Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

والددم توڑگئے، بیٹے کی چھٹیاں رائگاں ہونے سے بچ گئیں

عنبرین فیض احمد۔ ینبع
اباجی بے ہوشی کے عالم میں صداقت کا نام بار بار لے رہے تھے۔ آخر کس طرح اس کو یہ اطلاع دی جائے کہ اباجی کی اتنی طبیعت خراب ہے۔ سات سمندر پار سے ہزاروں روپے خرچ کرکے بیٹا دوبارہ آئے گا لیکن یہ خبر بیٹے کو بتائے بنابھی نہیں رہا جاسکتا تھا۔ ابھی 6 ماہ پہلے ہی کی تو بات ہے کہ اباجی کی حرکت قلب بند ہوتے ہوتے رہ گئی تھی۔ ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تھا، گھر میں تو کہرام مچ گیا تھا۔ گھر والوں نے اکلوتے بیٹے کو بھی خبر دے دی تھی کہ باپ کا چہرہ دیکھنا چاہتے ہو تو فوراً آجاﺅ۔ تمہارے باپ کی حالت بہت نازک ہے۔ بیٹا چھٹی لے کر فوراً آگیا ۔ آکر دیکھا تو گھر والوں کے بیانات کو غلط پایا۔ اباجی کی حالت بہتر ہوچلی تھی۔ ڈاکٹروں کی مایوس کن باتیں بھی غلط ثابت ہوئیں۔ 
بیٹے کے پہنچتے ہی اباجی ایسے ہوگئے جیسے انہیں کچھ ہوا ہی نہ ہو یا شاید بیٹے کی قسمت میں باپ کا چہرہ دیکھنا لکھا تھا۔ پتہ نہیں قدرت کو کیا منظور تھا۔ بیٹے کو گھر والوں پر بہت غصہ آیا کہ واپس جاتے وقت سب کو کافی باتیں سنا ڈالیں۔ اس کا کہنا تھا کہ جب بات سنجیدہ نوعیت کی تھی ہی نہیں تو مجھے بلانے کی کیا ضرور ت تھی۔ بغیر تنخواہ کے چھٹی لے کر آیا ہوں، پھر آنے جانے کے چکر میں جو پیسے ضائع ہوئے وہ الگ۔ گھر والوں کے لئے تحائف کی خریداری پر جو پیسے خرچ کئے ، ان کا کوئی حساب نہیں۔ اس سے تو بہتر تھا کہ یہ پیسے بھیج دیتا تو اباجی کا اچھی طرح علاج ہی ہوجاتا۔ یوں میرے محنت کے پیسے برباد تو نہ ہوتے۔ جس پر گھر والوں نے خون سفید ہونے کا طعنہ دے کر چپ کرا دیالیکن........
بہو سے چپ نہ رہا گیا، آخر وہ بھی کہہ اٹھی کہ اب اباجی کی ضعیفی ہے اور سب سے بڑھ کر زندگی کی 80 بہاریں تو دیکھ ہی چکے ہیں۔ ہر تھوڑے عرصے کے بعد سانس بند ہونے لگ جاتی ہے۔ بیٹے اور بہو کی کڑوی کسیلی باتیں سن کر اماں بی مسکرائیں اور کہا کہ یہ قدرت کے فیصلے ہیں۔ اس میں ہمارا، تمہارا کوئی عمل دخل نہیں۔
دوسری بار جب اباجی کی طبیعت بگڑی تو عزیز و اقارب نے کہا کہ بیٹے کو بتا دینا چاہئے کیونکہ اکلوتا بیٹا ہے ، اس موقع پر اس کا ہونا ضروری ہے۔ اباجی کا بہت لاڈلا بھی ہے چنانچہ کافی سوچ بچار کے بعد ایک مرتبہ پھر بیٹے کو اطلاع دی گئی کہ اباجی کا چہرہ ہی دیکھنے آجا¶، حالت کافی نازک ہے۔ امید کی کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی۔ اطلاع ملنے پر بیٹا بڑی مشکل سے 15دن کی چھٹی پر آیا تھا، وہ بھی تنخواہ کے بغیر۔ ڈاکٹر بظاہر تو یہی کہتے تھے کہ جلد صحت یاب ہوجائیں گے حالانکہ بچنے کی امید کم ہی تھی۔
صداقت کی چھٹیاں بھی ختم ہونے کو تھیں۔ آخری دو دن رہ گئے تھے کہ اچانک اباجی کی سانسیں اکھڑنے لگیں۔ فوراً ڈاکٹر کو بلایا ، اس نے آتے ہی انجکشن لگایا اور حسب سابق جھوٹی تسلی بھی دی کہ آپ لوگ پریشان نہ ہوں۔ اللہ کریم نے چاہا تو طبیعت سنبھل جائے گی۔ دل چھوٹا نہ کریں، اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھیں۔ 
ڈاکٹر کی بات سن کر بیٹا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا اور بڑے دلگداز انداز میں کہنے لگا کہ ڈاکٹر صاحب نہ جانے میرے نصیب میں کیا لکھا ہے ، چھٹیاں ختم ہورہی ہیں ، آخری دن آن پہنچا ہے۔ پرسوں واپسی ہے۔ نوکری کا معاملہ ہے ،زیادہ دن ٹھہر نہیں سکتا ۔ مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میری قسمت میں اباجی کا چہرہ دیکھنا نہیں لکھا۔ میرے جاتے ہی اباجی کو کچھ ہوگیا تو ہمیشہ مجھے حسرت ہی رہے گی کہ مرتے دم اباجی کا چہرہ نہ دیکھ سکا۔ 
ڈاکٹر کو صداقت کی بات سن کر بڑا تعجب ہوا کہ بیٹا ہوکر کیسی باتیں کررہا ہے ۔ اس کی خودغرضی پر افسوس بھی ہوا اور دکھ بھی لیکن بیٹے کا دل رکھنے کیلئے کہا کہ اللہ کریم سے دعا کریں ، وہی آپ لوگوں کی مشکل آسان فرمائے گا۔ بڑے کرب میں مبتلا ہیں آپ کے والد صاحب۔ اسی دوران گھر والے ڈاکٹر کے پاس دوڑے آئے کہ جلدی چلئے ، دیکھیں اباجی کو کیا ہورہا ہے ۔آنکھیں نہیں کھول رہے ،نہ ہی کسی بات کا جواب دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر نے آکر دیکھا ، چیک کیا تو نبض ڈوب چکی تھی اور آنکھیں ٹھہر گئی تھیں۔ 
ڈاکٹر نے چادر سے صداقت کے والد کے چہرے کو ڈھانپ دیا اور مایوسی کے عالم میں وہاں موجود افراد سے کہا کہ اب یہ دنیا میں نہیں رہے۔ بیٹے کی دلی تمنا پوری ہوچکی تھی۔ چھٹیاں رائگاں ہونے سے بچ گئیں۔ چند ہزار روپے ڈوبنے نہیں پائے۔ بیٹا ،اباجی کے چہرے کو پرنم آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ ڈاکٹر علیحدہ سوچنے پر مجبور تھا کہ مادہ پروری کا دور ہے۔ لوگ اپنے والدین کی محبت کو بھی پیسے سے تولنے لگے ہیں۔ بیٹا، اپنے اباجی کا آخری دیدار کرنے ہی تو آیا تھا ، سومردہ باپ کا چہرہ دیکھنے کی اس کی خواہش پوری ہوگئی۔ 
 
 

شیئر: