ہمیں درندوں سے بچالو،حوا کی بیٹی کی فریاد
کیا انہیں کوئی روکنے والا نہیں، میڈیا پر نہیں آسکتی لیکن یہ ضرور چاہتی ہوں کہ اس کہانی کے ذریعے والدین ہوشیار ہوجائیں اور اپنی بچیوں کا خیال رکھیں
مصطفی حبیب صدیقی
میں اس کی آواز سنتے ہی سمجھ گیا تھا کہ یہ کہانی کسی اور کی نہیں اس کی ہی ہے مگر اس کا کہنا تھا کہ یہ اس کی دو سہلیوں کے ساتھ بیتی ہے ۔اس لڑکی کا فون پنجاب کے ایک شہر سے آیا تھا ،کہنے لگی مجھے آپ کی مدد چاہیے ،میں نے ایک صحافی ہونے کے ناتے مدد کا وعدہ کرلیا ،اس نے مجھ پر اعتماد کرتے ہوئے جو کہانی سنائی وہ رونگٹے کھڑے کردینے والی ہے۔ اگر سچائی ہے تو تحقیقات ضروری ہیں۔ تین دن تک بات کرنے کے بعد اس نے آخر میر ے شک کو یقین میں بدل دیا کہ وہی ان واقعات کی ایک متاثرہ ہے۔ کہانی اسی کی زبانی سنیں۔
میں پنجاب کے ایک شہر کے نواحی علاقے کے گائوں میں رہتی ہوں ،یہاں کے ہرے بھرے کھیت اور کھلیان فضاء کو مہکاتے رہتے ہیں اور اسی خوشگوار فضاء کا اثر ہے کہ یہاں کے لوگ بھی بہت ملنسار اور خوش مزاج ہیںمگر یہاں کچھ عرصے سے چند نوجوانوںنے کم عمر لڑکیوںکی زندگیاں تباہ کرنے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے ،سب خوفزدہ ہیں مگر میں نے فیصلہ کیا ہے کہ آواز اٹھائونگی ،میں پڑھی لکھی ہوں ،بی ایس سی سائیکالوجی سال دوئم کی طالبہ ہوں میں کیسے خاموش رہوں۔
میری بچپن کی دوست ہے ،بہت ہی پیاری اور چلبلی لڑکی ہوا کرتی تھی،سب کو ہنسانا اور ہنسنا ہی اس کا کام تھا ۔اسے کیا معلوم تھا کہ اس کی زندگی میں ایسا داغ لگ جائے گا۔ہم یہاں کے ایک مقامی کالج میں زیرتعلیم تھیں ،ایک روز میری دوست کالج سے گھر آنے کیلئے وین کی جانب آرہی تھی کہ ا سے 4 نوجوانوں نے روک لیا۔وہ خوفزدہ ہوگئی تاہم اسے نوجوانوںکی معمول کی گھٹیا حرکت ہی سمجھ کر انہیں جھڑک دیا مگر وہ لوگ کچھ اور ہی تھے۔ انہوںنے اسے اپنے جال میں پھنسا لیا ۔انہوںنے پہلے دھمکی دی اور پھر زبردستی دوستی کرلی۔سدرہ ان کی باتوں میں آچکی تھی اور پھر ایک دن وہ اسے ہوٹل لے گئے کھانا کھلانے کے بہانے ،کھانے میں کوئی نشہ آور گولیاں ملادیں جس سے وہ خود پر قابو نہ رکھ سکی اور پھر چاروں نے اس کے ساتھ زیادتی کی۔ سدرہ جب ہوش میں آئی تو اس کی زندگی تباہ ہوچکی تھی ۔
وہ گھر آتی ہے اور کسی کو کچھ نہیں بتاتی ،خوف کا شکار رہتی ہے ۔ان لڑکوںنے اسے دھمکی دی کہ اگر تم ہم سے رابطے میں نہ رہی تو ہم تمہارے والدین اور رشتے داروں کو بتادیں گے کہ تمہارے ساتھ کیا ہوا ہے ۔وہ نہایت خوفزدہ رہنے لگی۔وہ میری بچپن کی دوست تھی ہر بات مجھ سے شیئر کرتی تھی یہ بات بھی اس نے بتائی مگر ماں باپ کے ڈر سے ہم خاموش رہے۔ان لڑکوںنے اس کے ساتھ تین مرتبہ زیادتی کی۔ وہ خود سے نفرت کرنے لگی ،وہ خود کو تباہ سمجھنے لگی تھی اسے ہر لمحے یہی ڈر تھا کہ اس پر بیتنے والا یہ ظلم اس کے گھروالوں یا رشتے داروں کو پتہ چل گیا تو وہ کہیں کی نہیں رہے گی۔
ایک دن وہ کالج گئی تو اسے کالج میں دو لڑکے اغو ا کرلیتے ہیں ،اس دوران کالج کے سامنے موجود کچھ لڑکے بچانے کی کوشش کرتے ہیں مگر وہ ناکام رہتے ہیں ۔ وہ ایک مرتبہ پھر ظلم کا شکار بنتی ہے۔ اس کا قصور یہ تھا کہ وہ اپنے گھروالوں سے بھی ڈرتی تھی کہ وہ اسے گھر بٹھادیں گے اور تعلیم ادھوری رہ جائے گی ،ان لڑکوں نے اسے کالج میں بدنام کردیا تھا وہ جب پھر کالج گئی تو دیگر ساتھیوںنے اس پر الزامات لگاتے ہوئے بات چیت بند کردی ۔ اس نے کالج جانا چھوڑ دیا ،گھروالوں نے بھی ایک جگہ اسے بند کردیا مگر اس نے ہمت نہیں ہاری اور تعلیم جاری رکھی اور اعلیٰ نمبرز حاصل کئے۔اب وہ گھر میں قید ہے۔
ابھی میں اپنی دوست کے اوپر بیتنے والے ظلم سے باہر نہیں نکلی تھی کہ میں بھی لٹ گئی ۔اس میں کہاں تک میری غلطی ہے اس کا فیصلہ آپ ہی کرلیں۔مجھے بھی میرے محلے میں رہنے والے انہی لڑکوں نے ورغلایا۔وہ میرا پیچھا کرتے ۔ان میں سے ایک لڑکے نے مجھے اپنی محبت کے جال میں پھنسایا ۔وہ میرے حسن کی تعریف کرتا ۔میں اس کی باتوںمیں پھنس چکی تھی ۔خود کو کسی ہیروئن سے کم نہیں سمجھ رہی تھی ۔وہ ایک دن مجھے جوس کارنر لے گیا ،جہاں پہلے سے ایک خفیہ کمرہ تھا وہاں وہی چاروں لڑکے تھے جنہوںنے مل کر میرے ساتھ بھی وہی کیا جو میری دوست کے ساتھ کرچکے تھے۔ساتھ ہی دھمکی دی کہ اگر کسی سے ذکر کیا تو پورے علاقے میں بدنام کردینگے۔میری دوست اس حادثے کے بعد بالکل ڈر گئی اور سہمی رہنے لگی تھی مگر میں ہمت کرکے ان لڑکوں کا مقابلہ کرنا چاہتی تھی۔اسی دوران ہمیں معلوم ہوا کہ ایک اور لڑکی بھی ان درندوں کے ہاتھوں لٹ چکی ہے۔ان ہی لڑکوں کے ساتھ ملے ہوئے ایک اور لڑکے نے ایک دن میرے دوست کو بہلایا کہ میں تمہیں پسند کرتا ہوں ایسا کام نہیں کرونگا اور تمہارا بدلا لونگا ۔دوست بہت ڈری ہوئی تھی گھر والوں کو کچھ بتانے سے قاصر تھی اس لڑکے پر اعتماد کرلیا کہ وہ ان سے بدلہ لیگا مگر وہ بھی انہی کا ساتھی نکلا ۔
میری دوست کا کہنا ہے کہ وہ لڑکا اسے ایک دن پھر سے جوس کارنر لے گیا اور پھر وہ چاروں لڑکے آگئے جنہوںنے مل کر اس کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی۔یہ واقعات گزشتہ 6ماہ کے اندر کے ہیں۔ان کے لڑکوں کے نام میں جانتی ہوں۔یہ ایک ہی گروپ ہے جو لڑکیوں کو تباہ کررہا ہے۔ابھی ہم دنوں اپنے اوپر بیتنے والے ظلم سے نہیں نکل سکے تھے کہ ایک دن معلوم ہوا کہ ایک اور ہمارے محلے کی لڑکی جو اسی کالج میں پڑھتی ہے جس میں ہم دونوں ہیں اس کے ساتھ بھی یہی ہوچکا ہے۔یہ لڑکے اوباش قسم کے ہیں۔میں ان کے نام جانتی ہوں اور سامنے آنے پر پہچان بھی سکتی ہوں مگر مجھے خوف ہے کہ اگر میں سامنے آئی تو وہ لوگ مجھے مار دینگے۔میری چار بہنیں اور ایک بھائی ہے مجھے اپنی بہنوں کی عزت کی بھی فکر ہے۔میری امی مجھ پر بہت اعتماد کرتی ہیں اس لئے ہر جگہ تنہا جانے دیتی ہیں مگر وہ لڑکے ہمیں کہتے ہیں کہ ہم تمہارے گھر والوں اور محلے داروں کو تمہارے اوپر ہونے والے تمام واقعات سے آگاہ کردینگے جس کے بعد تم دنیا میں منہ دکھانے لائق نہیں رہوگی اس لئے چپ چاپ جو ہم کہتے ہیں وہ کرتے رہو۔
میں نے ہمت کی ہے اور آپ سے رابطہ کیا ہے میری دونوں دوست بہت خوفزدہ ہیں۔ انہوںنے میری ایک دوست کو تو اس کے کالج میں بدنام بھی کردیا ہے ۔میرا سوال ہے کہ ان لوگوںکو روکنے والا کوئی نہیں،میں مجبور ہوں ،میں میڈیا پر نہیں آسکتی لیکن یہ ضرور چاہتی ہوں کہ اس کہانی کے ذریعے والدین ہوشیار ہوجائیں اور اپنی بچیوں کو خیال رکھیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭