Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دھنک رنگ ثقافت کا مرقع، پاکستان

باقر خانی،لاہور کی نشانی ، نصابی کتب میں باقاعدہ ان کے اسباق ہونے چاہئیں
عنبرین فیض احمد۔ ینبع
کسی بھی ملک کی پہچان میں اس کی ثقافت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ثقافت سے انکار اپنی پہچان مٹانے کے مترادف ہے۔ ثقافت پہچان ہوتی ہے معاشرے کی، طرز زندگی، رہن سہن، زبان، اخلاق ، کھانوں کا نام ہی ثقافت ہے۔ دور حاضر میں کچھ قوموں کے سوا اکثریت اپنی تہذیب و ثقافت سے ناآشنا ہیں۔ آباءو اجداد کی زندگی تاریخ کا حصہ بنتی جارہی ہے جس کی وجہ تہذیب و ثقافت کو زندہ رکھنے میں کوتاہی ہے۔ زندہ قومیں اپنی ثقافت اور طرز زندگی کو اپناتے ہوئے زندگی کے ہر شعبے میں آگے بڑھنے کی تگ و دو میں لگی رہتی ہیں۔ اپنے قیمتی اثاثوں کو ماضی کا حصہ قرار دے کر اغیار کی طرز زندگی کو اپنانے میں دلچسپی نہیں لیتیں۔
جب سے جدید سائنس کی بدولت نت نئی ایجادات کی بھرمار ہوئی ہے تب سے پرانی طرز زندگی، ثقافت، رسم و رواج اور طور طریقے لوگوں کے ذہنوں سے اوجھل ہوتے جارہے ہیں۔ ایسے میںکچھ نہ کچھ اپنی تہذیب و ثقافت سے جڑے رہنے میں ہی عافیت ہے۔ تہذیبی وثقافتی عروج و زوال لازم و ملزوم ہیں لیکن یہ بات ذہےن میں رکھنی چاہئے کہ قوم کی پہچان اس کی ثقافت اور تہذیب و تمدن سے ہی کی جاتی ہے۔ پاکستان دنیا کا ایک ایسا ملک ہے جہاں کی ثقافت دھنک کے مختلف رنگوںکا مرقع دکھائی دیتی ہے جن میں مہمان نوازی سرفہرست قرار دی جاسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی خطے سے تعلق رکھنے والے لوگ ہماری مہمان نوازی کی بدولت بہت جلد گھل مل جاتے ہیں جو بھی ایک مرتبہ ہمارے پیارے وطن آتا ہے اوریہاں کے لوگوں سے ملتاہے، وہ دوسری آنے اور لوگوں سے ملنے کی تشنگی اور خواہش رکھتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ دوسروں کو بھی پاکستانیوں کی مہمان نوازی کی مثالیں دیتا نظر آتا ہے۔ 
یہ صورتحال صرف شہروں تک ہی محدود نہیںبلکہ دیہات میں بھی چلے جائیں ،وہاں بھی مہمانوں کو بہت زیادہ عزت دی جاتی ہے۔ انواع و اقسام کے کھانوں سے تواضع کی جاتی ہے۔ ایسے تحائف دیئے جاتے ہیں جو علاقائی ثقافت کی عکاسی کرتے ہیں، جنہیں مہمان مدتوں یاد رکھتا ہے۔
کھانوں کی بات کی جائے تو ہر علاقے کی مناسبت سے یہ مختلف ہوتے ہیں۔ کچھ سادہ کھانا پسند کرتے ہیں تو کچھ چٹخارے دار۔ جنوبی ایشیا میں پاکستان کے ثقافتی کھانوں میں ایک خاص مقام ہے۔ جس طرح پاکستان مختلف زبانوں اور ثقافتوں کو خود میں سمیٹے ہوئے ہے، اسی طرح مختلف علاقائی کھانے بھی پاکستان کی خوبصورتی اور ثقافتی تنوع کا مظہر ہیں۔ ہر علاقے کی کھانے پینے کی اشیاءقدرے مختلف ہیں۔ ملک کے مشرقی حصے بالخصوص پنجاب اور سندھ میں نمکین اور مصالحے دار کھانے زیادہ پسند کئے جاتے ہیں جبکہ مغربی علاقے بلوچستان، خبیرپختونخوا، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں ہلکے مرچ مسالوں والے کھانے کھائے جاتے ہیں۔مثال کے طور پر پنجاب میں سرسوں کا ساگ بہت شوق سے کھایا جاتا ہے۔ لاہور کا چرغا ملک بھر میں مشہور ہے جس میں منفرد مسالے استعمال ہوتے ہیں جو اس کا ذائقہ دوبالا کردیتے ہیں۔ لاہوریوں کے بنائے ہوئے سری پائے کا نام بھی ہر فرد کی زبان پر ہوتا ہے۔ ناشتے میں حلوہ پوری ، نہاری، سری پائے، باقر خانی جس کا ذائقہ اور لذت کھانے والا ہی صحیح طور پر بتا سکتا ہے۔ 
ملتان کا سوہن حلوہ اپنی علیحدہ پہچان رکھتا ہے۔ اس حلوے کی سوندھی خوشبو اسے کھانے سے باز نہیں رکھ سکتی۔ خان پور کے پیڑے اپنے منفرد ذائقے اور لذت کی وجہ سے کافی مشہور ہیں۔ اسی طرح پشاور کے چپل کباب بھی پورے ملک میں مشہور ہیں۔ اس کی تیاری میں جو خوشبو اٹھتی ہے وہ نہ صرف مقامی لوگوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے بلکہ باہر سے آنے والے افراد کو بھی متوجہ ہونے پر مجبو ر کرتی ہے۔ کراچی میں دستیاب پکوان لذت اور معیار کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہوتے ہیں۔ پراٹھا چائے، دہی بھلے اور سموسوں کے علاوہ سندھی بریانی بھی پورے ملک میں مشہور ہے۔ علاوہ ازیں حیدرآبادی کھانے ا پنے منفرد ذائقے کی وجہ سے بہت زیادہ پسند کئے جاتے ہیں۔ شکارپوری اچار دسترخوان پر چار چاند لگا دیتا ہے۔ ربڑی کی تو بات ہی الگ ہے۔ اسی طرح بلوچستان کی سجی بہترین روایتی ڈش ہے ۔ کاک کو عام طور پر سجی کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ کاک بلوچ ثقافت کا اہم پکوان ہے۔ پھر سردیوں کی ہردل عزیز کشمیری چائے جو ذائقے اور فوائد کے اعتبار سے بہت ہی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ 
  دھنک کے صفحہ پر جو تصویر شائع کی گئی ہے اس میں ایک شخص باقر خانی بنا رہا ہے جو ہماری ثقافتی روایات میں سے ایک ہے۔ یہ ایسا کھاجا ہے جو ملک بھر میں مختلف شکلوں میں دستیاب ہوتا ہے۔ کراچی میں بسکٹ کی شکل میں دستیاب ہوتا ہے جسے چائے کے ساتھ کھایا جاتا ہے۔ لاہور میں ناشتے کے لئے دسترخوان کا اہم حصہ سمجھی جاتی ہے ۔ باقر خانی کو لاہور کی نشانی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا یعنی ملک کے ہر شہر کی کھانے کی کوئی نہ کوئی پہچان ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ ہر شہر کی مشہور ڈشیں ثقافتی ورثے کے طور پر آنے والی نسلوں کو متعارف کرائی جائیں ۔ بچوں کی نصابی کتب میں باقاعدہ ان کے اسباق ہوں تاکہ انہیں معلوم ہوسکے کہ ہماری تہذیبی روایات کیا ہیں۔ ایسی حکمت عملی اپنائی جائے کہ یہ نہ صرف ہمارے ملک میں بلکہ بیرون ملک بھی ہماری پہچان بن جائیں۔ دنیا میںجہاں بھی پاکستانی کھانے بنتے ہیں وہاں ہماری بہتر پہچان بن سکے۔ دنیا بھر میں ہمارے دیسی کھانے متعارف کرائے جائیں۔اس سے نہ صرف گھریلو روزگار میں اضافہ ہوگا، بیروزگاری میں کمی آئےگی بلکہ لوگ گھر بیٹھے پیسے بھی کما سکیں گے۔ 
 

شیئر: