پومپیو کا دورہ پاکستان لاحاصل
کراچی ( صلاح الدین حیدر ) امریکی وزیر خارجہ کے دورہ پاکستان سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ کرلی تھیں فضول تھا۔امریکہ نے ہمیشہ ہی پاکستان اور دوسرے کئی چھوٹے ملکوں کو محض اپنے مقصد کے لئے استعمال کیا ۔ جب تک کام نکلتا رہا، نوازشوں کی بارش ہوتی رہیں۔ اردو کا محاورہ ہے کہ ” آنکھیں پھیر لیں مطلب نکل جانے کے بعد“یہی کچھ امریکہ پاکستان کے ساتھ کرتا رہاہے۔ اونچ نیچ تو بہت سارے ممالک کے باہمی تعلقات میں آتی رہتی ہے۔ دوستیاں قائم رہتی ہیں، گفت وشنید سے مسائل حل کرلئے جاتے ہیں۔پومپیو پاکستان میں چند گھنٹے کیا ٹھہرے۔میڈیا نے ہوائی فائر کرنا شروع کردیئے۔شروعات ہی غلط ہوئیں۔ میڈیا کو چاہیے تھا کہ تمام امور ، باہمی تعلقات کو ہر ممکن زاوئیے سے پرکھے۔ کاش ایسا ہوتا، ظاہر ہے پومپیو کی پاکستان میں وزیر اعظم، وزیر خارجہ، دونوں ملکوں کے درمیان وفود کی سطح پر بات چیت پھر آرمی چیف جنرل باجوہ سے تبادلہ خیال تک کچھ نہ کچھ لاحاصل تو ہونا ہی تھا۔ جس بات کی توقع تھی وہ پوری نہیں ہوئی۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو قوم کو امید دلانے کی کیا ضرورت تھی کہ برف پگھلنا شروع ہوگئی ۔دونوں طرف سے تفصیلی گفت و شنید کے بعد اعلامیے جاری کئے گئے۔پاکستان کی طرف سے کچھ اور کہا گیا۔ خاص کرشاہ محمود قریشی نے آخر یہ کیوں کہا کہ اس مرتبہ ”ڈو مور “ کا تقاضا نہیں کیا گیا۔ پاکستانی اعلامیے کے جواب میں امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے اسلام آباد میں سفارت خانے کے ذریعے ایک دوسرا بیانیہ جاری کر دیا ۔دونوں ہی بیانیے مختلف تھے۔ اختلاف وہیں کے وہیں موجود تھے، ملاقاتیں محض، نشستن، گفتن، و برخاستن سے زیادہ اور کچھ نہیں تھی۔ امریکی بیانے میں کھلے الفاظ میں زور دیا گیا کہ پاکستان کو دہشت گردی ختم کرنے میں بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔وہی پرانی رٹ، وہی انداز تکلم جو پہلے تھا سو اب بھی نظر آیا، لیکن وزیر اعظم نے عقلمندی سے کام لیتے ہوئے ،پومپیو سے ملاقات میں آرمی چیف جنرل قمر باجوہ اور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی، کو بھی پاکستانی وفد میں شامل کیا، تاکہ سویلین اور فوجی قیادت ایک پیج پر رہے۔ساتھ ہی انہوں نے امریکہ پر واضح کردیا کہ پاکستان 60 ہزار سے زیادہ جانیں امریکہ کی جنگ میں گنوا چکا ہے۔ 80 ارب ڈالر کا نقصان اٹھا چکا ۔اب وہ مزید نقصان برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ۔ یورپی ممالک کے میڈیا کے مطابق عمران نے مذاکرات پر خوشدلی کا مظاہرہ کیا تھا، یہ تو ڈپلومیسی میں کرنا ہی پڑتا ہے۔ مبصرین کے درمیان پاکستان امریکہ کا پرانا حلیف رہا ہے، اس سے تعلقات منقطع تونہیں کئے جاسکتے۔ اپنے مقصد کی حفاظت تو کی جاسکتی ہے۔ جو عمران کے بیان اور دورانِ گفتگو معلمانہ سے ظاہر تھا، پاکستان اب مزید امریکہ کی جنگ نہیںلڑسکتا، یہ شروع سے ہی عمران کا موقف رہا ہے، اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ شاہ محمود قریشی اگر کسی خوش فہمی میں مبتلا ہیں تو شوق سے رہیں۔ ےہ مت بھولیں کہ وہ پاکستان کے وزیر خارجہ ہیں، امریکہ یا کسی اور ملک کے نہیں، انہیں ایسے الفاظ استعمال نہیں کرنے چاہیے تھے جس سے قومی حکمت عملی پر زدپڑے۔ امریکہ کے اعلامیہ میں نا ہی 60 ہزار جانوں کا نقصان ، نا ہی 80ارب ڈالر جوپاکستان نے اپنی طرف سے افغانستان کی جنگ میں خرچ کئے کا کوئی ذکر نہیںتھا۔ پومپیونے ان قربانیوں کا ذکر تک نہیں کیا تو مزید توقع کیوں؟ وزیر اعظم نے اپنا قومی فریضہ خوش اسلوبی سے ادا کیا۔ افسوس کہ وزیر خارجہ نے فرائض سے غفلت برت کر ملکی مفادات کو بہت نقصان پہنچایا۔ اپنے طور پرپاکستان نے اس بات کی بھرپور وضاحت کردی کہ طالبان ہمارے ملک سے بھگا دئیے گئے۔ اب ملک میں کوئی طالبان نہیں ۔سب افغانستان جاچکے ہیں۔ افغانستان و افغان اہلکاروں اور سیکیورٹی عملے پر حملے کررہے ہیں، تو یہ تو امریکہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی گیارہ ہزار فوج جو وہاںموجود ہے کے ذریعے طالبان کا صفایا کرے۔ پاکستان پر ملبہ کیوںگرایا جارہاہے۔مبصرین اس بات پر متفق ہیںکہ دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت جاری رہنی چاہیے، لیکن ہمیں جھکنے کی چنداں ضرورت نہیں ۔