اسٹیٹ بینک کی خودمختاری ختم ہوجائےگی؟
کراچی (صلاح الدین حیدر) پی ٹی آئی حکومت پر تنقید کی بوچھار اپنی جگہ لیکن اب تو کچھ ایسا لگنے لگا ہے کہ عمران اور ان کے رفقائے کار کچھ زیادہ ہی پریشر میں آگئے۔ مگر کیوں؟ سمجھ سے بالاتر ہے۔ عمران کو جہاں مشکلات کا سامنا رہا ہے وہیں انہیں اپوزیشن پارٹیوں کی طرف سے مدد بھی ملی ہے، سب سے بڑا ثبوت تو خود بلاول، زرداری اور سعد رفیق کی یقین دہانی کہ ہم میں سے کوئی 100 روزہ حکومت کو گرانے کی سوچ بھی نہیں رہا۔ اگر عمران اپنی ہی غلطیوں سے لڑکھڑا جائیں تو یہ ان کا قصور ہے لیکن جو ایک نیا فیصلہ سامنے آیا ہے وہ واقعی حکومت کے مرکزی بینک پر قدغن لگانا ہے کہ روپے کی قیمت گرانے سے پہلے حکومت کو اعتماد میں لیا جائے۔ یہ تو پھر نواز شریف کے نقش قدم پر چلنے کے مترادف تصور کیا جائے گا۔ن لیگ کے سابق سربراہ نے دو روز پہلے یہ کہہ کر کے بغیر ان کے پوچھے ہوئے روپے کی قیمت میں 10 پیسے بھی نہیں گرائے گئے تھے۔ یہ کہہ کر تو نواز شریف نے خود ہی اپنی حکومت کی نااہلی کا ثبوت فراہم کردیا۔
پاکستانی آئین کے مطابق اسٹیٹ بینک خود مختار ادارہ ہے اس کے گورنر کو عدالت عالیہ کے ججوں کی طرح 3 سال سے پہلے ہٹایا نہیں جاسکتا۔ حالیہ تاریخ میں صرف 2 مثالیں ایسی ملتی ہیں جہاں مشرف حکومت نے بینک کے گورنر یعقوب خان اور سلیم رضا کو عہدے سے مستعفی ہونے پر مجبور کردیا تھا۔ ورنہ شمیم اختر اور ڈاکٹر عشرت حسین نے 3,3 سال کی 2 مدت پوری کی ۔ اب عمران حکومت اسٹیٹ بینک کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اہم فیصلے کرنے سے پہلے حکومت کو اعتماد میں لے تو یہ فیصلہ خود حکومت کیلئے درد سری کا باعث بن جائے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت کے اہم عہدے اداروں میں اعتماد کا فقدان ہے۔ وزیر خزانہ نے خود ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ بینک کے گورنر نے انہیں روپے کی قدر گھٹانے سے پہلے پوچھا تھا۔ وہ پیغام انہوں نے وزیراعظم کو پہنچا دیا تھا۔ حیرت تو اس وقت ہوئی جب عمران نے 48 گھنٹوں کے اندر پریس کانفرنس میں اس کی نفی کردی۔ عمران کے مطابق 2 مرتبہ روپے کی قدر میں کمی ہوئی۔ر دونوں مرتبہ انہیں میڈیا کے ذریعہ اس بات کا علم ہوا۔ پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے تو عمران کو آڑے ہاتھوں لیا کہ یہ کیسے وزیراعظم جنہیں میڈیا یا اپنی بیوی کے ذریعے پتہ چلتا ہے کہ ملک میں اہم فیصلے ہو گئے یا پھر بشریٰ بی بی بار بار انہیں یاد دلاتی رہتی ہیں کہ آپ وزیراعظم ہیں، ہر بات پر نظر رکھیں۔ اسٹیٹ بینک کی پالیسی ساز کونسل نے 29نومبر کو روپے کی قیمت گھٹانے کا فیصلہ کیا۔ نتیجتاً ملک میں افراتفری پھیل گئی ۔اسٹاک مارکیٹ دھڑم سے زمین پر آگری۔صرف 48 سے 72 گھنٹوں میں 2.500 پوائنٹ سے زیادہ حصص کی کمی ہوئی۔ لوگوں کے اربوں روپے ڈوب گئے۔ امید تو ہے کہ حکومت اور مرکزی بینک میں باہمی اعتماد کا رشتہ استحکام کی طرف جائے گا تاکہ آئندہ پریشانیوں سے بچا جاسکے۔