کراچی کے ساحلی علاقے خطرے میں
کراچی (صلاح الدین حیدر ) مسائل گو ناگوںہوں تو کس کس طرف توجہ دی جائے۔ گزشتہ کئی روز سے میئر کراچی وسیم اختر عدالت عظمیٰ کی ہدایت پر کراچی میں تجاوزات مسمار کرنے میں مصروف ہیں تو دوسری طرف انہیں نئے مسئلے کا سامنا ہے۔ کراچی کے قریب گہرے سمندر میں کچھ پرانے جزائر سمندر کی بھینٹ چڑھتے جارہے ہیں۔ تقریباً دو دہائیوں پہلے جب کراچی کے ایک معروف لیڈر نے اس طرف توجہ مبذول کرائی تھی کہ سندھ کے اس وقت کے وزیر اعلی قائم علی شاہ سمیت سب نے اسے مذاق میں اڑا دیا اور اسے ان کی چال سے تعبیر کیا کہ وہ شہر کے ساحلی علاقوں پر بھی قبضہ جمانا چاہتے ہیں لیکن سمجھنے کے باوجود بھی کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ڈیڑھ دو دہائیوں کا عرصہ بہت زیادہ نہیں ہوتا۔ ایک مقرر اخبار نے یہ خاص خبر شہ سرخیوں کے ساتھ شائع کی کہ ساحلی علاقوں کے قریب جزیرے سمندر میں غرق ہوتے جارہے ہیں جس کا سب سے بڑا ثبوت وہاں سے نقل مکانی ہے۔ انڈس ڈیلٹا 45 میں سے 32 دیہی علاقے غرق ہو چکے ، وہاں کی آبادی خوف سے 70,000 سے کم ہوکر صرف 10,000 رہ گئی ، لوگ جو کہ وہاں 60/70 سال سے آباد تھے، زیادہ تر ماہی گیری پر ان کا انحصار تھا، ان کا بہت کچھ تو لٹ ہی گیا ، بچا کچا سازو سامان اٹھاکر اب وہ دوسرے علاقوں میں منتقلی پر مجبور ہوگئے۔صرف ماہی گیر ہی نہیں بلکہ جزیرے پر کاشت کرنے والا علاقہ بھی غرق ہو چکا ہے۔ باقی ماندہ جزیرے اور ملحقہ علاقے بھی خطرے سے دو چار ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق اب تک پچھلے کچھ برسوں میں 60.000 سے 90,000 نفوس نہ صرف وہاں سے بلکہ ساحلی علاقوں سے نقل مکانی کرچکے ہیں۔ ٹھٹھہ، سجاول اور بدین جو سب آس پڑوس کے علاقے ہیں میں اب تک 32 لاکھ سے 40 لاکھ ہیکڑ زمین سمندر برد ہوچکی ہے مینگروز کی جھاڑیاں جو کہ زمین کو پانی کی تباہی سے بچاتی ہے اور جن کی کراچی کے قریبی علاقوں میں بہت شد و مدسے دیکھ بھال کی جاتی ہے وہ بھی انڈس ڈیلٹا میں 228,000 ہیکڑ سے گھٹ کر 73,100 ہیکڑ رہ گئی ۔کچھ ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ کچھ ساحلی علاقے یا قرب و جوار میں ہند اور کوریا کے مچھلی پکڑنے والی کشتیوں اور بڑے ٹرالر اکثر و بیشتر پچھلے 15 سال سے یہاں شکار میں مصروف ہیں۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ حکومتی سطح پر ابھی تک خاموشی ہے۔ کوئی سننے والا نہیں ۔ایک دیہاتی نے اپنا نام نہ شائع کرنے پر بتایا کہ صوبائی حکومت نے پانی صاف کرنے کا ایک پلانٹ لگایا تھا مگر اس پر کسی زمیندار نے قبضہ جمالیا۔ بے چارے غریب لوگ منہ ہی دیکھتے رہ گئے ایسی شکایتیں بہت ہیں مگر مقامی آبادی جو کہ اکثر غریب لوگوں پر مشتمل ہے، زبان کھولنے سے ڈرتی ہے کہ کہیں انہیں تنگ نہ کرے۔ دوسری طرف نگاہ دوڑائیں تو کراچی میں ہونے والی بین لاقوامی کانفرنس میں ایک مقالے میں بتایا گیا کہ ریاست، حکومتی اداروں اور تحفظ انسانی حقوق کے دوسرے ادارے بھی کوئی ایسا کام نہیں کرتے جس سے کراچی کے لوگوں میں مستقبل کے لئے اقدامات کئے جائیں۔