Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یہ خاشقجی کا دفاع ہے یا سعودی عرب کو زیر کرنا؟

 خود ساختہ منگیترکا رویہ مشکوک ہے ۔ اگر وہ  خاشقجی کے ہمراہ قونصل خانے گئی تھی تو اس نے عینی شاہد کے طور پر کوئی بات ابتک کیوں نہیں کہی؟
صالح القلاب

 

    اگر حتمی شواہد سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجائے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی سے سعودی عرب کا کوئی تعلق نہیں ، ان کی گمشدگی میں مملکت کا کوئی کردار نہیں ،تب بھی یہ دعویٰ کرنے والے  کہیں گے کہ2اکتوبر 2018ء کو استنبول کے سعودی قونصل خانے سے لاپتہ ہونے والے جمال خاشقجی کا ذمہ دار سعودی عرب ہے ۔وہ اپنا یہ جھوٹ دہراتے ہی رہیں گے۔ اب یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ جمال خاشقجی کے لاپتہ ہونے یا لاپتہ کرنے میں سعودی عرب کا کوئی ہاتھ نہیں اس کے باوجود مذکورہ جھوٹ کا ڈھونگ رچنے والے سعودی عرب کو بدنام کرنے کیلئے دروغ بیانیوں اور خود ساختہ کہانیوں کا ڈھنڈورا پیٹے چلے جارہے ہیں۔
    شروع ہی میں ایک بات کی طرف اشارہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات حتمی شواہد سے ثابت ہوچکی ہے کہ سعودی عرب کی تصویر مسخ کرنے کی مہم چلانے والے جمال خاشقجی کے امریکہ میں رہتے ہوئے ہی مملکت کے حوالے سے دروغ بیانیوں پر مشتمل قصوں ،کہانیوں کی تیاریاں کرچکے تھے اور انہوں نے اس حوالے سے مشترکہ آپریشن روم بھی قائم کرلیا تھا۔ اس دعوے کا ثبوت یہ ہے کہ جیسے ہی خاشقجی استنبول کے سعودی قونصل خانہ پہنچے ویسے ہی آپریشن روم سے قصوں ، کہانیوں کی جھلکیاں سامنے آنے لگیں۔
    عجیب وغریب بات یہ ہے کہ مغربی ممالک کے بڑے اخبارات نے مذکورہ مشترکہ آپریشن روم کی جانب سے جاری کی جانے والی کہانیوں اور دروغ بیانوں کی چھان بین کی زحمت گوارہ نہیں کی۔ انہوں مذکورہ آپریشن روم سے جو کچھ ملا اسے شائع یا نشر کردیا گیا۔ غالب گمان یہ ہے کہ اس کا بڑا محرک’’دولت ‘‘کا چکر ہے،ورنہ اس بات کا کوئی جواز نہیں کہ مغربی ممالک کے محترم اخبارات کسی چھان بین کے بغیر افواہیں تخلیق کرنیوالے مرکز کی جاری کردہ رپورٹوں کو من و عن شائع کرتے رہیں ۔
    ایسا لگتاہے کہ خود ترک صدر رجب طیب اردگان اس صورتحال سے تنگ آگئے۔ انہوں نے دیکھا کہ نہ صرف یہ کہ مذکورہ آپریشن روم کی تخلیق کردہ کہانیاں پھیل رہی ہیں،بعض ترک ذرائع ابلاغ بھی وہیں کچھ پیش کرنے لگے ہیں ، اتنا ہی نہیں، کئی ترک عہدیدار بھی انہی افواہوں کا چرچا کرنے لگے ہیں۔غالباً اس ماحول سے تنگ آکر ہی ترک صدر نے بڈاپسٹ سے انقرہ واپس آتے ہوئے یہ بیان دیا تھا’’مفروضوں پر مبنی رد عمل پر ہم کوئی فیصلہ نہیں کرسکتے۔‘‘اس کے باوجود الاخوان المسلمون سے منسوب ترکوں ، مصریوں اور شامیوں کے حلقوں میں مذکورہ آپریشن روم کی جاری کردہ کہانیاں دہرائی جارہی ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ یہ سب کچھ زبان حال سے یہ پیغام دے رہا ہے’’میرے خلاف شکوک و شبہات بجا ہیں ، مجھے پکڑ لیا جائے۔ ‘‘
    ایسے عالم میں جبکہ سعودی ترکی تحقیقاتی کمیشن خاشقجی کی گمشدگی کے مسئلے کی چھان بین پیشہ ورانہ انداز میں کررہا ہے ، مذکورہ فریق کی جانب سے لن ترانیوں کا سلسلہ یہی ظاہر کرتا ہے کہ وہ خود اس بحران کے ذمہ دار ہیں اور اپنے اوپر سے ذمہ داری ہٹانے کیلئے اس قسم کی اول فول حرکتیں کررہا ہے۔ اس حوالے سے یہ سوال بھی ہے کہ خود ساختہ منگیترکا رویہ مشکوک ہے ۔ اگر وہ سچ مچ خاشقجی کے ہمراہ قونصل خانے گئی تھی تو اس نے عینی شاہد کے طور پر کوئی بات ابتک کیوں نہیں کہی۔ہمارے سامنے ایسے بہت سارے واقعات ہیں جن میں تیسرا فریق ہی واردات کا ذمہ دار نکلا۔اس سلسلے میں مراکش کے اپوزیشن رہنما المہدی بن برکہ کے قتل کے واقعہ کو بطور مثال پیش کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح لبنان کے شیعہ رہنما موسیٰ الصدر اور ان کے 2رفقائے کار کی لیبیامیں گمشدگی کا واقعہ بھی اسی نوعیت کا ہے۔ علاوہ ازیں 1940ء کے دوران میکسیکو میں لیون ٹوٹیسکی کے قتل میں بھی تیسرا فریق ہی واردات کا ذمہ دار ثابت ہوا تھا۔
(بشکریہ:الشرق الاوسط)
مزید پڑھیں:- - - - - جعلی میڈیا کا حقیقی چہرہ کھل کر سامنے آگیا

 

شیئر: