اگر اس کام میں نیکی و ثواب ہوتا یاکوئی بھی دینی یا دنیوی فائدہ ہوتا تو آپ اپنے صحابہؓ کو ضرور اس کا حکم دے دیتے
پورے عالم کے مسلمانوں اور بالخصوص اسلامیانِ برِصغیر کا ایک طبقہ اس بات کا عادی ہوچکا ہے کہ 12ربیع الاوّل کو عید میلاد النبی کے نام سے جشن منائے اورجلوس نکالے۔ اَکل و شرب کی دعوتیں کرے اور قوالیاں سنے جبکہ دوسرا طبقہ اس جشن کو شرعاً نا جائز قرار دیتا ہے۔اس مختلف فیہ مسئلہ اور ایسے ہی دیگر اختلافی مسائل کے سلسلہ میں قرآن پاک نے ہمیں کئی بہترین اصول دیئے ہیںجن میں سے پہلا اصول یہ ہے کہ:
تنازعات کو اوّل تو سرے سے ہوا ہی نہ دی جائے تاکہ اُمت کی اجتماعی قوت میں کمزوری پیدا نہ ہوجیسا کہ سورۃالانفال آیت46 میں ارشاد ِالٰہی ہے:
’’اﷲ اور اس کے رسول() کی اطاعت کرو اور آپس میںجھگڑو نہیں ،ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہوجائے گی اور تمہاری ہوا اُکھڑ جائے گی، صبر سے کام لو، یقینااﷲ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘
دوسرا اصول ہے کہ اگر کبھی کسی معاملہ میں اختلاف ہو ہی جائے تو اس چیز کو اﷲ اور اس کے رسول کی عدالت میںلے جائو اور وہاں سے جو فیصلہ صادر ہو ،اسے قبول کرلو،جیسا کہ سورۃ النساء آیت59 میں فرمان ِالٰہی ہے:
’’پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع ہوجائے تو اُسے اﷲ اور اس کے رسول() کی طرف پھیر دو اگر تم واقعی اﷲ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو، یہی ایک صحیح طریقِ کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے۔‘‘
اس سلسلہ میں تیسرا اصول یہ ہے کہ جب اﷲ اور اس کا رسول فیصلہ کردیں تو اسے بلا چوں و چرا قبول کرلینا ہی ایمان کی سلامتی کا ضامن ہے،جیسا کہ سورۃ النساء آیت65 میں ارشادِ الٰہی ہے:
’’(اے پیغمبر) تیرے پر ور دگار کی قسم ،وہ مومن نہ ہوں گے جب تک اپنے جھگڑوں کا فیصلہ تجھ سے نہ کروائیں اور پھر تیرے فیصلے سے ان کے دِلوں میں کچھ اُداسی نہ ہو بلکہ (خوشی خوشی) مان کر منظور کر لیں۔‘‘
اس آیت سے معلوم ہوا کہ آنحضرت کے فیصلے کے خلاف دل میں ذرّہ بھر بھی تنگی اور نا پسندید گی کی جائے تو یہ ایمان کے منافی ہے،چنانچہ ایک حدیث میں ارشادِ نبوی ہے:
’’تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کی خواہش نفس میرے لائے ہوئے طریقے (دین) کے تابع نہ ہو۔‘‘
سورۃ الاحزاب آیت36 میں فرمایا :
’’اورکسی مرد یا عورت کیلئے یہ نہیں ہوسکتا کہ اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول ()کسی بات کا حکم کر دیں تو پھر ان کو اس بات میں کوئی اختیار ہے اور جو کوئی اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول() کا فرمان نہ مانے (اور دوسروں کی رائے پر چلے) تو وہ کھلا گمراہ ہوچکا۔‘‘
اﷲ تعالیٰ کے عطا کردہ فرمودہ اصول(اپنے تنازعات کو اﷲ اور اس کے رسول کی طرف پھیردو) کے پیشِ نظر اس جشنِ میلاد جیسے اختلافی مسئلہ کا حل تلاش کرنے کیلئے کتابِ الٰہی کو کھولیں،اس کے 30 پاروں یا 114 سورتوں کو اوّل تا آخر پڑھ جائیں،آپ کو کوئی ایک بھی ایسی آیت نہیں ملے گی جس سے مروّجہ جشن منانا ثابت ہولہٰذا عدالتِ الہٰی کافیصلہ میلاد منانے والوں کے حق میں نہ ہوااور جس کام کا اﷲ تعالیٰ نے حکم نہیں دیا،اسے سرانجام دے کر اجروثواب کی توقع رکھنا کارِعبث ہے۔
جب ہم ارشادِ الٰہی کے مطابق دوسرے ثالث یا عدالتِ مصطفیٰ کا رُخ کرتے ہیں تو آپ کی حیاتِ طیبہ اور سیرتِ عطرہ کا مطالعہ یہ بات واضح کردیتا ہے کہ آپ نے نہ خود اپنی ولادت کے دن جشن منایا اور نہ ہی اس بات کا کسی کو حکم فرمایا ہے۔ یہ بات بھی نہیں کہ آپ نے شاید غربت و افلاس کی وجہ سے ایسا نہ کیا ہو بلکہ اگر آپ کی مکی زندگی کو محدود معنوں میں قدرے تنگدستی کی زندگی بھی سمجھ لیا جائے تو ہجرت ِمدینہ کے بعد10 سال کے دوران آپ دولتِ اسلامیہ کے بانی و حاکم ہوگئے تھے۔ عرب وعجم اور ممالکِ مشرق ومغرب کے تمام خزانے آپ کے قدموں میں ڈھیر ہوگئے تھے مگر اس فارغ البالی کے باوجود بھی آپ نے تادمِ آخرکسی سال بھی اس قسم کی عید اور جشن نہیں منایا تھا۔ جب خود صاحبِ میلادنے ایسا نہیں کیااور نہ ہی کرنے کا حکم دیا تو ایسے کا م کو سرانجام دینا کس طرح نیکی وثواب ہوسکتا ہے؟
اگر اس کام میں نیکی و ثواب ہوتا یاکوئی بھی دینی یا دنیوی فائدہ ہوتا تو آپ اپنے صحابہؓ کو ضرور اس کا حکم دے دیتے کیونکہ آپ کی شان میں تو خود اﷲ تعالیٰ نے سورۃ التوبہ آیت128 میں ارشاد فرمایا ہے:
’’دیکھو تم لوگوں کے پاس ایک رسول آیا ہے جو خود تمہی میں سے ہے، تمہارا نقصان میں پڑنا اس پر شاق گزرتاہے،تمہاری فلاح کا وہ حریص ہے، ایمان لانے والوں کیلئے وہ شفیق اور رحیم ہے۔‘‘
ایسے شفیق نبی اپنے صحابہؓ کو کسی نیکی سے کیسے محروم رکھ سکتے تھے؟ آپ کی زبانِ مبارک سے قولاً اور فعلاً 2ہی عیدوں کا پتہ چلتا ہے ،جو عیدالفطر اور عیدالاضحٰی ہیں۔ تیسرے نام کی عید کا تصور تک نہیں ملتاالبتہ آپ کے بعض ارشادات میں یومِ جمعہ کو عید بلکہ دونوں معروف عیدوں سے بھی افضل قرار دیا ہے۔بہر حال موقع ہونے اور کوئی امرمانع بھی نہ ہونے کے باوجود آپ کا نہ خود جشن منانانہ اس کا حکم دینا،اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ یہ کوئی کارِخیر نہیں۔