ٹیسٹ سیریز: جیت کیلئے پاکستانی بولرز کو جادو جگانا ہو گا
صلاح الدین حیدر۔ کراچی
ابوظبی میں پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان تیسرا اور آخری ٹیسٹ میچ انتہائی دلچسپ مراحل میں داخل ہوگیا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ دونوں ٹیمیں سیریز جیتنے کی کوشش میں سر دھڑ کی بازی لگا چکی ہیں تو غلط نہیں ہوگا۔ دبئی اور ابوظبی جیسے سولو وکٹوں پر ٹاس بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ دوسرے ٹیسٹ میں پاکستان نے ٹاس جیت کر حریف کو شکست سے دوچار ہی نہیں کیا بلکہ 3 ٹیسٹ میچوں کو ایک ایک سے برابر کردیا۔ نتیجتاً موجودہ ٹیسٹ میچ کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہوگئی۔ پہلے بیٹنگ کرنے والی نیوزی لینڈ ٹیم کو فائدہ حاصل ہوا، وکٹ تھوڑا تازہ اور سخت تھی، باونس بہت ہونے کی وجہ سے حریف ٹیم نے شروع میں نئی بولنگ کی چمک دمک کی وجہ سے سوئنگ کا سامنا کرتے ہوئے پہلے ہی نقصان اٹھایا لیکن کپتان کین ولیمسن نے شاندار 89 رنز کی اننگز کھیل کر اور راول کے ساتھ مل کر 104 رنز کی پارٹنرشپ بنا کر اپنی ٹیم کی پوزیشن کافی مضبوط کرلی۔ اس کے بعد والٹنگ نے 250 گیندوں پر 77 سولورنز ضرور بنائے لیکن ایک وکٹ کے اینڈ کو بالکل سیل کر دیا جس سے ان کی ٹیم کو بہت کامیابی ملی اور اس نے اپنی پہلی اننگ میں 274 تک پہنچادیا۔ یاسر شاہ نے ایک بار پھر اپنا جادو دکھایا لیکن آف اسپنر بلال آصف نے بھی ڈبیو ٹیسٹ میں 3 وکٹیں لے کر بہترین بولنگ کا مظاہرہ کیا۔
ایک ایسی وکٹ جہاں گیند بلے پر دیر سے آتی ہے اسٹروک کھیلنا آسان نہیں ہوتا لیکن ولیمسن نے اس کے باوجود اپنے ہنر کا ثبوت دیا۔ پاکستان نے اپنی پہلی اننگ میں صفر پر ہی حفیظ کی وکٹ گنوا دی۔ حفیظ کے ساتھ بہت بڑا نقصان یہ ہے کہ وہ اسٹرائیک بال کو بہترین کھیلتے ہیں لیکن جہاں گیند نیا ، سوئنگ اور سیم کررہی ہووہاں وہ اکثر سلپ پوزیشن کے فیلڈرز کو کیچ دے بیٹھتے ہیں۔ ان کا بیٹنگ ریکارڈ بہت اچھا نہیں ہے اور لگتا ہے کہ وہ شاید ہی ساﺅتھ افریقہ کا دورہ کرسکیں۔
پاکستان نے دوسرے اوپننگ امام الحق کی وکٹ بھی جلد ہی کھو دی اور 274 بنانا جیسے جوئے شیر لانے کے کے برابر لگنے لگا۔ دونوں ہی وکٹ ٹرینٹ بولٹ نے حاصل کی، اس لئے کہ نئے اینڈ میں باونس اور سوئنگ زیادہ ہوتا ہے لیکن جب اظہر علی اور لیکن بھلا ہو تجربے کار اظہر علی کا جنہوں نے انتہائی ذمہ داری سے کھیلتے ہوئے اننگز کو سہارا دیا ان کے ساتھ حارث سہیل نے مل کر 57 رنز کی پارٹنرشپ بنائی۔ حارث سہیل 92 گیندوں پر 34 رنز بناسکے لیکن اسد شفیق نے اظہر کے ساتھ مل کر سنبھل کر کھیلنا شروع کیا اور دونوں آخر تک ناٹ آوٹ رہے۔ دونوں کو معلوم تھا کہ ان کے بعد بابر اعظم ہی ایک واحد بااعتماد بیٹسمین بچ جاتا ہے۔ کپتان سرفراز کا کچھ ٹھیک نہیں۔ وہ فیلڈنگ اپ سیٹ کرنے میں تو مہارت رکھتے ہیں لیکن 4 یا 5 اننگز میں اسکور کرپاتے ہیں۔ کھیل ختم ہونے تک اظہر علی اور اسد شفیق 62 اور 34 رنز کے ساتھ اب تک 54 رنز کی ناقابل شکست پارٹنرشپ کی بنیاد پر پاکستان کا اسکور 3 وکٹوں کے نقصان پر 139 تک پہنچا دیا لیکن اب بھی پاکستان کو لمبا سفر طے کرنا ہے۔ انہیں کم از کم 350 رنز تک اپنی ٹیم کا اسکور پہنچانا ہے ورنہ کہیں اگر پاکستان نے 40 یا 50 رنز کی سبقت لے لی تو چوتھی اننگز میں پاکستان کو بدترین وکٹ کا سامنا کرنے پڑے گا اور کہانی کہیں غلط انجام پر نہ پہنچے۔ پاکستان کو ہر حال میں یہ ٹیسٹ میچ جیتنا ہے۔ اس کے لئے کھلاڑیوں کو ذمہ داری کا ثبوت دینا ہوگا۔ پاکستان کی بولنگ اگر اپنا جادو دوبارہ دکھا سکے تو نیوزی لینڈ کو کم اسکور پر آوٹ کر کے میچ اپنے حق میں کر سکتی ہے لیکن ابھی میدان جنگ گرم ہے، کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔
کھیلوںکی مزید خبریں اور تجزیئے پڑھنے کیلئے واٹس ایپ گروپ"اردو نیوزاسپورٹس"جوائن کریں