Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آسٹریا اور مسلمان …انتہا پسند دائیں بازو کے عناصرپر غلبے کی کوشش

امیل امین ۔الشرق الاوسط
ایسا لگتا ہے کہ اسلام اور اس کے پیروکاروں کے ساتھ تعلقات کی بابت یورپ میں جاری مباحثہ طول پکڑے گا ۔ دائیں بازوں کے انتہا پسند یورپی بہت سارے اہل یورپ کی نظر میں ناپسندیدہ ہیں۔ان دنوں دائیں بازو کے انتہا پسند یورپی مختلف تضادات کا گیت گا رہے ہیں اور اسلام کے خلاف نفرت و عداوت کا آتش فشاں بھڑکا رہے ہیں ۔ یہ مسلمانوں کو الگ تھلگ کرنے کی مہم چلائے ہوئے ہیں ۔ 
یہ بات کسی عرب یا مسلم قلمکار تک محدود نہیں بلکہ غیر جانبدار امریکی بھی یورپی منظر نامے کو اسی زاوئیے سے دیکھ رہیں ۔ مثال کے طور پر نیو ری پبلک امریکی میگزین کے میکس ہولی برین نے تحریر کیا کہ گزشتہ 10سالوں کے دوران دائیں بازو کی نئی سیاسی تحریکوں نے عصر حاضر کے نازی ازم کے علمبرداروں ، آزاد منڈی کی معیشت کا نظریہ رکھنے والے قدامت پسندوں کو یکجا کر دیا ہے ۔ یہ سیاسی نظریات کا پرچار کر کے بلاشبہ خوف و ہراس پھیلا رہے ہیں ۔ 
مذکورہ پسِ منظر سے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ یورپی ممالک ایک بار پھر تیسرے عشرے کے ہولناک حالات کی طرف لوٹنے لگے ہیں ؟امریکی میگزین پولٹیکو کے قلمکار کیٹی اوڈونیل نے اعتراف کیا کہ یورپ کی قوم پرست جماعتیں اٹلی سے لیکر فن لینڈ تک ہر جگہ قدم جمانے لگی ہیں ۔ اس سے یہ خدشات بڑھنے لگے ہیں کہ یورپ 20ویں صدی کے نصف اول میں برپا ہونیوالے المیہ کی ذمہ داری  پالیسیاں اپنانے لگا ہے ۔ 
یورپ کے منظر نامے میں تشویشناک پہلو اس وقت یہ ہے کہ تشویش کا دائرہ مسلمانوں تک محدود نہیں بلکہ خود یورپی یہودی بھی اس کی زد میں ہے ۔ اسی تناظر میں یہودی قائدین کو تمام یورپی ممالک میں قومیت پرستی کی تحریکوں سے خوف آنے لگا ہے ۔ 
سوال یہ ہے کہ یورپی ممالک کے انتہا پسند عناصر آسٹریا اور مسلمانوں کو لیکر ہی بات چیت کیوں کر رہے ہیں؟دراصل اس کا سبب حالیہ ایام کے دوران ویانا میں برپا ہونیوالا وہ مباحثہ ہے جو شاہ عبداللہ عالمی مکالمہ بین المذاہب مرکز کی بابت منظر عام پر آیا ہے ۔ اس مرکز کی مجلس انتظامیہ مسلمانوں ، عیسائیوں ، یہودیوں ، بدھ مت اور ہندو مت کے پیروکاروں پر مشتمل ہے ۔ اس مرکز کا ہدف مکالمہ بین المذاہب کو فروغ دینا ، پر امن بقائے باہم کے کلچر کو مضبوط کرنا ، نفرت کی دیواریں عبور کرنا ، مشرق و مغرب اور ابراہیمی مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان محبت کے پل تعمیر کرنا ہے ۔حالیہ ہفتوں کے دوران شاہ عبداللہ مکالمہ بین المذاہب مرکز کے خلاف آسٹریا میں دائیں بازو کے انتہا پسندوں نے گھنائونی مہم چلائی ۔ یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ جرمنی اور آسٹریا قومی اشتراکیت کے مراکز ہیں ۔2017ء کے دوران ہونیوالے انتخاب کے بعد دونوں ملکوں نے تشویش کی لہر پیدا کی ہے ۔ یہ بات یقینی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ شاہ عبداللہ مرکز کے حوالے سے ہونیوالی بحث میں اعتدال پسند عناصر کو تنگ ذہن کے مقابلے میں فتح حاصل ہوئی ۔ اس سے غیر جانبدار لوگوں کو یہ پیغام گیا کہ آسٹریا شاہ عبداللہ مرکز کے تسلسل کا فیصلہ کر کے خوش گوار اقدام کر رہا ہے ۔ 
یہاں یہ سوال ضرور ہو گا کہ یورپی عوام عموماً اور آسٹریا کے باشندے خصوصاً اگر عرب اور مسلم دنیا کے ساتھ مکالمہ نہیں چاہتے تو وہ ان کے ساتھ تعلقات رکھنے کے سلسلے میں کیا طریقہ کار اپنانے میں دلچسپی رکھتے ہیں ؟
 

شیئر: