Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پہلے سعودی دریا کا تعارف

طلال القشقری ۔ المدینہ
قصیم ریجن میں موسلا دھار بارشوں کے بعدوادی الرمہ کے ایک حصے میں طوفانی سیلاب کا وڈیو کلپ سوشل میڈیا پر دیکھا تو یاد آیا کہ یہ وہی دریا ہے جو اب سے 10ہزار برس قبل یہاں بہتا تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب یہاں قدیم زمانے میں زبردست بارشیں ہوا کرتی تھیں۔
عربی زبان میں دریا کے لئے وادی کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ وادی الرمہ جزیرہ عرب کی سب سے بڑی وادی مانی جاتی ہے۔ یہ 1200کلو میٹر کے رقبے میں بہتی تھی۔ رفتہ رفتہ بارشوں کا سلسلہ کم اور بند ہوا تو اس دریا پر ریت کے تودے چھا گئے۔ اس وادی کا درمیانہ حصہ القصیم میں واقع ہے۔ اسکے اطراف چھوٹے چھوٹے دریا ہوتے اور وہ اس میںآکر شامل ہوجاتے ۔ اب بھی ریاض، حائل اور مدینہ منورہ جیسے سعودی عرب کے متعد د علاقوں میں برسات میں جنم لینے والے دریا پائے جاتے ہیں۔ وادی الرمہ، بحر احمر اور خلیج عرب کو جوڑے ہوئے تھی۔ العلا کا علاقہ بھی اس کے دائرے میں آتا تھا۔ 
وادی الرمہ میں ہر 100برس پر 3بار طغیانی آتی تھی۔ یہ قدیم دریا کے خشک ہونے کے بعد کی کہانی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اسکی طغیانی کا سلسلہ بڑھنے لگا ہے۔ اب100 سال میں 3بار کے بجائے طغیانی زیادہ بار آنے لگی ہے۔ رفتہ رفتہ اس کی تعداد میں اضافہ ہوتاچلا جائیگا۔ اگر ہم صحیح مسلم میںمروی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اُس ارشاد گرامی کو مدنظر رکھیں جس کے راوی سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں ۔وہ بتاتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ قیامت اس وقت تک نہیں آئیگی تاوقتیکہ جزیرہ عرب باغوں اور دریاﺅں کی سرزمین میں دوبارہ تبدیل نہ ہوجائے۔ اس ارشاد رسالت کی بدولت یہ امید ہے کہ اللہ تعالیٰ جزیرہ عرب کے قدیم دور کی طرح ایک بار پھر دریائے رمہ کا احیاءکریگا۔ دریائے رمہ دیگر دریاﺅںسے ایک منفرد خصوصیت کا مالک ہے۔ عام طور پر دنیا بھر کے بڑے دریا مختلف ممالک سے گزرتے ہیں۔الرمہ دریا واحد ہے جو الف سے لیکر یا تک سعودی عرب ہی میں بہتا ہے۔ سعودی عرب کو جس طرح زیر زمین پیٹرول کے دریاﺅںکی موجودگی پر فخر ہے اسی طرح یہاں زیر زمین آبی ذخائر اورآسمان سے برسنے والی بارش کی بدولت سطح ارض پر بہنے والے دریاﺅں کی نعمت بھی حاصل ہوگی۔اسکی بدولت زرعی علاقہ بڑھے گا ۔ سعودی عرب دنیا کے بڑے زرعی ممالک میں شامل ہوجائیگا۔ موسم تبدیل ہوگا۔ سعود ی شہری خارجی سیاحت پر داخلی سیاحت کو ترجیح دینے لگیں گے۔ قدرتی زندگی میں تنوع آئیگا۔ 
بعید ازامکان نہیںکہ سعودی عرب بحر احمر پر قائم واٹر پلانٹ سے بے نیاز ہوجائے۔ یہ الگ بات ہے کہ ا بھی تک ہم کھارے پانی کو میٹھے پانی میں تبدیل کرنے والے پلانٹس کی سعودائزیشن میں کامیاب نہیں ہوسکے ۔ آنے والے وقتوں میں ممکن ہے کہ ہم بحر احمر کے صاف کئے گئے پانی سے بے نیازہوجائیں اور دریاﺅں کے پانی پر انحصار کرنے لگیں۔ سعودی عرب عظیم ریاست بن جائے۔ اللہ تعالیٰ سے کچھ بعید نہیں کہ وہ ایسا کردے۔
٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: