Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لوگ یوں بھی اخلاقی پسماندگی کا ثبوت دیتے ہیں

اُم مزمل۔جدہ 
وہ جب امرود کھاتی اسے ایک ہی بات یادآجاتی تھی۔ وہ اپنے نانا جان کی ڈائری میں ساری زمینوں کا لین دین لکھتا تھا اور ایسے کسی بھی وقت وہ انہیں یاد دلانا نہیں بھولتا تھا کہ ناناجان آپ کے خیال میں جو چیز پسند نہ ہو اور اس کی جگہ دوسری چیز اگانے کا مشورہ دیا جاتا ہو تو پھر اتنے شوق سے وہی چیز جس کے بارے میں ناپسندیدگی کا اظہار ہو، اتنے شوق سے کیسے کھائی جاسکتی ہے اور وہ کم از کم نصف درجن امرود چند منٹ میں ختم کرنے کے بعد عملی طور پر ثبوت پیش کرتے ہوئے جواب دیتی ” ایسے“۔
ناناجان دونوں کو کوئی جواب نہ دیتے۔ پھر وہ کہتی کہ مجھے پھل میں آم سب سے زیادہ پسند ہے اسی لئے میں امرود کی بجائے آم کے باغ لگانا چاہتی ہوں لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ میں اپنے حصے کی زمین پر اُگی چیز سے دستبردار ہوجاﺅں۔ پھر نانا جان کو یاد دلانا نہ بھولتی کہ اپنی زمین کا حصہ لگا کر اسے اپنی زمین کا مالک بنا دیں یعنی اپنی نواسی کوکسی ایک حصے سے نواز دیں کیونکہ اس کے والدین تو اب اس دنیا سے ایک حادثے میں منہ موڑ چکے ہیں۔ وہ کیا گھر بھر میں کوئی اس اسکول کی طالبہ کو اس بارے میں حکم نہ بتاتا کہ والدین کی موجودگی میں جب اولاد کا انتقال ہو جائے تو اس اولاد کا شرعی حصہ واجب ادا نہیں رہتاہاں یہ اور بات کہ جائداد کا مالک اپنی جائداد میں سے ایک تہائی کا حق استعمال کرتے ہوئے اسے دے دے ۔ آم،امرود کی کہانی اس نے اپنے لئے دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ جان لی تھی۔ اسکے لئے وہ نانی کی بجائے انکی بڑی بہو کو ذمہ دار ٹھہراتی تھی۔ وہ بڑے ہال کمرے سے باہر نظر آئیں تو وہ انہیں دیکھتے ہی شروع ہوگئی کہ :
” آنے والا کوئی طوفان ہے ، آج موسم “
وہ جو اپنا کوئی کام وہاں کسی سے کہنے آرہا تھا فوراً پلٹ گیا اور بڑے ماموں جان کے پاس اسکی شکایت کرنے چلا گیا ۔وہ انہیں خفگی کے ساتھ بتا رہا تھا کہ ایسی حرکتوں سے اماں تو میری بات سنتے ہی طوفان کھڑا کر دیں گی۔
” کیا ہوا ہے، ہوا کچھ نہیں ہے 
بات کیا ہے، پتہ کچھہ نہیں ہے“
بڑی بھابھی جو اپنے تکیہ غلاف پر ریشم سے پھول کاڑھ رہی تھیں ،اچانک سر اٹھا کر پوچھنے لگیں ، کیا ہوا ہے، مجھے سب سے آخر میں پتہ چلتا ہے کہ کوئی مجھے کچھ بتا تا کیوں نہیں:
”مجھ سے کوئی خطا ہو گئی تو
اس میں میری خطا کچھ نہیں ہے“
چھوٹی ممانی کی بیٹی جو اپنے اسکول کے سالانہ فنکشن میں شاعر کا کردار ادا کر رہی تھی اور اپنا کاسٹیوم سفید کرتا پاجامہ اور غالب کے انداز کی ٹوپی کے ساتھ مصنوعی مونچھیں بھی سیٹ کر رہی تھی اچانک وہاں سے مونچھیں غائب ہو گئیں۔ پلٹ کر دیکھا تو انکی کزن صاحبہ اپنے لب کے اوپر ٹیپ سے چپکائے کچھ ٹیڑھی سی، دا ہنی طرف کی مونچھ اونچی اور بائیں جانب کی نیچی عجیب ہونق لگ رہی تھی اور اس کی صورت دیکھ کر کزن صاحبہ کی ایسی کھی کھی شروع ہوئی کہ اپنے کردار میں استعمال ہونے والی مصنوعی مونچھوں کا بیکار ہوجانا بھول ہی گئی۔”خوبصورت ہے تو، رُت جوان ہے،آج موسم “
کزن صاحبہ نے فوراً ٹوکاکہ شاعر تو میں بنی ہوں اتنی پریکٹس کرکر کے غالب کے چار اشعار یاد کئے ہیں لیکن اب مجھے لگ رہا ہے آپ میرے اسکول چلیں ۔وہ پھر شروع ہو گئی۔ ساتھ ساتھ ہال کمرے سے باہر بڑی ممانی ادھر سے ادھر آتے جاتے دیکھ سکتی تھی اور اسی سے ان کاپارہ ہائی ہونے کا اندازہ ہو رہا تھا۔ اس نے اپنا سر اور بلند کر دیا :
 ”کالی کالی گھٹا ڈر رہی ہے
ٹھنڈی آہیں ہوا بھر رہی ہے 
دروازے سے باہر دیکھتے ہوے اسکی کزن نے کہا کہ آپ کی اس کارروائی کے بعد اب مجھے اسکول فنکشن میں جانے کی اجازت ختم کردی جائے گی لیکن وہ ہر چیز سے لاپروا بس اپنی من مانی کئے جارہی تھی :
” سب کو کیا کیاگماںہو رہے ہیں 
ہر کلی ہم پہ شک کر رہی ہے 
پھولوں کا دل بھی کچھ بد گمان ہے
آج موسم ........
اس کی کزن نے اپنے کہے کا اس پر اثر نہ ہوتے دیکھ کر زور دار آواز سے دروازہ بند کردیا۔ وہ یکدم بے مزہ ہو کرگانا ادھورا چھوڑ کر خاموش رہ گئی۔وہ سخت پریشان تھا کہ گھر میں اماں کو خواہ مخواہ تنگ کرنے کا یہ سلسلہ وہ جاری رکھے گی تو وہ اس گھر کے سب بڑوں کے سامنے یہ شکایت لائیں گی اور جو رشتے کی بات ہوئی ہے، اس سے اپنی بیزاری ظاہر کر دیں گی ۔ماموں جو اکثر گھر بھر کے ہمراہ قریبی پارک جانے 
 کا پروگرام بنایاکرتے تھے اب بھی یہی سوچا کہ اچھا ہے وہاں جا کرسب کا موڈ بھی اچھا ہو جاے گا ۔موسم کی خوشگواری اثر دکھائے گی اور وہیں ہماری بات بھی ہو جائے گی۔
وہ اسکول سے واپس آئی تو کسی سہیلی کی سالگرہ کی دعوت کی خبر دیتے ہوے اپنا پروگرام بھی بتا دیا کہ وہ وہاں ضرور جائے گی۔ پھر اچانک خیال آیا وہ تو اتنی خوبصورت چمچماتی گاڑی میں آتی ہے اور ہمارے گھر میں تو ہر گاڑی یوں اپنی زندگی کی آخری سانس لیتی محسوس ہوتی ہے کہ اس کو نوادرکے میوزیم میں رکھ دیا جائے ۔اپنے غصے کے اظہار میں اکیلے ہی پارک کا رخ کرلیا۔ عجیب اتفاق تھا کہ دور سے ہی اس نے دیکھا کہ ایک نئی کار سڑک پر سے گزر رہی تھی ۔ اچانک پل کے اوپر سے کوئی گاربیج کا بیگ پھینکنے لگا ۔ وہ بھی اسے دیکھ چکا تھا۔ پارک پہنچی تو وہ وہاں موجود پانی کا پائپ لئے اپنی گاڑی کو دھو رہا تھا۔ اس پر نظر پڑی تو کہنے لگا کیا آپ اسی محلے میں رہتی ہیں جہاں لوگ ، عوامی رہگزر پر کوڑا کرکٹ پھینک کر اپنی اخلاقی پسماندگی کا ثبوت دیتے ہیں ۔ وہ سوچ کے بھنور سے نکلتے ہوئے کہنے لگی شاید آپ صحیح کہہ رہے ہیں ۔دوچار منٹ میں ہی اپنے کزن کو آتا دیکھ کر اسے تنگ کرنے کے لئے مسکراہٹ اپنے چہرے پر سجا لی لیکن اپنی بے عقلی پر اسے بعد میں افسوس ہوا کہ وہ کس مصیبت میں گھر گئی ہے۔ اجنبی نے اسی دوران فون نمبر پوچھ لیا تھا اور دونوں کو پیدل جاتے دیکھ کر انکا گھر بھی جان گیا تھا۔ دوسرے دن معلوم ہواکہ اسکی مسکراہٹ اسے کتنی مہنگی پڑی ہے جب اس نے گھر کے فون پر اسے دھمکی دیتے ہوے کہا کہ وہ ٹیلی پیتھی جانتا ہے۔ وہ اس سے ملاقات کرنے آئے ورنہ وہ اس کے گھر کے ایک ایک فرد کو نشانہ بنائے گا۔ وہ خوف سے فون بند کر چکی تھی لیکن ایک دن اس نے پھر فون کیا اور کہا تم نے بات نہیں مانی تو کل سے اپنے گھر کے ہر فرد کو گھر میں ہی روکے رکھنا کیونکہ ہمارا کوئی نہ کوئی ملازم انہیں ٹکرانے کے لئے کہیں نہ کہیں راستے میں انتظار کرتا مل جاے گا ۔
وہ ابھی خوف کی کیفیت سے باہر آئی بھی نہیں تھی کہ بڑے ماموں کے ایکسیڈنٹ کی خبر اسے مل گئی اور انجانے نمبر سے فون بجنے لگا۔ وہ کیسی کیسی باتوں کو سر پر سوار کر لیا کرتی تھی۔ آم کی بجائے امرود کے درخت کیو ںلگائے گئے ہیں۔ سب لوگ میری مرضی کے فیصلے کیوں نہیں کرتے کہ مجھے گھر کا حصہ دے دیں۔ بلند آواز میں گانے کیوںنہیں گاسکتے ۔چھت پر یا پارک میں تنہا جانے کی اجازت کیوں نہیں ہے اور ایسی ہی بے شمار معمولی چیزوں کو اہمیت دینے والی کو اب مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا تو معلوم ہوا وہ تو اب تک بڑے سکون سے زندگی گزارتی آئی تھی جہاں اس کی فکر سب کو تھی ۔اس نے وضو کیا، جائے نماز پر بیٹھ کراپنی تمام نادانیوںکی معافی طلب کرنے لگی ۔مالک حقیقی پر اس نے توکل کیا۔اسے یقین تھاکہ دعا ضرور قبول ہو گی اور تیسرے دن ہی اخبار میں اس کی نظر اس کرپٹ انسان کی تصویر پر پڑی کہ بینک میں ڈاکہ ڈالتے ہوے گارڈ کی بہادری کے سبب گرفتار ہو گیا۔
٭٭ جاننا چاہئے کہ جو لوگ معمولی مسائل کو خواہ مخواہ مصیبت گردانتے ہیں،اکثراصل مصیبت ان کے پاس آن پہنچتی ہے ۔
 
 

شیئر: