Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہجرت ، دینی ابتلا کے شکار مسلمان پر فرض

قرآن کریم نے ایسے مسلمانوں کو جنہوں نے نبی کریم کی ہجرت مبارکہ کے بعد مدینہ منورہ ہجرت نہیں کی تھی  وعید سنائی ہے
    نبی کریم کی ہجرت مبارکہ کا واقعہ، اسلامی دعوت کے2مرحلوں،مکہ مکرمہ میں اسلامی دعوت اور مدینہ منورہ میں اسلامی دعوت کے درمیان  حد فاصل کا درجہ رکھتا ہے۔ہجرت کے واقعہ نے مسلمانوں کی زندگی اور اسلامی تاریخ پر عظیم الشان اثرات مرتب کئے۔ہجرت کے اثرات رسول کریم کے عہد تک ہی محدود نہیں رہے بلکہ مسلمانوں کی زندگی کے ہر دور اور ہر علاقے پر اسکے گہرے اثرات پڑے ہیں۔ مسلمان ہی نہیں بلکہ بنی نوع انساں بھی ہجرت کے واقعہ سے متاثر ہوئی ہے اور ہورہی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اسلامی تہذیب و تمدن حق، انصاف ، آزادی اور مساوات پر قائم ہے، یہ انسانی تہذیب ہے۔ اس تہذیب نے بنی نوع انساں کو روحانی اور قانونی پاکیزہ اصول و ضوابط  پیش کئے اور کررہی ہے۔ اسلامی تہذیب نے فرد ، خاندان اور معاشرے کی زندگی کو منظم کیا۔ یہ انسان کی زندگی کو بحیثیت انسان کے منظم کرنے والی تہذیب تھی ،ہے اور رہے گی۔ یہ زمان و مکان اور افکار و نظریات اور عقائد و خیالات سے بالاہوکر بنی نوع انسان پر اپنے اثرات مرتب کررہی ہے۔
    رسول کریم کی سیرت مبارکہ کے اثرات زمان و مکان تک محدود نہیں۔  رسول اللہ کی سیرت مختلف حوالوں سے دنیا بھر کے انسانوں کے لئے حسین نمونہ تھی، ہے اور رہے گی۔ اللہ تعالیٰ نے محمد مصطفی  کو رحمت اللعالمین بناکر بھیجا۔ رسول اللہ   کی مکہ سے مدینہ منورہ ہجرت، بحیثیت واقعہ کے ختم ہوچکی ہے لیکن اسکے احکام زندہ تھے، ہیں اور رہیں گے۔ ہجرت کے احکام ہر دور  اور ہر جگہ کے انسانوں کیلئے قابل عمل تھے، ہیں اور رہیں گے۔ جب جب مسلمان مکہ جیسے حالات سے دوچار  ہونگے تب تب ہجرت کے احکام ان پر لاگو ہونگے۔اس تناظر میں مسلمانان عالم  ہجرت سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ اگر یوں کہا جائے کہ ہجرت ہماری زندگی کی اہم ضرورت ہے تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہوگا۔ وجہ یہ ہے کہ ہجرت کا مفہوم ایک ملک سے دوسرے ملک یا ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل ہوجانے تک کا نہیں بلکہ یہ ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقلی کا نام ہے۔ ہجرت کی بدولت اسلامی دعوت کمزوری کے عالم سے طاقت کے عالم میں منتقل ہوئی۔ مکہ مکرمہ میں مسلمان قلت میں تھے، مدینہ منورہ ہجرت کی توکثرت میں تبدیل ہوگئے۔ہجرت سے قبل یثرب کے لوگ تفرقہ و انتشار کا شکار تھے،ہجرت کی بدولت اتحاد و اتفاق کا نمونہ بن گئے۔ ہجرت سے قبل مہاجر اور انصار جمود کا شکار تھے، ہجرت کے بعد عظیم تحریک کاروں میں بدل گئے۔
    ہجرت عربی زبان کا لفظ ہے، اسکے معنیٰ ایک شے کو ترک کرکے دوسری شے کی طرف منتقل ہونے کے آتے ہیں۔ ہجرت کے لغوی معنیٰ ایک حالت سے دوسری حالت اور ایک علاقے سے دوسرے علاقے منتقل میں ہونے کے بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ سورۃ المدثر کی  آیت  5میں ارشاد فرماتا ہے، ترجمہ دیکھیں:
    ’’اور گندگی سے دور رہو۔‘‘
     اللہ تعالیٰ سورۃالمزمل کی آیت  10میں فرماتا ہے کہ :
    ’’اور شرافت کے ساتھ ان سے الگ ہوجاؤ۔‘‘
    دونوں آیتوں کے متن میں ہجرت کے ہم معنیٰ الفاظ استعمال کئے گئے۔ہجرت  اصطلاحی معنیٰ میں اہل شرک کے ملک سے اہل اسلام کے ملک منتقل ہونے کو کہتے ہیں، یہ مادی ہجرت کہلاتی ہے۔ جہاں تک شعوری ہجرت کا تعلق ہے تو اس کامطلب یہ ہے کہ ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے میں قدم رکھا جائے،دوسرا مرحلہ پہلے مرحلے سے بہتر ہو۔ مثال کے طور پر تفرقہ و انتشار کی حالت سے اتحاد و اتفاق کی حالت میں منتقلی شعوری ہجرت کہلائے گی۔ اسی طرح سے  اسلامی دعوت کے کمزور مرحلے سے طاقتور یا انفرادی دعوت کے مرحلے سے ریاستی دعوت کے مرحلے میں  منتقلی کو بھی ہجرت کہتے ہیں۔
    اسلامی نظام نافذ نہ کرنے والے ملک سے قرآن کی شریعت پر عمل کرنے والے ملک کی طرف ہجرت کا سلسلہ بند نہیں ہوابلکہ اس طرح کی ہجرت تمام مسلمانوں پر ایسی صورت میں فرض ہے جب اہل کفر دین کے سلسلے میں انہیں فتنے میں مبتلا کررہے ہوں یا انہیں عقائد کی آزادی دینے پر آمادہ نہ ہوںج اہل کفر انکے عقائد سے کھیل رہے ہوں۔ وجہ یہ ہے کہ زندگی  میں مسلمان کا نصب العین یہ ہو کہ وہ ایسے معاشرے میں زندگی بسر کرے جو اسے اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری اور اسکے احکام و تعلیمات میں معاون بن رہاہو یا کم از کم وہ معاشرہ مسلمانوں کے عقائد کی مزاحمت نہ کررہا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ دینی ابتلا بہت بڑا فتنہ ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ  دنیا  ایسے لوگوں کو بھی دیتا ہے جنہیں پسند کرتا ہے اور ایسے لوگوں کو بھی دنیاوی نعمتوں سے نہال کردیتا ہے جنہیں وہ پسند نہیں کرتا ۔ جہاں تک دین کا تعلق ہے تو یہ نعمت ان لوگوں کو عطا کی جاتی ہے جنہیں اللہ تعالیٰ عزیز رکھتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہہ لیں کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے دین سے نواز ا ہو وہ اللہ تعالیٰ کا محبوب ہے۔
     مسلمان ایک ملک سے دوسرے ملک ہجرت کرتا ہے تو اس کے پیش نظر کئی اہداف ہوتے ہیں۔ مسلمان اپنے دین اور اپنے عقیدہ بچانے کیلئے اپنے وطن کو خیر باد کہتاہے۔ مسلمان ہجرت اسلئے کرتا ہے تاکہ کافر حکام اسے کفر اختیار کرنے پر مجبور نہ کریں۔ بعض مسلم جمہوریتوں کے مسلمانوں کی ہجرت کے واقعات اس کی روشن مثال ہیں۔ مسلم ریاستوں کے مسلمانوں نے الحاد پرست کمیونسٹوں کے جبر سے بچنے کے لئے ہجرت کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ہجرت کا حکم سورۃ العنکبوت کی آیت 56میں یہ کہہ کر دیا ہے، ترجمہ دیکھیں:
    ’’اے میرے مومن بندو!  میری زمین وسیع ہے  پس تم میری ہی بندگی بجالاؤ۔‘‘
    نبی کریم   کا ارشاد گرامی ہے کہ’’ جو شخص کسی ایک علاقے سے دوسرے علاقے اپنا دین بچانے کے لئے  منتقل ہوا ہو، جنگ اسکے لئے واجب ہوجاتی ہے اور ایسے شخص کو اپنے با پ ابراہیم (علیہ السلام) کی رفاقت نصیب ہوگی۔‘‘
    کبھی کبھی مسلمان سماجی یا معاشی ظلم سے نجات حاصل کرنے کیلئے ہجرت کرتا ہے۔ اسے ڈر ہوتا ہے کہ کہیں نوبت اسکے دین تک نہ پہنچ جائے۔ اس حوالے سے اسکے پیش نظر سورۃ النحل کی آیت  41میں مذکور یہ حکم ہوتا ہے کہ :
    ’’اور جو لوگ ظلم سہنے کے بعد اللہ کی خاطر ہجرت کر گئے ہیں انہیں ہم دنیا میں ہی اچھا ٹھکانہ دینگے اور آخر ت کا اجر تو بہت بڑا ہے کاش وہ جان لیںـ‘‘
    انکے پیش نظر سورۃ النساء کی آیت   100میں مذکور یہ حکم بھی ہوتا ہے کہ :    ’’جو کوئی اللہ کی راہ میں ہجرت کریگا وہ زمین میں پناہ لینے کے لئے بہت جگہ اور بسر اوقا ت کے لئے بڑی گنجائش پائیگا اور جو اپنے گھر سے اللہ اور رسول  ()کی طرف ہجرت کے لئے نکلے اور راستے میں ہی اسے موت آجائے تو اسکا اجر اللہ کے ذمہ ہے ،اللہ بے حد بخشش فرمانے والا اور رحیم ہے۔‘‘
    امام احمدؒ نے ابو یحییٰ سے روایت کی ہے  کہ رسول کریم () نے فرمایا:
    ’’ممالک اللہ کے ہیں اور بندے اللہ کے ہیں، جہاں تمہیں اچھائی ملے وہاں قیام کرو۔ ‘‘
    قرآن کریم نے ایسے مسلمانوں کو جنہوں نے نبی کریم کی ہجرت مبارکہ کے بعد مدینہ منورہ ہجرت نہیں کی تھی  وعید سنائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے بدوؤں کو بھی جو ایمان لے آئے تھے اور اپنے دھن دولت کی خاطر مدینہ منورہ ہجرت سے جان چھڑا رہے تھے وعید سنائی ہے ، سورۃ النساء کی آیت   98میں ہے کہ:
    ’’ جو لوگ اپنے نفس پر ظلم کررہے تھے ان کی روحیں جب فرشتوں نے قبض کیں تو ان سے پوچھا کہ یہ تم کس حال میں مبتلا تھے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم زمین میں کمزوراور مجبور تھے،فرشتوں نے کہا کہ کیا اللہ کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے، یہ وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ بڑا ہی برا ٹھکانہ ہے۔‘‘
    جن لوگوں نے مدینہ ہجرت نہیں کی تھی وہ دینی ابتلا کا شکار ہوئے، یہ لوگ اپنا مذہب چھپانے پر مجبور ہوئے۔  اسے عام اصطلاح میں ’’تقیہ‘‘ کہتے ہیں۔تقیہ ایسی صورت میں جائز تھا جبکہ مسلمان ریاست سے محروم تھے۔ رسول کریم کی مدینہ منورہ ہجرت ا ور وہاں اسلامی ریاست کے قیام کے بعد دینی ابتلا کے شکار مسلمانوں کے پاس کوئی عذر نہیں رہا بلکہ  مدینہ منورہ میں ریاست کے قیام کے بعد ان پر ہجرت فرض ہوگئی تھی۔ اسی وجہ سے  قرآن کریم  نے   یہ فیصلہ سنایا ہے کہ اس قسم کے مسلمانوں کے ذمہ دار ریاست کے مسلمان نہیں ۔ وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ مسلم معاشرے کے رکن نہیں۔ ایسی حالت بسر کرنے والے مسلمانوں کے حوالے سے قرآن کریم نے جو اصول دیا ہے وہ یہ ہے کہ اگر مذہبی ابتلا کا شکار مسلمان دین کے حوالے سے مدد طلب کریں تو اسلامی ریاست کے مسلم شہریوں پر انکی مدد واجب ہوگی۔
    سورہ الانفال آیت 72میں یہ حکم دیا گیا ہے، ترجمہ دیکھیں:
    ’’وہ لوگ جو ایمان تو لے آئے مگر ہجرت کرکے دارالسلام میں نہیں گئے تو ان سے تمہاری ولایت کا کوئی تعلق نہیں جب تک کہ وہ ہجرت کرکے نہ آجائیں اور اگر وہ دین کے معاملے میں تم سے مدد مانگے تو انکی مدد کرنا تمہارا فرض ہے لیکن ایسی قوم کے خلاف نہیں جس سے تمہارا معاہدہ ہو،جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے دیکھتا ہے۔‘‘
 
مزید پڑھیں:- - - -ہجری تقویم ، امت کی شناخت کی بنیاد

شیئر: