’’روح محمد ﷺ ان کے بدن سے نکال دو‘‘
جمعرات 27 ستمبر 2018 3:00
جدت اور سیکولر اقدار کے لحاظ سے مغرب کے قریب ہیں جبکہ بنیاد پرست امریکہ اور مغرب کے بارے میں مخالفانہ رویہ رکھتے ہیں
* * *اللہ بخش فریدی۔ فیصل آباد* * *
مغرب ،امریکہ و یورپ اسلام اور مسلمانوں کو کس شکل میں ڈھالنے کے خواہاں ہیں اور کن کن ذرائع ، پالیسیوں اور سوچ کے ذریعہ سے اپنے من پسند اسلام کا فروغ چاہتے ہیں، وہ آپ ان کے عطا کردہ جمہوریت کے زریں اصولوں اور قواعد و ضوابط سے دیکھ سکتے ہیں، ذیل میں جن کا ذکر کرنے جا رہے ہیں۔ان کا بنیادی مقصد اسلام کی اصلیت اور مسلم جنون کو بدل کر یا کمزور کرکے امریکہ کے ورلڈ آرڈر اور مغربی تہذیبوں کو اسلامی ممالک پر لاگو کیا جا سکے۔
رینڈ کارپوریشن (Rand Corporation)امریکہ کا ایک اہم ترین تھنک ٹینک یعنی مفکر اور غیر منافع بخش ادارہ ہے جو اپنے آپ کو پوری دنیا کا ایڈوائزر اور خیرخواہ سمجھتا ہے۔یہ دنیا کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے مقصد کا تجزیہ، مؤثر حل اور گائیڈ لائن دیتا ہے ۔ یہ ادارہ امریکی حکومت کے لیے پالیسیاں مرتب کرتااور لائحہ عمل تشکیل دیتا ہے۔
رینڈ کارپوریشن کی نیشنل سیکیورٹی ریسرچ ڈویژن نے ’’سول ڈیموکریٹ اسلام، شراکت داری، وسائل اورمؤثر حکمت عملی ‘‘ (Civil Democratic Islam, Partners, Resources and Strategies) ‘‘ کے عنوان سے 88صفحات پر مشتمل ایک پالیسی اور لائحہ کار تیار کر کے امریکی اور یورپی حکومتوں کوٹاسک دیا۔ اس میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ امریکہ اور ماڈرن انڈسٹریل ورلڈ کو ایسی اسلامی دنیا کی ضرورت ہے جو مغربی اصولوں اور رولز کے مطابق چلے ۔ مسلمانوں میں ایسے افراد اور طبقہ کی مدد اور پشت پناہی کی جائے جو مغربی تہذیب کے دلداہ اور جدیدیت اور ماڈرنزم پر یقین رکھنے والے ہوںاور مغرب کی طرز کا کھلا معاشرہ چاہتے ہوں۔ ایسے افراد کو ڈھونڈا کیسے جائے یہ وہ سوال تھا جس پر رینڈ کارپوریشن نے مسلمانوں کو 4 قسموں میں تقسیم کیا۔
٭ پہلی قسم بنیاد پرست (Fundamentalists):ان کے بارے تھنک ٹینک لکھتا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو مغربی جمہوریت اور موجودہ مغربی اقدار اور تہذیب کو ماننے کی بجائے اسلامی قوانین اور اسلامی اقدارکے نفاذ کے خواہاں ہیں۔ مزید لکھتا ہے کہ بنیاد پرست مغرب کے اور خاص طور پر ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے دشمن ہیں اور ان کے بارے میں مغرب کو نہایت سنجیدگی کے ساتھ غور و فکر کرنا ہو گی۔
٭ دوسری قسم قدامت پسند(Traditionalists): یہ مسلمانوں کی وہ قسم ہے جو قدامت پسند اور مغرب کی طرز کا کھلا معاشرہ چاہتے ہیں اور ایسے لوگ جدیدیت اور تبدیلی کے بارے میں مشکوک رہتے ہیں۔
٭ تیسری قسم جدت پسند (Modernists) :یہ وہ طبقہ ہے جو بین الاقوامی جدیدیت (Global Modernity) کا حصہ بننا چاہتے ہیں اور اس سلسلہ میں اسلام کو بھی جدید بنانے اور جدید دور کے مطابق ہم آہنگ کرنے کی اصلاحات کے قائل ہیں۔
٭ چوتھی قسم سیکولر و لبرل مسلمان (Secularists, Liberalists) : رینڈ کارپوریشن لکھتا ہے کہ یہ ایسا طبقہ ہے جو اسلامی دنیا سے توقع رکھتا ہے کہ وہ بھی مغرب کی طرح دین کو ریاست سے الگ کردیں۔ یہ آزاد خیال، روشن خیال اور اعتدال پسند طبقہ جو ہر طرح سے مغرب کے کام آ سکتا ہے اور امریکہ و مغرب کو ان کی کھلی حمایت جاری رکھنی چاہیے۔ سیکولر اور لبرل کیا ہے؟ آگے اس کی واضح تشریح موجود ہے ۔
امریکی تھنک ٹینک لکھتا ہے: جدت اور سیکولر اقدار کے لحاظ سے مغرب کے قریب ہیں جبکہ بنیاد پرست امریکہ اور مغرب کے بارے میں مخالفانہ رویہ رکھتے ہیں اور ممکن ہے دہشتگردی کی بھی حمایت کرتے ہوں۔ اس تھنک ٹینک نے امریکی و مغربی حکمرانوںکو تجویز دی کہ بنیاد پرستوں کی حمایت کوئی آپشن نہیں ، قدامت پسند مسلمان اگرچہ روشن خیال و اعتدال پسند ہوتے ہیں لیکن ان میں بہت سے لوگ بنیاد پرستوںکے قریب اور ان سے دلی لگاؤ رکھتے ہیں اور اعتدال پسندوں میں یہ خرابی ہے کہ وہ دل سے جدت پسند ی کے کلچر اور مغربی ویلوز کو تسلیم نہیں کرتے ۔ جدت پسند اور سیکولر و لبرل مسلمانوں کے بارے میں تھنک ٹینک کا کہنا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو مغربی اقدار اور پالیسیوں کے قریب ترین ہیں۔ ان کی زیادہ سے زیادہ حمایت اور پشت پناہی کرنی چاہیے تاکہ یہ مقاصد کے حصول میں معاون و مددگار ثابت ہوں۔
اس پالیسی میکر نے امریکہ و یورپ کو یہ تجویز دی کہ قدامت اور جدت پسندوں کو بنیاد پرستوں کیخلاف سپورٹ کریں ، ان دونوں طبقوں کے درمیان اختلافات کو ہوا دیں، پوری کوشش کریں کہ قدامت و جدت پسند اور بنیاد پرست مسلمان آپس میں اتحاد قائم نہ کر سکیں اور نہ آپس میں تعاون کو فروغ دے سکیں۔ بنیاد پرستوں کو اکیلااور بے یارو مددگار کرنے کی پوری کوشش کی جائے کہ ان کی کوئی نہ سنے اور نہ کوئی ان کے کہے پر کان دھرے۔جہاں تک ہو سکے قدامت و اعتدال پسندوں کی تربیت کی جائے تاکہ وہ بنیاد پرستوں کے مقابلہ میں بہتر مکالمہ کر سکیں تاکہ وہ بنیاد پرستوں کی اسلام کے متعلق سوچ کو چیلنج کریں۔ بنیاد پرست طبقوں کا غیر قانونی گروہوں اور کالعدم تنظیموں کے ساتھ تعلق اور دہشتگردوں کے ساتھ روابط کو جوڑا جائے اور اس طرح کے واقعات عوام کے سامنے لائے جائیں اور عوام کو بتائیں کہ بنیاد پرست نہ تو حکمرانی کر سکتے اور نہ قوم کی ترقی دلوا سکتے تاکہ ان میں بنیاد پرستوں کے خلاف نفرت ابھرے، بنیاد پرستوں کے آپس کے اختلافات کی حوصلہ افزائی کریں اور ان کو مزید بھڑکانے اور ہوا دینے کی ترغیب دیں تاکہ بنیاد پرست کبھی آپس میں بھی اتحاد نہ کر سکیں۔
اس رینڈ پالیسی نے امریکہ و یورپ کو تجویز دی کہ بنیاد پرستوں کو دنیا کے مشترکہ دشمن کے طور پر لیا جائے اور رائے عامہ یعنی جمہوریت اور سیکولرازم کی بھرپور حمایت کی جائے اور ان کے ذریعے ریاست کو مذہب سے جدا کیا جائے اور اسے اسلامی طور پر صحیح ثابت کیا جائے اور مسلمانوں کو فریب دیا جائے کہ اسلام کو ریاست سے جدا کرنے سے ان کا ایمان خطرے میں نہیں پڑے گابلکہ مزید مستحکم ہو گا۔ جب نجی سطح پر ہر ایک کو عقائد کی آزادی حاصل ہو گی توہر ایک طبقہ اپنے اپنے مذہب اور عقائد پر پختہ ہوگا۔ اگر تم ملکی سطح پرکوئی عقیدہ یا قانون بناؤ گے تو وہ ایک ہی سب کے لیے یکساں بنے گا اور سب کو اس کے تا بع رہنا پڑے گا۔ سب مکاتب فکر کیلئے الگ الگ ملکی قانون تو نہیں بن سکتا نا؟ اس لیے بہتر یہی ہے کہ تم سب کو الگ الگ فرقوں میں مذہبی آزادی مل رہی ہے تو تمہیں اس پر خوش ہونا چاہیے۔
استغفر اللہ! کیسی خیر خواہی، کیسی سوچ اور کیسی پالیسی مسلمانوں کے باہمی انتشار کو برقرار رکھنے کی تاکہ یہ کبھی آپس میں اتحاد و تعاون ہی نہ کر سکیں،کبھی دین میں ایک نہ ہوں، سب الگ الگ کھونٹوں میں بندھے اپنے اپنے دائروں میں گھومتے رہیں اور ایک دوسرے کے خلاف صف آراء رہیں اور کبھی ان میں اجتماعیت کی سوچ بھی دوام حاصل نہ کرسکے اور کبھی ایک مرکز پر یکجا نہ ہوں۔
اللہ کریم کا حکم اور دین کی منشاء یہ ہے کہ وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَلَا تَفَرَّقُوْا کہ سب کے سب مل کر اللہ کے دین کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔اگر ہم اپنے رب کے حکم اور اپنے رسول اور اپنے دین کی منشاء کے برخلاف امریکی و مغربی ایماء اور پالیسی پر عمل پیرا ہیں تو ہم مسلمان تو نہ ہوئے ، اپنے رب اور اپنے رسول کے تابع تو نہ ہوئے بلکہ امریکہ اور مغرب کے تابع اور ایجنٹ ہوئے۔
ہمارا باہمی انتشار اور تفرقہ ثابت کرتا ہے کہ ہم کس خدا کے احکامات کے نافرمان اور کس خدا کی پالیسی اور سوچ کے تابع اور اس کے کھیل کے مہرے اور ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں؟مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور… آج کے مسلمانوں کا حرم واشنگٹن اور خدا …؟
بادہ آشام نئے ، بادہ نیا ، خم بھی نئے
حرمِ کعبہ نیا ، بت بھی نئے ، تم بھی نئے
رینڈ پالیسی رپورٹ نے اسلامی دنیا میں مغربی جمہوریت ، مغربی تہذیب ، جدت پسندی اور امریکی ورلڈ آرڈر کے نفاذ کیلئے کئی تجاویز دیں اور کہا کہ امریکہ اور مغرب کو بڑی احتیاط کے ساتھ یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ اسلامی ممالک اور معاشروں میں کن افراد اور کیسی قوتوں اور کیسے رجحانات کو مضبوط بنانے میں مدد دینی چاہیے اور زیادہ سے زیادہ جمہوریت کی جانب اسلامی دنیا میں مثبت تبدیلی کی حوصلہ افزائی کریں اور جہاں تک ہو سکے اسلامی ممالک کے اندر فوج کو مضبوط کرنے کے ارادے اور سوچ کو تقویت نہ پکڑنے دیںتاکہ مقررہ اہداف آسانی سے حاصل کیے جا سکیں۔
امریکی تھنک ٹینک نے اپنے مقررہ اہداف کے حصول کیلئے امریکہ و یورپ کو لائحہ عمل دیا کہ وہ جدت پسندوں، روشن خیال، سیکولر و لبرل طبقہ کی حمایت کریں اور اس طبقہ کے کام کی اشاعت اور ڈسٹری بیوشن میں مالی مدد کریں۔ ان کی حوصلہ افزائی کریں اور اس طبقہ کے لکھاریوں اور ادیبوں کو عوام الناس اور نوجوانوں کیلئے لکھنے کی ترغیب دیں ۔ جدت پسند نصاب کو اسلامی تعلیمی نظام میں شامل کروائیں اور بنیاد پرستی اور اسلامی عقیدۂ جہاد کا تصور ان کے تعلیمی نصاب سے یکسر نکلوائیں ۔ بنیاد پرست طبقہ کی اسلامی بنیاد پرستی پر مبنی کتب پر مکمل پابندی عائد کروائیں ( اور یہ مجوزہ پابندی اس وقت اسلامی جمہوریہ پاکستان میں موجود ہے)۔ بنیاد پرستوں کو زیادہ سے زیادہ کمزور رکھا جائے اور ان کو ترقی و خوشحالی کے مواقع میسر نہ آنے دئیے جائیں۔ بنیاد پرست اور قدامت پرست مسلمانوں کے برعکس جدت پسندوں اور سیکولر طبقات کی اسلامی معاملات پر تشریحات ، رائے اور فیصلوں کو میڈیا ، انٹرنیٹ، اسکولوں ، کالجوں اور دوسرے ذرائع سے عام کریں۔ سیکولر ازم ، لبرل ازم اور جدت پسندی کو مسلمانوں کے نوجوانوں کے سامنے متبادل کلچر کے طور پر پیش کریں۔ مسلمان نوجوانوں کو اسلام کے علاوہ دوسرے کلچرز کی تاریخ پڑھائیں تاکہ مسلمانوں کی نئی نسل اسلام سے پوری بیزار اور ناآشنا ہو۔
یہ فاقہ کش موت سے ڈرتے نہیں ذرا
روح محمد ان کے بدن سے نکال دو
ڈاکٹر اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے انداز میں مغرب کے ان خطرناک مقاصد کی نشاہدہی فرمائی تھی کہ وہ کیا چاہتا ہے اور اس کی حکمت عملی کیا ہے مگر کسی نے اس پر کان نہیں دھرا اور عام شاعری کی طرح خیالی بات سمجھا۔ مغرب آج بھی اسی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے اور جمہوریت اسی سوچ اور اسی حکمت عملی کو پروان چڑھانے کا تسلسل ہے ۔