ایشین گیمز اور ہماری تاریخ
پاکستان کی تاریخ میں کھیلوں کے میدان میں ایسا بھی وقت آیا کہ ہم 5عالمی چمپئین تھے جس میں ہاکی ،کرکٹ ، اسنوکر ،کشتی رانی اور اسکواش شامل تھے ۔ایک آدھ تمغہ ہمارا باکسر بھی کسی نہ کسی طرح لے ہی آیا تھا ۔پھر کیا تھا کہ ہم نے اس پر محنت کرنا چھوڑ دیا ،ہاکی میں سیاست آگئی اور کرکٹ میں جوا ہونے لگا ۔اسکواش میں اکیلا جان شیر ہی لڑتا رہا ،پی آئی اے نے بھی اپنے فنڈ کم کردیئے ۔حکومت نے بھی سرپرستی چھوڑ دی ہم نمبرایک سے دو اور اب تو ہمیں دور دور تک امید نظر نہیں آتی۔جان شیر کا کوئی نعم البدل نہیں مل سکا ۔ اسنوکر میں ہم نے کامیابی حاصل کی تھی مگر خود اس کے فیڈریشن کے صدر اور ممبران پیچھے پڑ گئے کہ ہم کسی کو انعام تو نہیں دے سکتے البتہ اس کی بے عزتی کرنے میں کبھی پیچھے نہیں رہتے ۔رہ گئی کشتی رانی تو وہ تو ہم نے تکے میں سڈنی اولمپکس میں سونے کاتمغہ جیت لیا تھا کیونکہ ہماری سرکاری ٹیم ہار گئی تھی وہ تو پاکستان کے آزاد کشتی رانوں نے پاکستان کی طرف سے غیر سرکاری طور پر حصہ لیا تھا اور جیت گئے تھے تو وہ کریڈٹ بھی ہم نے اپنے کھاتے میںڈال دیا تھا ۔
اس سال ایشین گیمز میں بھی ہمارے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوا کہ پاکستان ہاکی ٹیم رائونڈ میچ میں ہند سے جیت گئی تھی اور سیمی فائنل کیلئے کوالیفائی کرلیا تھا مگر جاپان کے کاری وار نے پاکستان کو سیمی فائنل میں ہراکر پاکستان کو گولڈ میڈل کی دوڑ سے باہر کردیا اور دوسرے سیمی فائنل میں ملائیشیا کی ٹیم نے ہند کو پینالٹی اسٹروکس پر شکست دے کر اس کو بھی فائنل کی دوڑ سے باہر کردیا ۔پاکستان اور ہند کا تیسری پوزیشن کیلئے مقابلہ ہوا امید تھی کہ پاکستان رائونڈ میچز کی طرح ہند کو شکست دے کر کم از کم تیسری پوزیشن حاصل کرلے گا مگر ہائے رے قسمت پاکستان ہند سے بھی شکست کھا گیا اور تیسری پوزیشن ہند کے حق میں آئی ۔والی بال میں بھی پاکستان نے سیمی فائنل کے لئے جنوبی کوریا کو شکست دے کر سیمی فائنل کیلئے کوالیفائی کرلیا تھا مگر سیمی فائنل میں بھی شکست کھا گئی ۔ایشین گیمز میں پاکستان کو اسکواش میں گولڈ میڈل جیتنے کا موقع تھا مگر وہاں بھی ہم شکست کھا گئے اور کانسی کا تمغہ ہاتھ آسکا ۔موجودہ ایشین گیمز میں پاکستانی ٹیم 4 برائونز میڈل حاصل کئے ۔ رگبی میں بھی پاکستان، چین سے شکست کھا گیا ۔پاکستانی کھلاڑیوں نے جیولن تھرو ،کبڈی ،کراٹے میں کانسی کے تمغے حاصل کئے ۔کراٹے میں کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی 19سالہ نرگس نے 68کلو گرام سے زائد وزن کی کیٹیگری میں تمغہ حاصل کیا ۔اس کی کارکردگی حیران کن رہی۔ایشین گیمز میں پاکستانی دستے نے بدترین کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت دیا ۔پاکستان کے 350سے زائد کے دستے میں صرف 4 کانسی کے تمغے پاکستان کو مل سکے ۔پاکستانی اتھلیٹس کی خراب کارکردگی نے پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن اور پاکستان اسپورٹس بورڈ کے دعوئوں کی کھلی کھول دی ۔ہاکی جو پاکستان کا قومی کھیل ہے وہ بھی میڈل سے محروم رہا ۔پاکستان کی ہاکی میں پہلی مرتبہ ایسا حال نہیں ہوا ۔ماضی میں بھی پاکستان ہاکی فیڈریشن ایک خراب کارکردگی پر اگلے ٹورنامنٹ کا سہانا سپنا دکھاتی رہی ہے ۔اس سال چمپیئن ٹرافی کے الوداعی ایونٹ میں وائلڈکارڈ کی مرہون منت شرکت کرتے ہوئے پاکستانی ہاکی ٹیم نے 6 ٹیموں میں سے سب سے آخری پوزیشن حاصل کی تو اُس وقت پاکستان ہاکی فیڈریشن نے یہ نعرہ بلند کیا تھا کہ ہماری تیاری ایشین گیمز کیلئے ہے جس میں ہم گولڈ میڈل جیت کر 2020کے اولمپکس کیلئے براہ راست شرکت کو یقینی بنائیں گے ۔مگر ہائے رے قسمت وہی پرانا حال اور شکست ۔
اس وقت صرف کرکٹ ایسا کھیل ہے جس میں ہم کامیابیاں حاصل کررہے ہیں ۔اب دیکھنا یہ چاہیے کہ ہمارے کھیلوں کے کرتا دھرتا کب تک ہمیں اس شرمندگی سے دو چارکرتے رہیں گے ۔ان کی سیاست ،اقرباپروری ،رقموں کا ہاضمہ کب تک جاری رہے گا۔ حکومت سالانہ کروڑوں روپے ان پر خرچ کرتی ہے جو ان کی فیڈریشن ،ایسوسی ایشن کے سرکردہ مل ملاکر کھالیتے ہیں ۔او ربہت کم حصہ بے چارے ناتواں کھلاڑیوں پر خرچ کرتے ہیں ان کی تذلیل کرتے ہیں۔ اگر وہ جیت جائیں تو ساراکریڈٹ اپنے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ اور اگر ہار جائیں تو یا تو وہ کھلاڑیوں کو ذمہ دار ٹہراتے ہیں یا پھرامپائروں پر غصہ اتارتے ہیں ۔ابھی بھی اس اولمپکس میں ایک دو میچ کے لئے انہوں نے امپائروں کو قصوروار ٹہرایا ہے ۔اپنے غلطی کوئی نہیں مانتا کسی کو پاکستان کی عزت اور ناموس کا خیال نہیںہوتا ۔صرف اپنی گدی کی حفاظت اولین ترجیحات میں ہوتی ہے۔اب ماشاء اللہ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان خود ایک ا سپورٹس مین ہے اور انہوں نے اپنی کپتانی میں 1992میں پاکستان کو کرکٹ کا ورلڈ چمپیئن بنایا تھا ۔میری اُن سے گزارش ہے کہ وہ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن اور پاکستان اسپورٹس بورڈ کے کرتا دھرتا عہدیداران کو بلاکر اُن سے اس کی باز پرس کریں۔ ریٹائرڈ کھلاڑیوں پر مشتمل ایک بورڈ بنایا جائے جو ہمارے کھیلوں پر توجہ دے اور جو کھیل ہمارے ملک میں نہیں کھیلے جاتے ان کے سکھانے والے (ٹرینر)باہر سے بلواکر ان سے کوچنگ کرائی جائے تاکہ پاکستان کا نام ایک مرتبہ پھر کھیل کے میدانوں میں گونجے اور ہم کھوئے ہوئے تمغوں کے ساتھ ساتھ نئے نئے تمغے بھی لاسکیں۔اس کے لئے ہمارے پاس 4 سال پڑے ہیں ۔ ایک ایک دن سے فائدہ اُٹھائیں ۔امریکہ کے لمبے لمبے کالے اتنے سونے کے میڈل ،بھاگ دوڑ اور دوسرے کھیلوں میں لے سکتے ہیں تو کیوں نہ ہم پنجاب اور پختونخواکے علاقوں سے جہاں ہمارے طویل قامت نوجوان رہتے ہیں ان کی تربیت کا بندوبست کریں ۔چھوٹے سے لے کر درمیانی عمر تک کے نوجوانوں کی تربیت شروع کردیں تو آئندہ اولمپکس میں ہم بھی شوٹنگ بال ،والی بال ،گھڑدوڑ،سوئمنگ ،کبڈی ،سیپٹک ٹاکرا،جوڈو اور دوسرے کھیلوں میں یقیناکامیاب ہوسکتے ہیں۔صرف اور صر ف محنت ولگن اور حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔