طاہر داوڑ کا قتل پاکستان کے لئے چیلنج
کراچی (صلاح الدین حیدر) سارا ملک ہی متفق ہے کہ پاکستان میں امن و امان کی صورت حال خراب ہی ہے۔بدحالی کا شکار ہے، طالبان کے خلاف جنگ تو تقریباً جیت ہی لی گئی اب ابھی دہشت گردوں میں چھوٹے موٹے گروپ یا تو پاکستان میں دور افتاد علاقوں میں اپنی کمین گاہوں میں چھپتے پھر رہے ہیں یا پھر افغانستان کی سرحد سے داخل ہوکر پاکستان میں عسکری فوجوں اور نہتے انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ ملک شام نے نکالے گئے داعش نہ جانے کس طرح کا اسلامی نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستان میں لوگوں میں خوف و ہراس پھیلانے میں مصروف نظر آتے ہیں۔
تمہید اس لئے باندھی کہ جب قانون کے محافظ خود ہی موت کے منہ میں دھکیل دیئے جائیں تو پھر عام آدمی کیسے اپنی جان و مال کو محفوظ سمجھ سکتا ہے۔ پشاور کے اعلیٰ پولیس افسر، ووہ بھی کوئی معمولی نہیں بلکہ سپرٹینڈنٹ رینک کا پشاور سے اغوا ہوتا ہے، شور و غل ہوتا ہے، لواحقین فریاد کرتے ہیں حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔5 دن بعد کچھ باریک سی آواز اٹھتی ہے کہ اسے شاید افغانستان لے جایا گیا پھر بھی حکومت اپنے کابل کے سفارت خانے کو ہدایت نہیں دیتی۔ مکمل خاموشی ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ امریکہ میں اس کے کسی ایک شہری پر آنچ بھی آجائے تو سارے ملک سے لے کر میڈیا، کانگریس اور سینیٹ کے ممبران، عوام الناس آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں لیکن ہم لوگ تو بس اب کیا کہیں کہ کس طرح کے بندے ہیں کہ بجائے معاملے کو فوری طور پر تہہ تک پہنچانے کے آرام پسندی اور خواب غفلت میں مبتلا رہنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے شترمرغ ریت میں منہ چھپا کر سمجھتا ہے کہ طوفان ٹل گیا۔جب یہی حالات ہو تو دشمنان پاکستان کی اہمیت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے پھر وہی ہوتا ہے جو ہم روز سنتے اور دیکھتے ہیں کہ کہیں فوجیوں اور رینجرز پر حملہ ہوجاتا ہے، دو چار شہادتیں ہو جاتی ہیں اور ہم اسے فرض کی ادائیگی سمجھ کر اس کی تجہیز و تکفین کر کے گھر لوٹ جاتے ہیں۔طاہر خان داوڑ ایک بہترین پولیس افسر، جسے عزت و احترام سے دیکھا اور پہچانا جاتا تھا، ایک دم ہی غائب، وہ ایک نڈر سپاہی تھا، ملک پر اپنی جان قربان کردی ۔طاہر داوڑ بہادری کی وجہ سے قائد اعظم میڈل حاصل کر چکا تھا، وہ 26 اکتوبر سے غائب تھا لیکن صرف تین روز پہلے اس کی موت کی اطلاع ملی تو پھر پاکستانی وزیر خارجہ، سیکرٹری خارجہ حرکت میں آئے ۔کیا ایک پاکستانی کی زندگی کی حفاظت ان کی ذمہ داری نہیں ہے، خیبرپختونخوا کے گورنر سے لے کر سب کو فوری طور پر عملی اقدامات اٹھانے چاہیئے تھے جو دیکھنے میں نہیں آیا، کتنے بے حس لوگ ہیں ہم۔
26 اکتوبر کے بعد اس کے بارے میں مختلف خبریں گردش میں رہیں، یہ کچھ ایسا معاملہ تھا جیسا کہ کئی سال پہلے جب جنرل معین الدین حیدر وزیر داخلہ تھے اور ایک امریکی صحافی ڈینیل پرل غائب ہوگیا۔ حکومت وقت، جنرل معین حیدر، پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کے لوگ دلاسہ دیتے رہے کہ وہ ٹھیک ہے بہت جلد گھر واپس آجائے گا۔ بالآخرایک دن اس کی لاش ملی۔ یہ تو ہمارے نظام حکومت پر سیاہ داغ ہے، جسے دھونے میں بہت عرصہ لگے گا۔ اب یہ دوسرا معاملہ ہوا ہے۔ 2 روز پہلے کسی نجی ٹیلی چینل پر خبریں چلی کہ داوڑ افغانستان میں اغوا ہونے کے بعد شہید کردیا گیا ۔اس وقت تک بھی حکومتی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ اب جب کہ شور مچ چکا ہے تو وزیر مملکت شہریار آفریدی یہ فرما کر بات ٹال دیتے ہیں کہ کچھ عناصر ملک میں عدم استحکام پیدا کرنا چاہتے ہیں، واہ بہت خوب بجائے اس کہ وزیر موصوف اس کے بارے میں بتاتے کہ شہادتیں ملیں ، اس کے ساتھ آخر ہوا کیا، کون لوگ تھے جو اسے اغوا کر کے لے گئے اور پھر اس کی زندگی لے لی۔ 2 دن پہلے تک تو شہریار آفریدی میڈیا کو یقین لاتے رہے کہ طاہر داوڑ صحیح سلامت ہے، انہیں کیسے پتہ چلا کہ وہ زندہ بھی ہے کہ نہیں۔ یہ سارے حربے حکومتی نااہلی ہے۔ صرف عوام کی توجہ اصل معاملے سے ہٹانے کے لئے کرتے ہیں، یا پھر اپنی ناکامیاں چھپانے کے۔ اب انہیں کوئی یہ بتلائے کہ کون سا پولیسافسر ہمت کرے گا قبائلی علاقوں میں ڈیوٹی سر انجام دینے پر۔ سب ہی کو اپنی جان کا خطرہ ہوگا۔ حکومت اپنے فرائض ادا کرنے میں ناکام ہوگئی اسے یہ بات مان لینا چاہیے۔