Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انسانی اسمگلروں پر قابو پانے کی ضرورت

احمد آزاد،فیصل آباد
آنکھوں میں روشن مستقبل کے خواب سجائے بلال پچھلے تین دن سے ترکی کی سرحد پر پھنسا ہوا تھا ۔پاکستان کے شہر سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والابلال اپنے والدین کی امیدوں کا سہارا بن کر ایجنٹ کے ذریعے پہلے بلوچستان پھر ایران اور پھر ترکی کی سرحد کے قریب بیٹھا ہوا مناسب وقت کا انتظار کررہا تھا ۔ اسے ترکی میں داخل ہوکر وہاں سے براستہ سمندر یونان کا رخ کرنا تھا۔ وائے قسمت سمندری راستے سے یونان پہنچنے کی بجائے کشتی الٹنے کی وجہ سے بلال خالق حقیقی سے جلا ملا۔والدین اور جوان بہن اب بلال کی تصویر سامنے رکھے اس کی لاش کے منتظر ہیں ۔ایسے کئی کیس ہیں جو ہمارے اردگرد ہماری بے حسی کا منہ چراتے ہیں کہ ہم نے اپنے پیاروں کو چند پیسوں کی خاطرموت کے منہ میں دھکیل دیا۔ بیرون ملک جانے والے ان میں سے چند ایک کامیاب بھی ہوتے ہیں جو کہ ایک لمبا عرصہ ترکی ،یونان اور یورپی ممالک میں گزارنے کے بعد بھی غیرقانونی طریقے سے وطن واپس آتے ہیں۔ کچھ تو سیاحتی ویزے پر جاکر واپس آنا گوارہ نہیں کرتے اور کچھ تو تعلیمی ویزے پر جاکر نوکری کی تلاش میں جُت جاتے ہیں ۔ مختلف ممالک کی سرحدیں غیرقانونی طریقے سے عبور کرکے اپنے خوابوں کے ملک میں پہنچنے کی سعی کی جاتی ہے ۔چونکہ یہ طریقہ غیرقانونی ہوتا ہے اس لیے اس میں دستاویزات کے بغیر ہی سب کچھ ایجنٹ کے ذریعے ہوتا ہے ۔ایک ملک کے ایجنٹ کادوسرے ملک کے ایجنٹ سے رابطہ ہوتا ہے اور یہ سلسلہ آگے چلتا ہوا ایک چین(زنجیر) کی شکل اختیار کرلیتا ہے ۔جنگلوں اور ویرانوں سے ہوتے ہوئے ’’پارسل‘‘کو مقررہ جگہ پر پہنچایا جاتا ہے۔ ایسے میں اگر ایجنٹ کوخطرہ محسوس ہو تو وہ اپنے پارسل کو راستے میں ہی چھوڑ کر رفوچکرہوجاتا ہے ۔ ایجنٹ انسانیت سے عاری ہوتے ہیں اور ان کے سامنے سرحد عبور کرتے لوگوں کی حیثیت ایک پارسل سے زیادہ نہیں ہوتی ۔ایک ایک گھونٹ پانی کی قیمت ہزاروں میں وصول کی جاتی ہے اور پیچھے رہ جانے والوں کو ڈنڈوں کے زور سے تیز چلنے کا بولا جاتا ہے ۔گندم کی بوریوں کی مانند انسانوں کی تہیں گاڑیوںاور کنٹینروں میں لگائی جاتی ہیں،سنگلاخ چٹانوں اور کانٹوں بھری زمین پر دبے پائوں دوڑایا جاتا ہے کہ آواز کی صورت میں سرحد پر تعینات سیکیورٹی محافظین کی گولیوں کا نشانہ بننے کا خدشہ ہوتا ہے ۔
جنوری 2018ء سے اب تک 2000سے زائد تارکین وطن ڈوب کر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔ان میں سے اکثریت اٹلی جانا چاہتی تھی ۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین یو این ایچ سی آرUNHCRکے ترجمان کے مطابق ان 2ہزار کے علاوہ17مزید افراد کی لاشیںاسپین کے ساحل سے اس ہفتے ملی ہیں ۔اس سال ڈیڑھ لاکھ کے قریب تارکین وطن اور پناہ گزین یورپ پہنچنے میںکامیاب ہوئے ہیں ۔ایک اور ترجمان جوئل مل مین کے مطابق یہ مسلسل پانچواں سال ہے جب مرنے والوں کی تعدادایک لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے ۔تارکین وطن کا سب سے بڑا ہدف اسپین اور اٹلی ہوتا ہے ۔ اس سال اسپین پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد 50ہزار اور یونان میں یہ تعداد23ہزار بتائی گئی ہے ۔صرف ماہ ستمبر کی بات کی جائے تو ہر 8میں سے ایک شخص اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھا ہے۔برصغیر پاک و ہند میں بھی یہ سلسلہ جاری و ساری ہے ۔پاکستان اور ہندوستان میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری ، امن کی مخدوش صورتحال اور یورپ ودیگر ممالک کے متعلق خوشنما باتوں نے نئی نسل کو دیار غیر کی جانب کھینچنے میں اہم کردار اد ا کیا ہے ۔جہاں ان کی محنتوں کا معقول معاوضہ مل سکے اور وہ اپنے قریبی عزیزواقارب کی ضروریات و خواہشات کو عملی جامہ پہنا سکیں ۔یہی جنون انہیں باہر کے ممالک میں لیجانے کا سبب بنتا ہے جس کے لئے وہ قانونی وغیرقانونی طریقے بروئے کار لاتے ہوئے کوششوں میں مصروف ہوجاتے ہیں۔
9/11سے قبل یورپ و امریکا کے حالات قدرے مختلف تھے اور قوانین و ضوابط میں کچھ حد تک نرمی تھی لیکن اس واقعہ کے بعد قوانین کو سخت کیا گیا جس سے غیرقانونی رحجان میں اضافہ ہوا۔ملکوں کے سخت ہوتے قوانین سے کسی اور نے چاہے فائدہ نہ اٹھایا ہو لیکن بیرون ملک غیرقانونی طریقوں سے بھیجنے والوں نے خوب استفادہ کیا۔شروع شروع میں تو پاسپورٹ میں ردوبدل کرکے کام نکالا گیا، پھر جب ٹیکنالوجی نے یہ راستہ روکا تو زمینی راستے کے ذریعے اسمگلنگ مافیا کاحصہ بنا گیا ۔  اس کے بعد سمندری راستے سے انسانی اسمگلنگ مافیا کا حصہ بنتے ہوئے اس کام میں مزید تیزی لائی گئی ۔بعض واقعات میں تو ایجنٹ نے اپنے ’’پارسل‘‘ کو انسانی اسمگلنگ کرنے والے مافیا کے ہاتھوں فروخت کرکے اپنے پیسے کھرے کیے ۔
غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک جانے والا جہاں اپنی زندگی خطرے میں ڈالتا ہے وہیں اپنے اہل خانہ کو بھی انتظار کی سولی پر لٹکائے رکھتا ہے ۔آج بھی گائوں کے کسی نہ کسی کونے میں کوئی بوڑھی خاتون اپنے گھر کی چوکھٹ پر بیٹھی اپنے بیٹے کی راہ تکتی ہے جوکہ ایجنٹ کے ذریعے یونان گیا تھا اور عرصہ گزرنے کے باوجود کوئی اتاپتہ نہیں معلوم ہورہا ۔نہ خبر ملتی ہے کہ زندہ ہے اور نہ ہی معلوم ہوتا ہے کہ جوان بیٹے کی لاش گدھ نوچ چکے ہیں ۔انتظار کی سولی پر لٹکی یہ ماں جوان بیٹے کی زندگی کی دعائیں مانگتی اپنی زندگی کی بازی ہار جاتی ہے لیکن بیٹے کی خیرخبر نہیں مل پاتی ۔ماضی میں بھی اگرچہ ایسے ایجنٹوں /انسانی اسمگلروں کے خلاف کارروائیاں حکومتی سطح پر ہوتی رہی ہیں اور موجودہ حکومت بھی ان کے خلاف کارروائی کرنے کی کوشش کرے گی ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ بین الاقوامی سطح پر اس کاروبار کوروکنے کے حوالے سے سخت قانون سازی کی جائے ۔جنگ زدہ علاقوں سے تو لوگوں کی نقل مکانی کی سمجھ آتی ہے لیکن پاکستان ،ہندوستان اور دیگر ان جیسے ممالک سے لوگوں کی نقل مکانی کی غیر قانونی کوشش سمجھ سے بالا تر ہے ۔
 

شیئر: