اقرب الی السنہ انداز یہ ہے کہ کبھی ہاتھ اٹھا کر، کبھی بغیر ہاتھ اٹھائے، کبھی اجتماعی شکل میں اور کبھی انفرادی طور پر دعا کی جائے
انفرادی طور پر اذکار و وظائف سے فارغ ہو کر بغیر ہاتھ اٹھائے ہی اپنی دنیا و آخرت کیلئے دعائیں کرنا، اس میں تو کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں، جو جتنی چاہے اور جب تک چاہے دعائیں کرے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ اذکار سے فارغ ہو کر کبھی کبھار دونوںہاتھو ں کو اٹھا کر دعا مانگی جائے۔ اگر یہ عمل انفرادی طور پر ہے تو اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ۔ ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کے جواز پر امام سیوطیؒ نے مستقل ایک رسالہ لکھا ہے جس کا نام ’’فضّ الوعاء فی احادیث رفع الیدین فی الدُّعاء‘‘رکھا ہے۔
شارح مشکوٰۃ علامہ عبیداللہ رحمانی لکھتے ہیں کہ جن روایات میں ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کا ذکر آیا ہے، اگرچہ ان میں سے ہر ایک پر کلام کیا گیا ہے مگر وہ کلام ایسانہیں کہ ان احادیث پر موضوع یعنی من گھڑت ہونے کا حکم لگایا جا سکے اس لئے ان روایات سے امام کے لئے فر ض نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کا جواز یا استحباب ثابت ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔
تیسری صورت ہے اجتماعی دعا کرنا، یعنی امام اور مقتدی سب ہاتھ اٹھائے ہوئے ہوں۔ امام بلند آواز سے دعا کرتاجائے اور مقتدی آمین آمین کہتے جائیں۔ یہ انداز اگر التزام کے ساتھ نہ ہو بلکہ بلا التزام کبھی کبھی ایسا کر لیا جائے تو کثیر محققین نے اسے جائز قراردیا ہے جس کے جواز کے بارے میں متعدد روایات ملتی ہیںجنہیں برصغیر کے محدثِ کبیر علامہ عبدالرحمن مبارک پوری ؒنے ترمذی شریف کی شرح تحفۃ الاحوذی میں نقل کیا ہے اور کئی صفحات پرمشتمل تحقیقی بحث میں اس موضوع کی وضاحت کی ہے۔
اس مروّجہ طرزِ دعا کی چوتھی صورت یہ ہے کہ اس اجتماعی انداز پر مداومت اور ہمیشگی کی جائے۔ پانچوں وقت کے فرضوں کے بعد بلا ناغہ امام بلند آواز سے دعا کرتا جائے اور مقتدی آمین کہتے جائیںاور دعاء کی اس ہیئت کذائی کومؤکد و ضروری سمجھ کر اس کا التزام کیا جائے تو اس کا ثبوت نبی سے نہیں ملتا۔ اگرمروّجہ ہیئت پر عہد نبوت میں عمل ہو رہا ہوتا توآپ کی اقتداء میں نماز ادا کرنے والے صحابہ کرام ؓ کا جو جم غفیر تھا ،ان میں سے کسی سے یہ بات ضرور منقول ہوتی۔ محرک و دواعی نقل موجود ہونے اور مانع کے مرتفع ہونے کے باوجود عدمِ نقل دلیل ہے عدم وقوع اور ترک کی۔
الغرض اجتماعی دعا پر دوام اور اس کا التزام سنت سے ثابت نہیں بلکہ اقرب الی السنہ انداز یہ ہے کہ کبھی ہاتھ اٹھا کر، کبھی بغیر ہاتھ اٹھائے، کبھی اجتماعی شکل میں اور کبھی انفرادی طور پر دعا کی جائے اور بالالتزام دعا نہ کرنے پر تشویش کا شکار نہ ہوں۔ جو شخص من حیث الامام کبھی کبھی ایسا کرتا ہے تو اس پر نکیر بھی نہیںکرنی چاہئے۔ اور یہی ہے: خَیْرُ الْاُمُوْرِ اَوْسَطُھَا۔