کراچی میں امن وامان لوٹ آیا؟
کراچی (صلاح الدین حیدر)پچھلے کئی مہینوں بلکہ سال سے اوپر ، کراچی جرائم کا اڈہ بلکہ جرائم کی پوری دنیا یہاں قائم ہوچکی تھی ۔ اللہ بھلا کرے رینجرز اور آرمی کا ، اس نے اپنی جان جھونکوں میں ڈال کر کراچی میں گزشتہ دو تین سالوں میں دہشت گردی ، قتل و غارت گری ، اغواءبرائے تاوان سے کراچی اور سندھ کو پاک کیا ۔ لوگو ں نے سکھ کا سانس لیالیکن کچھ ایسا لگتا ہے کہ بعض حکومتی اراکین پولیس کے ساتھ مل کر جرائم کی پشت پناہی بلکہ حمایت کرتے ہیں ۔ کوئی مجرم رنگے ہاتھوں پکڑا گیا اور فوراکسی نہ کسی وزیر ، ایم این اے، ایم پی اے یا مشیر کا فون آجاتا ہے کہ اپنا بند ہ ہے چھوڑ دیں۔ پولیس بیچاری کیا کرے ، حکم نہیںمانتی ہے تو لائن حاضر، تھانے میں رہ کر جو دو چار پیسے اسے اوپر سے مل جاتے ہیں وہ غائب، اب صرف تنخواہ میں ہی کام چلانا پڑےگا ۔ حکومت نے کئی مرتبہ پولیس کی تنخواہ اور مراعات میں اضافہ کیا لیکن جرائم بجائے کم ہونے کے اور بڑھ گئے۔ ایسے میں وزیراعلیٰ کے یہ بیان کہ بڑھتے ہوئے اسٹریٹ کرائم وبال جان بن گئے تو خوش آئندلیکن اس کا قلع قمع کرنے میں اتنی دیر سے کیوں سوجھی ۔سندھ رینجرز کے سربراہ میجر جنرل محمد سعید نے بارہا کہا کہ آپ ہمیں اختیار دیں ۔پولیس کی پاور دیں، ہم ٹھیک کردیتے ہیں۔ اسٹریٹ کرائم اب ایک سائنس بن چکے ۔ جگہ جگہ مجرموں کے اڈے بن چکے ہیں ۔ لیاری ہو یا لیاقت آباد، ناظم آباد بنارس کالونی، سہراب گوٹھ اور اب تو ڈیفنس اور کلفٹن جیسے پرسکون اور محفوظ علاقے بھی نہیں بچ سکے ۔ کلفٹن میں دن دہاڑے قتل ہوجاتے ہیں۔ ایک پولیس افسر کے بیٹے کو قتل کرنے والا بڑے آدمی کا بیٹا آرام سے ضمانت پر رہائی لے کر پھر وہی عیاشیاں کرتا ہے، اس کی وہی پرانی کہانی ، وہی طور طریقے ، لیکن جب ہائی کورٹ نے اسے جیل بھیجا تو وہ چراغ پا تو ضرور ہوا جیل میں ایئرکنڈیشنڈ کمرے میںشاندار بستر پر لیٹا ہوا ہے۔ قسمت خراب تھی کہ جیل کے دورے کے درمیان چیف جسٹس ثاقب نثار پہنچ گئے ، اسے دیکھ کر پوچھا کہ کیا یہ جیل ہے؟ وہ چونکہ چیف جسٹس کو نہیں پہچانتا تھا ان سے بحث و مباحثہ کرنے بلکہ لڑنے مرنے پر آمادہ ہوگیا ۔ جب پتہ چلا کہ وہ کونسی ہستی ہیں تو ٹھنڈا ہوا ۔ معافی مانگی لیکن چیف صاحب کا غصہ آسمان پر پہنچ چکا تھا ۔حکم دیا کہ اسے قاتلوں کی کال کوٹھری میں فوراً بھیج دیا جائے ۔ ٹھیک پتہ تو نہیں اس لئے کہ جیل کا عملہ بھی بااثر لوگوں سے ملا ہوا ہے ۔ ہوسکتا ہے وہ دوبارہ اپنے آرام دہ کمرے میں واپس آگیا ہو یا محض قیاس آرائی ہے ۔یہ بھی ممکن ہے جس کے زیادہ امکانات ہیں کہ وہ اب جیل کی کال کوٹھری میں قید تنہائی میں شب و روز گزار رہا ہے۔ کیادرست ہے کیا غلط یہ پاکستان میں کہنا ذرا مشکل کام ہے ۔ یہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون سب سے اعلیٰ و ارفع قانون ہے لیکن مراد علی شاہ کا یہ کہنا ہے کہ ان کی حکومت نے کراچی میں امن بحال کیا ہے سراسر غلط ہے ۔ رینجرز اور پولیس کے سر کامیابی کا سہرا جاتا ہے ۔ رینجرز نے واقعی بہت خوبصورت کام کیا ہے ۔ رینجرز کی ساری کی ساری قیادت آرمی افسران کے ماتحت ہے اس لئے کوئی چوں چرا نہیں کرسکتا۔ کراچی آج ایک پرامن شہر ہے لیکن عورتیں، بچے ، بوڑھے ، نوجوان سب ہی آرام سے رات کو 3بجے تک سڑکوں پر اپنی گاڑیاں تیزی سے دوڑاتے نظر آتے ہیں ۔ لڑکیاں اور عورتیں پرامن ہیں کوئی انہیں نہیں چھیڑتا ، ایک دو کی باتیں نہیں کی جاسکتی ۔ جرائم ہر ملک میں ہوتے ہیں کراچی میں جہاں مغرب کے بعد گھر سے باہر نکلنا موت کو دعوت دینا تھا اب کوئی گھبراتا نہیں ۔ راوی سکھ چین لکھتا ہے ۔