کیا اساتذہ تھے وہ۔تنخواہ قلیل ہے کہ کثیر ، سہولتیں میسر ہیں کہ نہیں ، عہدے میں ترقی ہوگی یا نہیں۔یہ ان کا مسئلہ ہی نہیں تھا۔ ویسے بھی ان باتوں پر غور کرنے کی فرصت ہی کہاں تھی ایسے اساتذہ کے پاس۔انہیں تو بس یہ فکر لاحق رہتی تھی کہ نالائق شاگرد کچھ پڑھ لکھ لیں ، تھوڑی بہت تمیز تہذیب سیکھ لیں۔اچھائی برائی کا بنیادی فرق جان لیں۔پچھلوں کے مقابلے میں قدرے بہتر شہری بن جائیں۔ لغویات میں نہ پڑیں اور آج کا کام کل پر مت چھوڑیں۔بدلے میں ان اساتذہ کو سوائے عزت و احترام اور اس خوشی کے کیا ملتا تھا کہ وہ اپنے سینکڑوں شاگردوں میں سے دو چار کے بارے میں سینہ پھلا کے کہہ سکیں کہ یہ جو آج ڈی سی بنا پھرتا ہے ، فلاں جو فضائیہ میں ونگ کمانڈر ہے اور وہ جو ایم این اے ہے۔یہ سب میرے شاگرد ہیں۔
اور پھر شاگرد بھی کیسے شاگرد تھے۔ڈی سی صاحب ہوں کہ ونگ کمانڈر کہ ایم این اے۔استاد کو سامنے سے آتا دیکھ کر گاڑی سے اترجاتے ، جلتی سگریٹ مٹھی میں بند کرلیتے۔گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کے ملتے۔سر جھکائے کھڑے رہتے اور پھر بہت اٹک اٹک کے پوچھتے ’’ سر ہمارے لائق کوئی خدمت ، کام ، حکم کوئی مشورہ ، نصیحت۔۔’’۔استاد کے منہ سے سوائے اس کیکچھ نہ نکلتا کہ بس بیٹا یونہی پھلو پھولو اور انسانوں کے کام آؤ۔اور پھر جب تک استاد کی سائیکل نظروں سے اوجھل نہ ہوجاتی ڈی سی صاحب یا ونگ کمانڈر صاحب یا ایم این اے صاحب اپنی جگہ سے احتراماً ہلتے بھی نہ تھے۔یہی تو وہ ٹیچر تھے جن کے ہاتھ میں بچے کا ہاتھ دے کر کہا جاتا ’’ استاد جی آج سے یہ تمہارے حوالے ، گوشت تمہارا ہڈیاں ہماری ’’۔۔۔۔۔
اور پھر سب بدل گیا۔تعلیم کے خیمے میں پیسے ، لالچ ، رشوت ، سفارش کا اونٹ گھس گیا اور اب تو پورا خیمہ ہی اس اونٹ کے کوہان پر ہے۔جس کو کہیں نوکری نہیں ملتی وہ پرچی اور پیسے کے زور پر کسی سرکاری سکول میں ٹیچر بھرتی ہو جاتا ہے۔تنخواہ کو وظیفہِ آسمانی سمجھتا ہے اور مہینے کی پہلی تاریخوں میں اسکول کا چکر لگانے کا بھی تکلف کر لیتا ہے۔نہ وہ اپنے شاگردوں کی صورت اور نام سے پوری طرح واقف ہوتا ہے اور نہ ہی شاگردوں کو اس کی شکل ٹھیک سے یاد رہتی ہے۔دن میں اس کا زیادہ دھیان پڑھانے سے زیادہ اس میں اٹکا رہتا ہے کہ کب کسی من پسند جگہ پر تبادلہ ہو۔کب نیا انکریمنٹ لگے اور کب وہ پانچ برس میں ملنے والی ترقی صرف ڈیڑھ برس میں پا لے۔ شام کو یہی ٹیچر ٹیوشن سینٹر میں اپنے ہی اسکولی شاگردوں کو فی مضمون علیحدہ علیحدہ پیسے لے کر پڑھاتا ہے اور وہی کچھ پڑھاتا ہے جو اصولاً اسے دن میں اسکول میں فرض کے طور پر پڑھانا چاہئے۔
جہاں تک پرائیویٹ سیکٹر کا معاملہ ہے تو اوپر کے مہنگے مہنگے اسکولوں کو چھوڑ کے باقی سب اسکول بس ایک چھوٹے سے گھر پر بڑا سا بورڈ لگا کے انگلش میڈیم ہوجاتے ہیں۔استاد بھرتی پہلے ہوتا ہے اور انگریزی پڑھانے کا طریقہ بعد میں سیکھتا ہے۔ان اسکولوں کے اکثر مالکان کا تعلیم کے فروغ سے کوئی لینا دینا نہیں۔ریسٹورنٹ نہ کھولا ، ورکشاپ نہ بنائی ، اسکول کھول لیا۔ محض اس لئے کہ آج کل تعلیمی بزنس میں ریسٹورنٹ یا ورکشاپ سے زیادہ کمائی ہے۔کل اگر منافع میں خسارہ شروع ہوگا اور کچرہ فروخت کرنے میں زیادہ منافع نظر آئے گا تو یہی عمارت جس پر آج اسکول کا بورڈ لگا ہے کچرا کنڈی میں بدل جائے گا اور پرسوں یہاں زیور بنانے کا کارخانہ کھل جائے گا اور ترسوں۔
استاد اور شاگرد کا رشتہ جانے آج بھی زندگی بھر کا رشتہ ہے کہ نہیں۔پرانے دور کے سرکاری و مشنری اسکولوں میں جو لوگ پڑھ چکے ہیں۔انہیں آج پچاس ساٹھ برس بعد بھی اپنے ایک ایک استاد کا نام خوبیوں اور خامیوں اور لطائف سمیت یاد ہے کیونکہ انہوں نے ان اساتذہ کے ساتھ دس دس سال ایک ہی عمارت میں گذارے۔آج میرا بیٹا بظاہر ایک اچھے ولائیتی انداز کے اسکول میں پڑھ رہا ہے۔مگر جب بھی وہ اگلے گریڈ میں جاتا ہے اس کے اسکول کی عمارت بدل جاتی ہے۔کے جی میں کوئی اور بلڈنگ تھی ، نرسری میں کوئی اور ، پرائمری میں کہیں اور ، سیکنڈری میں بہت ہی دور کہیں اور۔ہر سال نئے اساتذہ کے چہرے اور اگلے برس پھر نئے چہرے۔میرا بیٹا پڑھ تو جائے گا مگر کس ٹیچر کو کب تک یاد رکھ پائے گا ؟
مجھے تو آج کے یہ ماڈرن اسکول درسگاہیں کم اور پولٹری فارم زیادہ لگتے ہیں۔چوزے ایک سائیڈ پر ، یہی چوزے زرا بڑے ہوئے تو ایک اور شیڈ میں ایک اور کئیر ٹیکر کے ساتھ اور پھر مرغی کے سائز کے ہوئے تو کسی اور رکھوالے کے حوالے اور بالاخر زندگی کی قربان گاہ کے حوالے۔
ان تعلیمی مرغی خانوں سے جو پیداوار نکلتی ہے دیکھنے میں تو وہ موٹے تازے خوبرو چکن ہی ہوتے ہیں مگر ان کا گوشت دیسی مرغوں کے برعکس دو آنچ میں ہی گل جاتا ہے۔سامنے کی مثال سی ایس ایس کے امتحانات میں بیٹھنے والے امیدواروں کی ہے۔یہ امیدوار اس ملک کی قسمت کے فیصلے کرنا چاہتے ہیں۔خواہش کرنے یا خواب دیکھنے میں کوئی برائی نہیں مگر کوئی حال اپنا بھی تو ہو۔
ایک انگریزی اخبار کے مطابق سی ایس ایس کے تحریری امتحان میں لگ بھگ دس ہزار گریجویٹ ( ایم اے ، بی اے ، بی ایس سی ، بی کام وغیرہ ) امیدوار بیٹھے۔ان میں سے صرف دو سو دو امیدوار ہی کامیاب ہو سکے۔یعنی نتیجہ دو اعشاریہ نو فیصد رہا۔
امیدواروں کی اکثریت انگریزی میں ایک اوریجنل پیرا بھی لکھنے سے قاصر ہے۔وہ گرائمر اور تحریر کے بنیادی قواعد سے خاصے نابلد ہیں اور اگر انہیں لکھنا آتا بھی ہے تو اپنے خیالات کو کسی منطقی انداز میں ڈھالنے سے قاصر ہیں۔
جڑ کمزور ہو تو درخت بھی ٹنڈ منڈ ہوتا ہے۔اگر کچھ کرنا ہی ہے تو پھر اصل کام یہ ہے کہ ان امیدواروں پر رونے پیٹنے کے بجائے اس تعلیمی مشین کو پرزہ پرزہ کرکے دوبارہ جوڑیں جس نے تعلیم کو صنعتِ مرغ بانی میں بدل دیا ہے۔