زمانہ بدل گیا،انداز بدل گئے، مقتدر محکوم ہوئے،عروج دیکھنے والے زوال پذیر ہوئے ،قعر مذلت میں گرے رفعت کی بلندیوں کو چھونے لگے،کل کے دھتکارے لوگ و قومیں آج دنیا کو تہذیب و تمدن سکھانے پر مامور ہیں،کل تک امن و آشتی کے گہوارے،آج آگ کے بڑھکتے شعلوں میں لپٹے،اپنی قسمت کو کوستے نظر آتے ہیںلیکن اگر نہیں بدلا تو کرہ ارض پر بسنے والے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کا اپنے نبی سے انداز محبت و وفا، نہیں بدلا۔ کل بھی محمد مصطفیکی ناموس پر جان نثار کرنیوالے موجود تھے اور آج بھی نبیکی حرمت پر جا ن نچھاور کرنے کا جذبہ رکھنے والے دیوانے موجود ہیں۔کل بھی ختم نبوت پر پہرہ دینے والوں کی معتد بہ تعداد روئے ارض پر موجود تھی توآج بھی یہ تعداد کہیں زیادہ ہو چکی ہے مگر کل تک دربار رسالتمیں کھڑے سیدنا عمر بن خطاب ؓ کی طرح آج ایسا ممکن نہیں کہ گستاخ رسولکو موقع پر ہی سزا دینے کیلئے ہاتھ تلواروں پر مچل رہے ہوں۔ درباررسالتمیں موجودنبی وہ ہستی ہیں،جنہیں اللہ رب العزت نے بھی رحمت اللعالمین پکارا،جس کا ثبوت خودمحبوب ربانی نے بارہا اپنی حیات طیبہ میں فراہم کیا بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ آپکی ساری زندگی ہی رحمتیں بانٹتے گزری۔یہ بھی حقیقت ہے (جسے غیر مسلم تسلیم کرنے سے کتراتے ہیں) کہ تقریباً تمام ادیان میں نبی اکرمکے متعلق اشارے دئیے گئے ہیں اور یہ کہا گیا ہے کہ جب نبی آخرالزماں تشریف لائیں تو تمام ادیان کے ماننے والے آپ کی نبوت کو تسلیم کر کے،آپ کے شانہ بشانہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا اقرار کریں مگریہاں حضرت انسان کو دی گئی فہم و فراست کا امتحان بھی ہے کہ آیا وہ حق کے اس پیغام کو تسلیم کرتے ہوئے دین اسلام میں شامل ہوتا ہے یا اپنی کم عقلی ، ضد و انا پرستی کا شکار رہتے ہوئے گمراہ رہنا پسند کرتا ہے۔
دین سے متعلق اللہ رب العزت کے احکامات انتہائی واضح ہیں اور کم و بیش ایک لاکھ24 ہزار پیغمبروں نے ایک ہی سبق اس دنیا کو سکھلایا ہے کہ یہ دنیا کسی تجربے یا کیمیائی تبدیلی سے معرض وجود میں نہیں آئی بلکہ اس کو پیدا کرنے اور اس کو چلانیوالی ذات اللہ تبارک و تعالیٰ کی ہے اور حضرت انسان کو اس دنیا میں بھیجنے کا مقصد ،قرآن کریم میں مفصل بیان فرما دیا گیا اور اسوہ حسنہؐ میں اسکی زندہ مثال دنیا کے سامنے رکھ دی گئی۔ یہ نبی اکرمکی جیتی جاگتی مثال ہی کا اعجاز ہے کہ غیر مسلم قوموں کے وہ افراد جو کسی بھی طور متعصب نہیں بلکہ حقیقت، سچائی اور اسرار کے متلاشی ہیں،نبی اکرمکی ذات کو ہر وقت کیلئے مثالی اور پہلے نمبر پر رکھتے ہیں۔ میری مراد مائیکل ہارٹ سے ہے،جس نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف’’100 مؤثر ترین شخصیات ‘‘ میں نبی اکرمکو پہلے نمبر پر رکھا۔اس تصنیف کو مکمل کرنے میں مائیکل ہارٹ کو 28 برس لگے۔ لندن میں اپنے ایک لیکچر کے دوران سامعین نے مائیکل ہارٹ کو ٹوکتے ہوئے سوال کیا کہ اس نے اپنی کتاب میں نبی اکرم کو پہلے نمبر پر کیوں رکھا؟جس کے جواب میں ؎ اس نے کہا کہ محمدنے 611عیسوی میںمکہ کے وسط میں کھڑے ہوکر کہا ’’اے لوگو !میں اللہ کا نبی ہوں‘‘۔فقط 4 لوگوں نے آپ کی بات کا یقین کیا:(1)آپکے قریب ترین دوست (2) آپکی زوجہ محترمہ نے اور صرف2بچوں نے۔ آج ! 1400 سال گزر جانے کے بعد آپکے ماننے والوں کی تعدادایک ارب سے زائد ہے اور مسلسل بڑھ رہی ہے۔ آپ (نعوذ باللہ) جھوٹے نہیں ہوسکتے اور نہ ایک جھوٹ 14 سو سال تک زندہ رہ سکتا ہے اور نہ ہی ایک جھوٹ ایک ارب سے زائد لوگوں کو بیوقوف بنا سکتا ہے ۔ علاوہ ازیں یہ بھی ممکن نہیں کہ لاکھوں مسلمان نبیکی شان میں کسی گستاخی کی سرکوبی کرنے کیلئے اپنی جانیں نثار کر نے پر تیار ہوں ۔ عیسائیوں میں کوئی ایک بھی ایسی مثال موجود ہے جو عیسیٰؑ کیلئے ایسا کر سکے؟اس جواب کے بعد پورے آڈیٹوریم پر خاموشی چھا گئی۔
یہ وہ سچائی ہے جس کا سامنا غیر مسلم کرنے سے ہمیشہ گھبراتا ہے اور نبی اکرم کی شان اقدس میں حیلے بہانوں سے گستاخیاں کرنے سے باز نہیں آتا۔ درحقیقت یہ ان کا وہ اندرونی خوف ہے جو انہیں بے چین کئے رکھتا ہے کہ کسی بھی وقت مسلمان اکٹھے ہو کر ان گستاخوں کو کرارا جواب دے سکتے ہیں۔اس سے بچنے کیلئے غیر مسلموں نے پہلے ہی مسلمانوں میں اختلافات پیدا کر رکھے ہیں، خلیج کو وسیع تر کیا جا رہا ہے۔ طرہ یہ کہ ساری دنیا کو علم ہے کہ مسلمان کچھ بھی برداشت کر سکتے ہیں مگر شان رسالتمیں کسی قسم کی گستاخی برداشت کرنا ان کے خمیر میں شامل نہیں۔مسلمانوں کی اس کیفیت کو جانچنے کیلئے آزادی اظہار رائے کا سہارا لیتے ہوئے،گستاخانِ رسول وقفے وقفے سے ایسی گستاخیاں کرتے آ رہے ہیں۔اس ضمن میں وہ اپنے انبیاء اور برگزیدہ ہستیوں کو بھی نہیں بخشتے۔ جس کا مقصد فقط اتنا ہے کہ وہ نبی اکرمکی شان اقدس میں گستاخی کا جواز بنا سکیں لیکن حیرت اُسوقت ہوتی ہے جب یہی گستاخانِ رسول ’’ہولو کاسٹ‘‘ جیسے جھوٹ پر لب سی لیتے ہیں،انکی ساری شوخیاں،گستاخیاں اور آزادی اظہار رائے کہیں بھنگ پی کر سو جاتی ہیںکیونکہ یہودی جیسی مکار قوم اس روئے زمین پر کبھی نہیں آئیگی جو پس پردہ رہ کر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل میں جتے رہتے ہیں۔ یہاں بھی ان کا خبث باطن اپنی پوری خباثت کیساتھ بروئے کار آ رہا ہے اور وہ حکومتیں جو آزادی اظہار رائے کے نام پر خبیثوں کو شان رسالت میں گستاخیوں کی اجازت دیتے ہیں یا انکا دفاع کرتی ہیں،ہولو کاسٹ سے متعلق کچھ بھی کہنے،لکھنے یا کارٹون بنانے سے خوفزدہ کیوں ہوتی ہیں؟ ہولو کاسٹ جو ایک انسانی المیہ رہا ہے(گو کہ اس سے متعلق حقائق بذات خود مشکوک ہیں)اس پر کچھ کہنے،لکھنے یا کارٹون بنانے کی آزادی نہیں لیکن ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی محبوب ترین ہستی کے متعلق ،کسی بھی ایرے غیرے کو آزادی اظہار رائے کے نام پر کچھ بھی بکواس کرنے کی آزادی کیوں؟
ہالینڈمیں دنیا کا بد بخت ترین انسان گیرٹ والٹ ،اپنی بھرپور خباثت کا مظاہرہ کرنا چاہتا تھا اور نبی اکرمکے حوالے سے گستاخانہ خاکوں کا مقابلہ کروانے پر تلا تھا۔اسکے خلاف نفرت کی بھرپور لہر عالم اسلام میں دوڑ رہی تھی مگر حکومتی سطح پر یا یہودیوں کی پشت پناہی کے باعث وہ اپنے اس مذموم مقصد پر ڈٹا ہوا تھا۔ سڑکوں پر ہونے والے مظاہروں کو وہ کسی خاطر میں لانے پر تیار نہ تھا۔اس دوران پاکستان میں حکومتی تبدیلی کا عمل مکمل ہوااور نئی حکومت نے مروجہ ریاستی اصول و ضوابط کے عین مطابق سفارتی ذرائع استعمال کرتے ہوئے ہا لینڈ کے پاکستان میں متعین سفیر کو دفتر خارجہ بلا کر سخت احتجاج ریکارڈ کروایا۔بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی بلکہ وہ تمام ذرائع جو اقوام عالم کیلئے قابل قبول ہیںاور وہ زبان جس میں انہیں سمجھ آتی ہے،اختیار کی گئی۔اس مسئلے کو مسلمانوں کی تنظیم او آئی سی کے پلیٹ فارم سے اقوام متحدہ میں پوری شدت سے اٹھانے کا منصوبہ تیار کیا گیا،جس کے بعد مذکورہ خاکوں کا مقابلہ منسوخ کر دیا گیا لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ ایسے شر پسند اپنی حرکتوں سے باز آنیوالے نہیں بلکہ کسی اور طریقے سے یہ کام سرانجام دینے کی کوشش کرینگے۔ لازم ہے کہ مسلمان حکمران اس بنیادی مسئلے پر اپنی آنکھیں کھلی رکھیں اور ہر ایسی حرکت پر منہ توڑ جواب دیں۔شان رسالت مآب میں کسی قسم کی گستاخی قبول نہیں۔