خراب معیشت یاناقص حکمت عملی؟
***ڈاکٹر منصورنورانی***
سوچنے اور فکرکرنے کامقام ہے کہ گزشتہ چند ماہ میں ایسی کونسی آفت اورمصیبت نازل ہوگئی کہ وطن عزیز جو ایک سال قبل تک موجودہ دنیا کی ایک ابھرتی ہوئی معیشت کی تصویر پیش کررہاتھا ،آج اچانک تباہی اور بربادی کے دہانے پر جاکھڑا ہوا۔ایک برس قبل ہمارا اسٹاک ایکسچینج کامیابیوں اور کامرانیوں کے زبردست ریکارڈ قائم کررہا تھا۔ ہم آئی ایم ایف کے چنگل سے اپنے آپ کو نکال کر اپنے پیروں پر کھڑے ہوچکے تھے۔ معیشت پر گہری نظر رکھنے والے دنیا کے تمام مالیاتی ادارے ہمارے روشن مستقبل کی پیش گوئیاں کرنے لگے تھے۔کہ یہ پھر کیا ہوگیا کہ ہم آج ایک بار پھر اپنا کشکول تھامے نگر نگر ملکوں ملکوںدر در پھر رہے ہیں۔جولائی 2018ء میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں معرض وجود میں آنے والی نئی حکومت اِن تمام ناکامیوں اور خرابیوں کی ذمہ داری سابقہ مسلم لیگ (ن) پر ڈال رہی ہے اور قوم کے سامنے ایسا بھیانک منظر پیش کررہی ہے جیسے اگر ہمیں کہیں سے فوری امداد نہیں ملی تو ہم دیوالیہ ہوکر تباہ وبرباد ہوجائیںگے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ اگر ملک کے معاشی حالات اتنے ہی دگرگوںتھے تو پھر خاقان عباسی کی حکومت کے خاتمے کے بعد عارضی مدت کیلئے قائم ہونے والی نگراں حکومت نے اِن کی نشاندہی کیوں نہیں کی۔نگراں حکومت نے بلا کسی شور وغوغہ اپنے دوماہ خیریت اور سکون سے گزار لئے۔اْنہوں نے معیشت کے حوالے سے اتنا رنج وغم اور ماتم نہیں کیا جتنا ہماری یہ نئی حکومت کررہی ہے۔ایسا لگتا ہے حکومت کے پاس موجودہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے اقتصادی ماہرین کی وہ ٹیم ہی نہیں جو ایسے حالات سے اپنی بہتر حکمت عملی سے نبرد آزما ہوسکے بلکہ اْن کے غیر ذمہ دارانہ طرز عمل اور کنفیوژڈ پالیسیوں کی وجہ گزشتہ دو ماہ میں معاشی بحران اور بھی سنگین تر ہوچکا ہے اور اب اْن کے ہاتھ پائوں پھول چکے ہیں۔اور اب وہ حالت اضطرار میںمزید غلط فیصلے کئے جارہے ہیں۔کبھی کہتے ہیں ہم آئی ایم ایف سے قرضہ نہیں لینگے اور کبھی کہتے ہیں کہ ہمارے پاس اِس کے سوا کوئی اور آپشن ہے ہی نہیں۔کبھی بیرون ملک پاکستانیوں سے امدا د کی درخواستیں کرتے ہیں اور کبھی دوست ممالک سے عارضی ریلیف کی التجائیں کرتے نظر آتے ہیں۔بالآخر سارے محاذوں پر ناکامی کے بعد چار وناچار آئی ایم ایف ہی سے اْن کی سخت شرائط پر 10،12 ارب ڈالرز لینے پر اب آمادہ دکھائی دیتے ہیں۔
اِس کشمش اور غیر یقینی صورتحال کاخمیازہ ہمیں اپنے روپے کی انتہائی گراوٹ کی شکل میں دیکھنا پڑ رہا ہے۔قوم کو ابھی اندازہ نہیں ہے کہ آنے والے دنوں میں اْسے کتنے سنگین حالات کا سامنا ہونا ہے۔خان صاحب گزشتہ 4،5 سال سے اپوزیشن پر محض تنقید ہی کیاکرتے تھے۔ اْنہوں نے اقتدار مل جانے کی صورت میں پہلے سے کوئی ہوم ورک کیا ہی نہیں۔یا پھر اْنہیں یہ اْمید ہی نہ تھی کہ وہ کبھی برسراقتدار بھی آسکتے ہیں۔ اِسی لئے وہ صرف جارحانہ طرز عمل اختیار کرتے ہوئے سابق حکمرانوں کی ہر پالیسی اور ہر کام میں کیڑے ہی تلاش کرتے رہے۔ اب جب اْنہیں نادیدہ قوتوں نے اقتدار کے ایوانوں میں پہنچا ہی دیا تو اْن کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ کون ساکام پہلے کریں۔ وہ کاریں اور بھینسیں بیچنے پر لگ گئے اور ملک معاشی طور پر تیزی سے زوال پذیر ہونے لگا۔اْنہیں احساس ہی نہیں تھا کہ یہ حکمرانی کرنا کتنا مشکل کام ہے۔ وہ اِسے بھی کرکٹ کا کھیل سمجھ بیٹھے جہاں ہار جانا کوئی اتنی معیوب اور شرمندگی کی بات نہیں ہواکرتی۔ وہ 22کروڑ لوگوں کے اِس ملک کو بھی کرکٹ کا میدان سمجھ بیٹھے۔ یا پھر شوکت خانم ہسپتال جسے وہ صدقات اور خیرات سے با آسانی چلاتے رہے۔اْن کے پاس ہوشیار اور سمجھ دار ماہرین کے کوئی ٹیم ہی نہیں ۔اْن کے پرجوش اور جذباتی نوجوانوں کی بھر مار ہے جنہیں صرف چرب زبانی اور اشتعال انگیزی میں بڑی مہارت حاصل ہے یا پھر دوسری سیاسی پارٹیوں سے آئے ہوئے وہ افراد ہیں جنہیں خود اْن کی پارٹیوں نے کوئی اہمیت نہیں دی۔لے دے کے ایک اسد عمر ہی رہ گئے تھے جنہیں ہمارے لوگ ایک انتہائی قابل اور ماہر معیشت گرداننے لگے تھے لیکن اْن کی بھی ساری قابلیت اور ہوشیاری دھری کی دھری رہ گئی جب اْنہیں خان صاحب نے وزارت خزانہ کا قلمدان تھمادیا۔ملک کو معاشی مشکلات سے نکالنے کیلئے اْن کے پاس کوئی واضح حکمت عملی یا منصوبہ بندی نہیں ۔گزشتہ حکومت کے بنائے گئے سالانہ بجٹ میں سے فوری طور پر اْنہوں تمام ترقیاتی کاموں پر مختص رقوم کا خاتمہ کردیا۔ اِس کے بعد آئی ایم ایف سے قرضے کے حصول کیلئے حفظ مادتقدم کے طور پر گیس اور بجلی کے نرخ پہلے ہی سے بڑھادئیے تاکہ عوام پر یہ تاثر نہ جائے کہ ہم نے یہ سب کچھ اْن کی سخت شرائط کے وجہ سے کیا ہے۔ اسد عمر کو یہ سب کچھ کرتے ہوئے کوئی شرم اورعار بھی محسوس نہیں ہوئی کہ وہ سابقہ نواز شریف دور میں وہ اِسی گیس اور بجلی کے نرخوں کو دنیا میںسب سے زیادہ مہنگاقرار دیتے رہے تھے۔ اب کہہ رہے ہیں کہ سابق حکومت نے جعلی بنیادوں پر اِسے بڑھنے سے روکے رکھاتھا۔
وزیراعظم کی اصل ترجیحات کیا ہیں یہ بھی ابھی تک واضح نہیں۔ وہ آئی ایم ایف سے قرضہ لینے پر ابھی بھی کوئی ٹھوس مؤقف اختیار نہیں کررہے۔سی پیک کے حوالے سے بھی و ہ تذبذب کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ سڑکوں اور شاہراہوں کے تعمیر کے تو وہ ماضی میں بہت بڑے ناقد رہے ہیں۔اِسی لئے سی پیک منصوبہ اْن کی پالیسیوں سے میل نہیں کھاتا۔شاید اِسی لئے وہ اِسے کچھ سالوں کیلئے مؤخر کرنے کے امریکی مطالبوں پر راضی اوررضامند بھی ہوسکتے ہیں۔جس طرح انہوں نے سابقہ حکومت کے انفراسٹرکچر بہتر بنانے کے تمام کاموں پر قدغنیں لگادی ہیں کوئی بعید از قیاس نہیں سی پیک کے حوالے سے حکومتی مشیررزاق داؤد کے جانب سے دیا جانے والا بیان بھی خان صاحب کی تائید و حمایت ہی سے دیا گیا ہو۔حکومت نے لاہور، ملتان اور اسلام آباد میں چلنے والے میٹرو بس میں غریبوں کو دی جانے والی سبسڈی ختم کردی ہے۔اِس طرح بقول پنجاب حکومت کے قومی خزانے کے 12 ارب روپے سالانہ بچ جائیںگے حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ اِن بسوںمیں سفر کرنے والے سب کے سب لوگ غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ کوئی صاحب حیثیت اور امیر شخص اِن بسوں میں سفر نہیں کررہا تھا۔سبسڈی کی مد میں دی جانے والی رقم اگر غریب عوام پر خرچ ہورہی تھی تو اِس میں حرج ہی کیا تھا۔حکومت نے ابھی تک امیر طبقہ پر کوئی بار گراں نازل نہیں کیا۔ جوکچھ بھی کیا ہے غریب عوام کو اور غریب بنانے کی سمت میں ہی کیا ہے۔روٹی ، کھاد ،سیمنٹ ،گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا سارا بوجھ ہمارے غریب لوگوں پر ہی پڑے گا۔آنے والے دنوں میں اِس حکومت سے کسی اچھے کام کی اب کوئی اْمید باقی نہیں رہی۔جیسے جیسے وقت گزرے گا حکومت خود بھی بحرانوں میں پھنستی جائے گی اور ساتھ ہی ساتھ اپنے عوام کو بھی لے ڈوبے گی۔مستقبل کے حوالے سے اْس کے پاس کوئی ٹھوس منصوبہ بندی ہے ہی نہیں۔ وہ صرف ایڈہاک اور عارضی بنیادوں پر ساری مشکلات کا حل تلاش کرتے پھر رہی ہے۔نسلوں کو بہتر بنانا تو کجا اْس کے پاس اگلے 5 برس کا بھی کوئی لائحہ عمل موجود نہیں۔تحریک انصاف کی حکومت کے دو ماہ کی کارکردگی اتنی مایوس کن ہے کہ آنے والے دنوں سے خوف آتا ہے۔ایسا نہ ہو کہ یہ قوم جو 2030ء تک ایک ترقی یافتہ قوم بن جانے کے خواب دیکھ رہی تھی دیوالیہ ہوکر سی پیک اور ایٹمی پروگرام سمیت اپنے سارے منصوبے رول بیک کرنے پر آمادہ ہوجائے۔