11ستمبر 2001ءکے بعد دنیا بھر میں اسلام اور اس کے پیرو کاروں کیخلاف زبردست بنیادی تبدیلی رونما ہوئی۔ اسلام کو روا داری کے علمبردار مذہب کے طور پر نہ دیکھنے کی ہوا چل پڑی۔ 1.7ارب سے زیادہ فرزندان اسلام کے اس عقیدے کو نظر انداز کردیا گیا کہ یہ سب کے سب روا داری میں یقین رکھتے ہیں۔کرہ ارض کی چوتھائی سے زیادہ آبادی کے اس فطری حق کو لبرل نقطہ نظر سے بھی پس پشت ڈال دیا گیا۔ اس سے انکار ممکن نہیں کہ 11ستمبر کے طیارہ حملوں نے امریکہ کو ہلا کر رکھ دیا اور اسکے قومی وقار کو انتہا درجے مجروح کیا۔ طیارہ حملے اول درجے کی دہشتگردی تھے لیکن یہ بات اپنی جگہ پر شکوک و شبہات پھیلا رہی ہے کہ خود مغربی دنیا مذکورہ حملے سے لاعلم نہیں تھی اورگیارہ ستمبر2001ءکو جو کچھ ہوا اس کی بابت مغربی دنیا بے قصور نہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ اسلام فوبیا کے نام سے جھوٹ موٹ دہشتگردی کا الزام ایسے مذہب کے سر تھوپ دیا گیا جو سب سے زیادہ انسانی وقار کا علمبردار ہے اور دنیا بھر میں مو جود مذاہب میں سب سے زیادہ رواداری کی تعلیم دینے والا مذہب ہے۔ اسلام کی امن پسندی مسلمہ امر ہے۔ اسلام فوبیا کے تحت اکثر مسلمانوں کو جارحیت کا ہدف بنایا گیا۔ مغربی ثقافت اور تاریخ میں اسلام سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے یہ سب کچھ کیا جارہا ہے۔
بہت سارے مسلم معاشروں نے طیارہ حملوں کا ردعمل برداشت کیا۔ بعض نے مغربی دنیا کے نقطہ نظر کو آگے بڑھایا ۔اسلام پر جانے انجانے میں دہشتگردی کا الزام چسپاں کیا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ یہ تک کہا گیا کہ دہشتگردی کے مسئلے کا حل اسلام کی بقاءسے پوری قوت سے نمٹنے میں مضمر ہے۔ مغربی ممالک نے اپنے تمام وسائل سے ناجائز فائدہ اٹھایا۔ بین الاقوامی نظام کے اداروں کو آلہ کار کے طورپر استعمال کیا۔ بہت سارے مسلم ممالک کی خارجہ پالیسی اور داخلہ پالیسی میں تبدیلیاں لانے کیلئے عالمی اداروں سے فائدہ اٹھایا۔
بہت سارے مسلم ممالک کے یہاں اسلامی مسائل پس دیوار چلے گئے۔ قومی سلامتی تک کے معاملات نظر انداز ہونے لگے۔ دہشتگردی اور غیر ملکی غاصبانہ قبضے کے خلاف جائز مزاحمت کے درمیان فرق مٹا دیا گیا۔مسلم دنیا کے بعض مالدار ممالک مسلم معاشروں اور ممالک میں ترقیاتی مسائل سے آنکھیں موندنے لگے۔اپنے شہریوں اور فلاحی انجمنوں کو غریب اور نادار مسلمانوں کے مسائل حل کرنے میںحصہ لینے سے روکنے لگے۔ یہ سب کچھ اس تناظر میں ہورہا ہے کہ کہیں مغربی ممالک ان پر اس عنوان سے دہشتگردی کی سرپرستی کے الزام نہ عائد کردیں۔ بہت سارے غریب مسلمانوں کو اپنے عقیدے اور اپنے مذہب پر ثابت قدم رہنے کے سلسلے میں بھی تعاون پر قدغن لگادی گئی۔ اس کا محرک بھی یہی ہے کہ ایسا کرنے سے مسلم ممالک پر دہشتگردی کی اعانت کا الزام عائد ہوجائیگا۔ علاوہ ازیں مسلم اقلیتوںکے ہزاروں طلباءکو مالدار مسلم ممالک نے اپنے یہاں کے تعلیمی ادارو ںمیں عربی زبان اور اسلامی علوم سیکھنے کیلئے اسکالر شپ جاری کرنے بند کردیئے۔ اسکا باعث بھی دہشتگردی کی سرپرستی کے الزام کا خوف ہی ہے۔
اسلام کے خلاف مہم کا دائرہ یہیں تک محدود نہیں رہا۔ مسلم ممالک نے عربی زبان کی تعلیم ، نشرو اشاعت اور اسلامی دعوت سے بھی ہاتھ کھینچ لئے۔اسلام اور ااس کے پیرو کاروںکے خلاف مغربی دنیا کی گھناﺅنی مہم کا دائرہ مسلم معاشروں کے اندر تک پھیل گیا۔ لبرل ازم کے دعویداروں نے بہت سارے عرب ممالک میں دینی عقائد پر کیچڑ اچھالنے اور دینی امو رمیں دخل اندازی کی کچھ ایسی مہم شروع کردی جس سے لوگ اسلامی اخلاقیات سے دستبردار ہوں۔انہوں نے شرعی بنیادو ں والے مقامی رسم و رواج کے خلاف بھی تیشہ زنی شروع کررکھی ہے۔اختلافی مسائل کو ابھار کر مسلم معاشروں میں لڑائی جھگڑے کی بنیادیں کھڑی کی جارہی ہیں۔ دوسری جانب مغربی دنیا اسرائیل کی قومیت پرستی کے دعوے کی سرپرستی کررہی ہے۔اسرائیل کو یہودی ریاست قرار دینے پر اسکی حمایت کئے جارہی ہے۔ فلسطین میں عربوں کے خاتمے ، مسجد اقصیٰ کے انہدام اور نام نہاد ہیکل سلیمانی کے قیام کے دعوﺅں کی تائید کی جارہی ہے۔ فلسطین میں عیسائیوں کا مسئلہ حل کرنے کا چکر بھی چلایا جارہا ہے جو 2000برس سے معلق پڑا ہوا تھا۔
اسلام کے خلاف گھناﺅنی مہم اور وحشیانہ جنگ جاری ہے۔ خود مسلمان اس میں اسلام کیخلاف بے ہودہ کردارادا کررہے ہیں ۔ اس کے باوجود ہمیں یقین ہے کہ اسلام اللہ تعالیٰ کی نصرت کی بدولت ایک بار پھر سربلند ہوگا اور قرآن کریم کی حفاظت کاآسمانی وعدہ پورا ہوکر رہیگا۔