Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان کی معروف شاعرہ ، ادیبہ ، مترجم ”فہمیدہ ریاض“

 زینت ملک ۔جدہ
دنیا کتنی ہی مادی ترقی میں آگے کیوں نہ بڑھ جائے، کتب بینی اور داستان گوئی اپنی حیثیت میں ہمیشہ اہمیت کی حامل رہے گی۔ وقت کی گرد ہر چیز پر پڑتی ہے اور اسے شفاف رکھنے میں اس کی گرد ہر دور میں صاف کرنے کی ضرورت پڑتی ہے ۔مطالعہ انسان کی شخصیت کو اجاگر کرتا ہے ۔مختلف اقوام کے عروج و زوال، قدیم تہذیب،رسم ورواج اور تعمیرات سے آگاہی ملتی ہے ۔انکے ادبی فن پاروں سے آشنائی ہوتی ہے۔ 
فہمیدہ ریاض پاکستانی ترقی پسند ادیبہ، شاعرہ، سماجی کارکن برائے حقوق انسانی و حقوق نسواں تھیں۔ فہمیدہ ریاض کی ولادت 28 جولائی 1946ءکو میرٹھ کے ایک تعلیمی خاندان میں ہوئی۔ اس وقت میرٹھ برطانوی حکومت کا حصہ تھا۔ ان کے والد ریاض الدین احمد ایک تعلیم پسند شخص تھے۔وہ صوبہ سندھ میں تعلیمی نظام کو بہتر بنانے میں مصروف تھے۔ ان کے والد کا تبادلہ ہو گیا اور وہ لوگ حیدرآباد میں مقیم ہوگئے۔ ابھی ان کی عمر چار برس ہی تھی کہ والد صاحب کا انتقال ہو گیا اور والدہ نے ان کی پرورش کی۔ انہوں نے ایام طفولت میں اردو، سندھی زبانیں سیکھ لیں۔ اس کے بعد فارسی سے بھی شناسائی حاصل کی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوگئیں۔ کالج سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد فہمیدہ ریاض کو ان کے اہل خانہ نے طے شدہ شادی کرنے پر ابھارا۔ انہوں نے اپنے پہلے شوہر کے ساتھ کچھ برس برطانیہ میں گزارے۔ اس کے بعد طلاق لے کر پاکستان آگئیں۔ اس دوران انہوں نے برطانوی نشریاتی ادارے میں کام کیا اور فلم کاری میں ڈگری حاصل کی۔ پہلے شوہر سے ان کے ہاں ایک بیٹی بھی ہوئی ۔دوسری شادی سے ان کی دو اولادیں ہیں۔ ان کے دوسرے شوہر کا نام ظفر علی اجان ہے۔ وہ ایک سیاستدان ہیں۔
فہمیدہ ریاض کی مشہور تصانیف میں گوداوری، خط مرموز اور خانہ آب و گل شامل ہیں۔ 15 ادبی کتابوں کی مصنفہ کی پوری زندگی تنازعات سے گھری رہی ۔ انہوں نے شاہ عبد اللطیف بھٹائی اور شیخ ایاز کی کتابوں کا سندھی زبان سے اردو میں ترجمہ کیا ۔وہ 22نومبر 2018ءکو جہان فانی سے رخصت ہو گئیں۔
اسے بھی پڑھئے:.....تنہائی کی تلاش میں ہوں
شاعرہ اور ادیبہ محترمہ فہمیدہ ریاض نے مختلف محافل اور تقریبات میں ادب کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے عورت کی مظلومیت کو بھی بیان کیا۔ فہمیدہ ریاض نے شاید ایلیٹ کے اس نکتہ کو جان لیا تھا کہ شاعر کو ماضی کا شعور حاصل کرنا چاہئے یا اس کی نشو و نما کرنی چاہئے اور اسے اپنی شاعرانہ زندگی کے دوران اس شعور کو پروان چڑھاتے رہنا چاہئے۔ فہمیدہ ریاض نے جانے انجانے 
 میں یہی نکتہ اپنا لیا کہ کم از کم ڈھائی ہزارسال پہلے کی بابت لکھیں گی اور لوگوں کو حیران ہی کردیں گی اوربالآخر ایسا ہی ہوا۔ انکی آخری کتاب 
 اس کا مظہر ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب ”سب لعل و گوہر” کے بارے میں بتایا تھا کہ جب یہ چھپی تو کچھ چیزیں اس میں شامل ہونے سے رہ گئی تھیں اور کچھ تحریر بعد میں لکھی گئی۔ ان کے اعزاز میں منعقدہ ایک تقریب میں انہیں جب ایک شعر کی سوغات پیش کی گئی جس میں یہی ذکر تھا کہ حویلی میں بھٹک رہی ہے دلاری، جس میں وہ عطر دان کی خوشبو بسی تھی۔ انہوں نے اس شعر کی بابت اپنی رائے بتائی کہ ہم پاکستان میں چھوٹے گھر میں رہتے ہیں، حویلی میں نہیں رہتے ۔اس بات پر میزبان نے تصحیح کی کہ دراصل میں نے اردو زبان کے جمالیاتی حسن اور تاثیر کو اجاگر کرنے کے لئے عطر دان کی مناسبت سے یہ شعر پڑھا اس تقریب میں جوکہ انکی کتاب ”تم کبیر“ اور ناول’ ’ قلعہ فراموشی“ کی تقریب اجرا بھی تھی، انہوں نے دونوں فن پاروں کے نام رکھے جانے کی وجہ بتائی کہ جب انکے صاحب زادے اس دنیا سے رخصت ہوئے تو انہیں بار بار یہ خیال آتا تھا کہ وہ اس کے لئے کیا ایسا کریں، اسی دوران انہیں اس شعری مجموعہ کو ان کے نام کرنے کا خیال آیا۔ کبیر ، ان کے صاحبزادے کا نام ہے ۔
قلعہ فراموشی ناول کے بارے میں ہی مندرجہ بالا سطور لکھی گئی ہیں کہ انہوں نے ڈھائی ہزار سال پرانی تہذیب کو اس میں اجاگر 
 کیا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت کے تذکرے سے کیا حاصل؟ اگر تحقیق کرنا ہی تھی تو صرف ایک ڈیڑھ ہزار سال تک کا سفر ماضی کا کیا ہوتا تو اپنے اسلاف کے روشن ماضی سے عوام کو مزید کچھ بتانے کا موقع ملتا ۔اس سے ثواب میں بھی اضافہ ہوتا۔ دراصل یہ ناول پرانی تہذیب کی سوچ سے آگاہ کرتا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ امیر لوگوں سے سب چیز لیکر غریب لوگوں میں تقسیم کی جانی چاہئے ۔بہرحال یہ انکاتحقیقی کام ہے جس کی تعریف کی جانی چاہئے اس میںمخصوص فلسفے کو خود سمجھنے اور اپنے قاری کو سمجھانے کی بہترین کوشش کی گئی ہے۔ 
ایک سوال کہ آپ پہلے ترقی پسند ادیبہ کے طور پر جانی جاتی تھیں تو اب یکایک یہ تبدیلی کیونکرآئی جبکہ’ ’پھول اور شبنم“ کا حوالہ بھی دیا گیا۔ انہوں نے جواب عنایت کیا اس کا لب و لباب یہی تھا کہ انسان کا فلسفہ تحریک ہمیشہ ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہوتا ہے۔ہر دور میں اس کا چرچہ کسی نہ کسی صورت ہوتا رہتا ہے۔
جون ایلیا کی وفات پر ان کے بارے میں چند جملے بہت بہترین تھے کہ جون بھائی بہت اجھے انسان تھے۔ انہوں نے جو شاعری کی اور جو نثربھی لکھی، وہ پائے کی لکھی۔ جیسے فیض صاحب نے لکھا لیکن وہ اپنے مقام پر ہیں اور یہ بھی ادب میں اونچے رتبے پر ہیں۔ انہوں نے ایک واقعہ بیان کیا کہ:
جب وہ ہندوستان رہنے چلی گئی تھیں تو وہاں تھوڑے دنوں کے بعدہی امروہہ جانا ہوا ، جون بھا ئی، رئیس امروہوی وغیرہ سب ہی کا خاندان وہاں رہتا ہے جہاں جانا ہوا تو معلوم ہوا کہ پاکستان سے جون بھائی نے باقاعدہ یہ کہہ رکھا تھا کہ فہمیدہ وہاں جارہی ہیں، ان کا ہر لحاظ سے خیال رکھا جائے۔ 
فہمیدہ ریاض نے شاہ احمد بھٹائی کی شاعری پڑھی اور اس پر سیر حاصل گفتگو بھی کی۔ انہیںصدارتی ایوارڈ براے حسن کارکردگی اور ستارہ امتیاز بھی عطا کیا گیا ۔
فہمیدہ ریاض کے خاندان نے ہجرت کے بعد حیدرآباد میں رہائش اختیار کی۔ ایک ادبی گھرانے سے تعلق کی بنا پر انہوں نے شاعری اور فکشن میں کم و بیش 15 کتابیں اور کئی مضامین تحریر کئے ۔” پتھر کی زبان، دھوپ، پورا چاند، آدمی کی زندگی“ وغیرہ ان کی تصانیف میں شامل ہیں ۔ انہوں نے ملک میں جمہوریت اور خواتین کے حقوق کے لئے بھی کام کیا۔فہمیدہ ریاض کے والد کا انتقال اس وقت ہوا جب وہ ابھی بچی تھیں۔ انکی والدہ نے انکی پرورش کی ۔انہوں نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد پہلے ریڈیو پاکستان میں بطور نیوز کاسٹر کام کیا ۔ انہیں 2005ءمیں المفتاح ایوارڈ برائے ادب و شاعری اور شیخ ایاز ایوارڈ بھی دیا گیا۔2010ءمیں انہیں صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا جبکہ 2017ءمیں ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے ہیمت ہیلمن ایوارڈ برائے ادب بھی پیش کیا گیا۔ فہمیدہ ریاض صاحبہ کو2009ءمیں اردو ڈکشنری بورڈ کی چیف ایڈیٹر مقرر کیا گیا ۔اس سے قبل وہ اسلام آباد میں بک فاﺅنڈیشن کونسل کی سربراہ بھی رہیں۔ ان کی تحاریر میں ”عورت کی اسیری اور رہائی“ کے کئی اشعار کو عوامی مقبولیت حاصل ہوئی۔ 
 

شیئر: