فلموں کی لت نے اچھے بھلے شخص کو کیا بنادیا
وقت گزرتا گیا ،میں خود دروازے پر کھڑا ہوکر شاہد پر نظر رکھنے لگا ،کچھ دنوں میں خاتون کی سچائی عیاں ہوچکی تھی
مصطفی حبیب صدیقی
میں سمجھ ہی نہیں پارہاتھا کہ میں کیا کروں جب ایک عورت نے بتایا کہ محلے کا فلاں شخص صبح سویرے فلیٹ کے دروازے پر مجھے گھورتا رہتا ہے۔وجہ یہ نہیں تھی کہ یہ کوئی انوکھا کام تھا بلکہ مسئلہ یہ تھا کہ جس شخص کے بارے میں بتایاجارہا تھا وہ کوئی ’’للوپنجو‘‘ نہیں تھا بلکہ محلے کا باعزت گھرانے کا ایک بہترین بظاہرسلجھا ہوا شخص تھا۔ شاہدتھا نام اس کا۔دو بچیوں اور ایک بیٹے کا باپ ہونے کے باوجو د ایسی گھٹیا حرکت کرے گا سوچنا بھی محال تھا۔
میں نے کہا کہ محترمہ آپ کو غلط فہمی ہوگئی ہوگی ہوسکتا ہے جو آپ سوچ رہی ہوں ایسا نہ ہو۔مگر ان کا اصرارتھا کہ آپ فلیٹ کی یونین میں بھی ہوتے ہیں اس لئے آپ سے بتارہی ہوں ورنہ میں تو کسی سے کہہ بھی نہیں سکتی،میرے شوہر ملک سے باہر ہیں،چھوٹے بچے ہیں ،مجھے تو خوف ہے کہ لوگ مجھ پر ہی انگلی اٹھائیں گے۔حقیقت تو یہ ہے کہ مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں آپ بھی مجھے ہی غلط نہ سمجھ رہے ہیں۔میں نے انہیں یقین دلایا کہ میں انہیں اچھی خاتون سمجھتا ہوں اور اس معاملے کی تحقیق کرونگا۔
وقت گزرتا گیا ،میں خود دروازے پر کھڑا ہوکر شاہد پر نظر رکھنے لگا ،کچھ ہی دنوں میں ان خاتون کی سچائی عیاں ہوچکی تھی۔کافی عرصے سے اس تلاش میں تھا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ یہ شخص اپنی بیوی ہونے کے باوجود ایسی حرکتیں کررہا ہے۔ شاہد بہت ہی خوبصورت اور اسمارٹ لڑکا ہے ،مگر اس کی بیوی بھی کم حسین نہیں ہے پھر کیا وجہ ہے کہ شاہد شادی شدہ عورتوں پر نظر رکھتا ہے۔
میں نے شاہد کو مختلف انداز میں سمجھانے کی کوشش کی تھی براہ راست بات نہیں کرسکا تھا خیال تھا کہ خود ہی سمجھ جائے تو بہتر ہے ،شرمندہ نہ ہو مگر ایسا شاید اس کی قسمت میں نہیں تھا۔گزشتہ روز اس نے تمام حدیں پار کردیں۔
محلے کی ایک خاتون جو نجی یونیورسٹی میں لیکچرار رہی ہیں اور ان کے شوہر بھی لیکچرار ہیں ،اپنے بچوں کو روز اسکول چھوڑنے جاتی اور لے کر بھی آتی تھیں، شاہد نے نجانے کب سے ان کا پیچھا شروع کردیا ،وہ جہاں جاتیں وہ پہنچ جاتا۔وہ خاتون پریشان تھیں مگر ابھی تک اپنے شوہر کونہیں بتایاتھا کہ محلے میں جھگڑا ہوگا۔بات یہاں تک رہتی تو شاید پھر بھی وہ خاتون کسی طرح حل کرلیتیں مگر افسوس شاہدنے ایک روز ان کے گھر کے باہر اپنے فون نمبر کی چٹ لگادی اور جب وہ مرکزی دروازے سے گزرنے لگیں تو انہیں آہستہ سے کہا کہ دروازے پر میرا نمبر لگا ہے۔
اب خاتون کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا تھا ،انہوںنے فوری اپنے شوہر کو فون کیااور سب کچھ بتادیا۔خاتون کے شوہر نے ہم سے یعنی یونین سے رابطہ کیا اور پھر رات گئے جب شاہد واپس فلیٹ آیا تو اسے روک لیاگیا۔نہایت افسوس ناک صورتحال تھی جب میں دیکھ رہا تھا کہ ایک پڑھا لکھا اور باادب شخص شاہد کو گالیاں دے رہا ہے۔اس شخص کی بڑائی تھی کہ اتنے بڑے واقعے کے باوجود اس نے ہماری درخواست پر ہاتھ نہیں اٹھایا۔وہ مسلسل شاہد کی بیوی کو اپنی بہن اور بچیوں کو اپنی بچی کہتا رہا۔عموماً یہی ہوتا ہے کہ اگر آپ کسی کی بہن یا بیوی کو تنگ کریں تو جواب میں وہ بھی آپ کی بہن بیٹی کو گالی دیتا ہے مگر وہ پڑھا لکھا شخص تھا ،تربیت تھی،خاندان تھا وہ مسلسل یہی کہتا رہا کہ تمہاری بیوی بھی میری بہن ہے۔ شاہد التجائیں کرنے لگا،رونے لگا،گڑگڑا رہا تھا ،وہ شاہد جو اکڑ کر چلتا تھا پیر پکڑنے کیلئے تیارتھا کیونکہ اگر یہ بات اس کی بیوی تک پہنچ جاتی تو معاملہ کہیں کا نہیں رہتا۔ہم نے شاہد سے ایک کاغذ پر معافی نامہ لکھوایا اور وعدہ لیا کہ وہ آئندہ ایسی کوئی حرکت نہیں کریگا ۔یہ تو کہانی کی ایک حصہ ہے دوسرا حصہ اب شروع ہوتا ہے۔
شاہد سے اکیلے میں پوچھا کہ آخر کیاوجہ ہے کہ وہ اپنی بیوی اور وہ بھی خوبصورت بیوی ہونے کے باوجود دوسری عورتوں پر نظر رکھتا ہے۔وہ کہتا رہا کہ بس عادت ہوگئی ہے نجانے کیا مسئلہ ہے۔پھر میں نے سوال کیا کہ چلو اپنا روٹین بتائو جو گزشتہ کم ازکم5سال سے ہے۔ شاہد کہنے لگا کہ صبح دفتر جاتا ہوں،شام میں اپنی اسٹیٹ ایجنسی چلاتا ہوں رات دیر سے گھر پہنچتا ہوں ۔جب گھر پہنچتا ہوں تو تھکن سے چور ہوچکا ہوتا ہے۔پورے ہفتے میں ایک ہی دن اتوار کو اپنی بیوی بچوں سے ملتا ہوں وہ بھی اتوار کا آدھا دن اسٹیٹ ایجنسی میں چلا جاتا ہے۔میرا تجسس برقرار تھا ،میں نے پھر پوچھا اور کوئی عادت ۔شاہد چھپانا چاہ رہا تھا مگر میں چاہتا تھا کہ وہ اپنا مسئلہ کھل کر بتائے کیا وجہ ہے کہ وہ دوسری عورتوں پر نظر رکھتا ہے جبکہ بظاہر وہ بہت ہی اچھے گھرانے سے تعلق رکھتا ہے۔اسی محلے میں اس کی بہنیں اور بھائی بھاوج رہتے ہیں۔
شاہد نے بتایا کہ وہ کئی سالوں سے فلمیں دیکھنے کا شوقین ہوچکا ہے ،جب تک رات میں ایک فلم یا کم ازکم کچھ ویڈیو گانے نہ دیکھ لے اسے نیند نہیں آتی۔وہ ہر ہیروئن کو دیکھتا ہے اور پھر اپنی بیو ی سے تقابل کرتا ہے۔وہ چاہتا ہے کہ جیسے اس فلم میں ہیروئن نظر آرہی ہے ویسی ہی اس کی بیوی نظر آئے۔بس اس وجہ سے اسے اپنی بیوی اچھی نہیں لگتی۔اسے وہ سادہ سے اجڈ گنوار معلوم ہوتی ہے جو سارا دن کچن سنبھالتی ہے اور پسینے کی بو سے مہک رہی ہوتی ہے۔
میں شاہد کی بیماری تک پہنچ چکا تھا۔اسے اپنی بیوی اسی لئے اچھی نہیں لگتی کہ وہ تصوراتی دنیا میں رہتا ہے اب جبکہ اس کی دو بچیاں اور ایک بیٹا ہے ابھی تک وہ خود کو ہیرو سے کم نہیں سمجھتا اور بیوی کو بھی ہیروئن ہی دیکھنا چاہتا ہے۔یہ صرف شاہد کا مسئلہ نہیں بلکہ اس ہندوستانی فلموں کی لت نے ہمارے بہت سے گھرانے تباہ کردیئے ہیں۔یہ تو کچھ الگ کہانی ہے ورنہ آپ لوگوںنے کتنی ہی ایسی سنی ہونگی جن میں خواتین فلمیں دیکھ دیکھ کر گھر برباد کرلیتی ہیں۔ شاہد کو راہ راست پر لانے کی کوشش کررہے ہیں امید ہے کہ اتنے بڑے واقعے کے بعد وہ سدھرنے کی کوشش کریگا تاہم یہاں ایک معاشرے کے لحاظ سے ذمہ داری ہماری بھی بنتی ہے کہ ہم مل کر معاشرے میں اچھائی کو فروغ دیں ،برائی کو روکیں اور صرف بیٹھ کر تماشائی بننے کے بجائے اپنا کردار ادا کریں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭