہی بات ہے ۔وہ بھی انہیں کی طر ح آ گے نکل جا ئیں گے ۔ارے تو کیا ہوا ؟آپ آخر کیا چا ہتی ہیں؟اما ں کو غصہ آ گیا ۔
اسی طر ح ماہ و سال گز رتے گئے۔خالہ کے بیٹے اعلیٰ عہدو ں پر فا ئز ہو گئے ۔بہت ہی با ادب ہیں ۔گھر کے حالات شان و شو کت میں کسی سے کم نہیں رہے لیکن ان حالات سے لطف اندوز ہو نے والے والدین اپنی زند گیا ں گھسیٹ رہے ہیں ۔انہیں ڈا کٹروں اور اسپتالوں سے ہی فر صت نہیں ۔خالہ نے اپنے ساتھ خالو کو بھی اپنے جیسا بنا دیا تھا ۔حسد ان کی طبیعت کا بھی خا صہ بن چکا تھا ۔اپنی ذات سے بے خبر انہیں دو سرو ں کی فکر لگی رہتی تھی ۔کو ئی خو شخبری اور کا میابی ان کے لئے کچھ معنی نہیں رکھتی تھی ۔ایک ا حساسِ کمتری کے غلاف میں لپٹے وہ خود کو ا ذیت دے رہے تھے ۔ادھر ان کی دیورانی ہشاش بشاش جب بھی ان سے ملتی ،ڈھیرو ں تحائف لا تی ۔خالہ پر دل و جان سے صد قے وا ری جا تی ۔نتیجتاً اس کی صحت پہلے کی طرح ہی رہی۔نا شکری اور بچکا نہ سو چ کا کو ئی علاج نہیں ۔
چند دن قبل اماں بتا رہی تھیں کہ خالہ کو معدے کا سر طان ہو گیا ۔اس اسٹیج پر پہنچ چکا ہے کہ اب لا علاج ہے ۔ان کا علاج ان کی دیورانی ہی کے حصے میں آ یا ۔وہ آ ر می اسپتال میں سر طان کے شعبے کی ہیڈ آ ف ڈپار ٹمنٹ ہے۔اس نے خصو صی اجازت نا مہ حا صل کیا ہے کیو نکہ یہ فوجی اسپتال ہے اس میںعام عوام کا علاج نہیں کیا جاتا۔وہ گھر وا لو ں کو یقین دلاتی ہے کہ یہ ضرور صحت یاب ہو جا ئیں گی ۔ان کے محبت بھرے بول اس خا ندان کے لئے آ بِ حیات کا در جہ رکھتے ہیں ۔ہمیںافسوس تو اس بات کا ہے کہ یہ اپنی منفی سوچ کی و جہ سے اس حال کو پہنچی ہیں۔شاید ایسی سوچ غیر محفو ظ ہو نے کا ا حساس ہے جو حسد کو جنم دیتی ہے ۔ایسے لوگ دو سرو ں کی ہر دلعزیزی اور خو بیو ں کی آ گ میں خود کو جلا تے رہتے ہیں۔یہ سچ ہے کہ انسان میں رقا بت کا جذ بہ ہو تا ہے ۔اس کے پنپنے کا ذمہ دار بھی انسان خود ہی ہو تا ہے ۔ایسے لوگ دو سروں سے ان کا مقام چھیننے کی فکر میں رہتے ہیں۔اگر تو وہ اپنے مشن میں کا میاب ہو جا ئیں تو خود کو تیس مار خان سمجھنے لگتے ہیں ۔انہیں یہ احساس نہیں رہتا کہ انہو ں نے کیا کھو یا اور کیا پا یا ۔
اماں بتا تی ہیں کہ خالہ کو بچپن سے ہی یہ عادت تھی ۔وہ بہن بھا ئیو ں سے چھینا چھپٹی کر تی رہتی تھیں ۔بات بات پر منہ پھا ڑ کر رونا شرو ع کردیتی تھیں۔اس پر سبھی انہیں پیار کرتے، مناتے اور ان کی غلطی پر بھی انہیںپیار کرتے ۔یوں لگتا تھا کہ انہیں سب پر فو قیت دی جارہی ہے ۔وقت کے ساتھ ساتھ ان کی یہ عادت پختہ ہو تی چلی گئی ۔دیکھا جائے تو اس میں ہمارے والدین کا ہی قصور ہے جنہوں نے ان کی بے جا ضدیں مان مان کرانہیں خود پسند بنا ڈالاجبکہ یہ حقیقت ہے کہ جڑ وا ں بہن بھا ئی بھی اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں ۔کچھ کھو نے کا احساس انسان سے خود اعتما دی چھین لیتا ہے ۔شاعر نے سچ ہی کہا ہے کہ:
کیو ں حسد کرتی ہے ، دریا کی روا نی مجھ سے
آ کے لے جائے مری آ نکھ کا پا نی مجھ سے
ماس نا خن سے جدا کر کے دکھا یا میں نے
اس نے پو چھے تھے ،جدائی کے معانی مجھ سے
آج جہا ں ٹیکنا لو جی ،میڈیا اورشعور و فہم کی دولت سے انسان کی تر قی آ سان ہو چکی ہے وہا ں بھلا خوف کی کیاجگہ ۔بے چینی ،بے بسی اور ا حساس ِ محرومی ہما راپنا پیدا کر دہ ہے ۔اس سے اپنے گرد موجود سب کچھ ہی بھدا اور مکروہ لگنے لگتا ہے ۔منفی ر حجانات،عدمِ تحفظ یا حسد ایک ایسا مر ض ہے جس کا مریض کسی دو سرے کا کو ئی بھی فا ئدہ یا ا چھا ئی بر دا شت نہیں کر سکتا ۔ منفی سوچ صرف نسانی ذہن پر ہی مسلط نہیں ہوتی بلکہ مردوں کو بھی اپنا شکار کرتی ہے ۔ایسے فرد کی اپنی ذات کو کو ئی فا ئدہ پہنچے یا نہ پہنچے ،وہ دوسرو ں کے فا ئدے پر دل گر فتہ ہو جا تا ہے ۔اس طر ح آ خرت کی سزا سے پہلے یہ خود دنیا میں سزا بھگت لیتا ہے ۔اس کے بر عکس دوسرو ں کا فا ئدہ سو چنے والا دنیا میں اور آ خرت میں اجر پا تا ہے ۔آج کا ما حول سہو لتو ں سے معمور ہے پھر بھی لوگوں کوسکون کی تلاش ہے جبکہ ما ضی میں پر سکون اور پر امن ما حول میں زندگی نہا یت خو بصورت تھی ۔قنا عت کی دو لت سب کے پا س تھی ۔تعلیم و تحقیق کر نے والے فا قوں سے بھی نہیں گھبراتے تھے ۔
حال ہی میں کسی کا عروج دیکھ کر رشک آ یا ۔ہمارے ساتھ یو نیور سٹی میں ایک لڑ کا تھا،بہت ہی سادہ۔ایک ہی شلوارقمیص تھی شاید اس کے پاس ،سا ئیکل پر یو نیور سٹی آ تاتھا ۔اس کے کیریئر پر ایک چھو ٹا سا ڈ بہ رکھا ہو تا تھا جس میں اس کی ما ں پرا ٹھا اور اچار یا کو ئی سا لن دیتی تھی۔پنجاب یو نیور سٹی میںآ تے ہو ئے وہ اس حالت میں گھبراتا نہیں تھا ۔
دو دن ہو ئے، ا خبار ا ٹھا یا تو اس کا نام کا بینہ میں دیکھ کر ہم حیرت زدہ رہ گئے ۔سو چا کہ سادگی کا کس قدر ا جر ملا ۔اس کے مقا بلے میںبڑی بڑی گا ڑیو ں میں آ نے وا لو ں کا کہیں نا م بھی نہیں سنا ۔سچ ہے کہ اللہ کریم اپنے شاکر بندوں کو دین و دنیا کی نعمتو ں سے مالا مال فرما دیتا ہے ۔
 

شیئر: