Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ساحل کو چھو کر

’’وہ کبھی میرے تھے ہی نہیں ،پھرانہیں کھونے کا کیا غم‘‘، میری بچی،ہم تیرے قصور وار ہیں! دادو بھی رودئیے ،ثانیہ تقدیر کے آگے گھٹنے ٹیک چکی تھی، قدرت کی مرضی اس کی حیات کی کشتی کس رخ بہالے جائے ، وہ اس رخ بہتی چلی جانا چاہتی تھی
ناہیدطاہر ۔ ریاض 
بہت اچھے برخوردار!وہ اٹھے اور اپنے کمرے سے ایک فائنل لے آئے۔اس دن کا مجھے احساس ہوچلا تھا کہ ہوا ایک دن بے وفا نکلے گی۔سن لے میں نے بھی ایک فیصلہ کیا تھا۔اس سارے کاروبار میں ثانیہ کو برابر کی پارٹنر شپ دی گئی بلکہ پوری جائداد میں ثانیہ کو برابر کا حصے دار بھی بنادیا۔شاید یہ بات حمیدہ بیگم اور شوکت صاحب کے علم میں تھی۔ اسی لئے انکے چہروں پر سکون چھایا ہوا تھا۔ثانیہ کے ماتھے پر پسینے کی بے شمار بوندیں عود آئیں۔رضا زندگی میں پہلی بار آواز اونچی میں گویاہوا’’دادو آپ نے یہ ٹھیک نہیں کیا۔میری زندگی کا ہر فیصلہ آپ لوگ نہیں کرسکتے۔‘‘جو فیصلہ ہم بزرگوں نے ملکر کیا اس میں تمہارے لئے خیر پوشیدہ تھی دادو کا گلا بھر آیا۔حمیدہ بیگم غصے سے سرخ ہوتی سسر کی بات کی تائید کرتے ہوئے بولیں’’اب جو فیصلہ تم اپنی ذات کے تئیں بناسوچے سمجھے کررہے ہو اس میں کتنی خیر چھپی ہے اس کا اندازہ  تمہیںآگے چل کر ہوگا۔
امی!میں کوئی گناہ تو نہیں کررہا ہوں۔بس دل کا سکون چاہتا ہوں۔مجھے یہاں سوائے گھٹن کے کچھ حاصل نہیں۔اس مرتبہ رضا کا گلا بھیگ گیا۔’’رضا تم سمجھتے کیوں نہیں،ہم ثانیہ کے بغیر جی نہیں سکتے۔اس گھر کے درودیوار اس کے عادی ہوچکے۔سچ میں ہم اس کے بغیر مر جائیں گے۔‘‘حمیدہ بیگم سسک پڑیں۔
امی میں کہیں نہیں جارہی ہوں۔ثانیہ تڑپ کر امی کے قریب آئی اور ان سے لپٹ گئی۔میری بچی۔وہ کرب سے کہتی دوبارہ رونے لگی۔یہ ساری زندگی آپ کی خدمت کرنے کے لئے تیار ہے پھر کس بات کا غم؟رضا خودغرضی کی ردا اوڑھ چکا تھا۔
اس عمر میں انہیں بہو سے زیادہ بیٹے کی ضرورت ہوتی ہے۔ثانیہ بے بسی سے رضا کو دیکھنے لگی۔میں ہمیشہ کے لئے امریکہ نہیں جارہا ،درمیان میں آتا رہوں گا۔
ہمیں تمہاری کوئی ضرورت نہیں ۔شوکت صاحب گرجے۔ابو پلیز،ثانیہ نے سہم کر سسر کی جانب التجا بھری نگاہیں پھیلا دی۔
ثانیہ یہ تمہارے بلند اوصاف ہیں جو ان تکلیف دہ مرحلوں پر بھی رضا کی خوشی کے لئے آواز اٹھا رہی ہو۔ مجھے احساس ہے تم اندر سے کس قدر ٹوٹ چکی ہو۔دادو نے بے اختیار ثانیہ کوشاباش دی ۔اپنائیت کا ایک لفظ انسان کے چٹان نما صبر کو برف کی طرح پگلا کر رکھ دیتا ہے۔ ثانیہ کے ساتھ بھی یہی ہوا وہ کسی بچے کی مانند پھوٹ کر روپڑی۔
میں مجبور ہوں،کسی کے آنسو میرے اس فیصلے کو پست نہیں کرسکتے۔رضا نے حتمی فیصلہ سنایا۔ تمہاری نظر میں والدین کی کوئی اہمیت نہیں؟دادونے بوجھل آواز میں شکوہ کیا۔دادو خاندان کی مضبوط بنیاد ہونے کے باوجود آج پوتے کے باغی ہونے کے باعث ریت کی طرح ڈھے گئے۔خوشیاں کسی ریت کی طرح مٹھی سے پھسلتی چلی جارہی تھیں۔
دادو میں مجبور ہوں۔آپ لوگ سمجھتے کیوں نہیں؟ٹھیک ہے،رضا آپ اس لڑکی کو بیاہ کرہندوستان لے آئیے گا، ان شاء اللہ ، میں اپنی راہیں بدل لوں گی۔ثانیہ وہ یہاں نہیں آسکتی۔میں ابدی طور پر اسے یہاں نہیں رکھ سکتاکیونکہ وہ ایک پاکستانی لڑکی ہے۔ حکومت کی جانب سے اس کی اجازت نہیں۔تو کیا تم ہمیشہ کے لئے ہمیں چھوڑ کر چلے جانا چاہتے ہو؟حمیدہ بیگم نے وسوسوں کے درمیان گھِر کر تشویشناک لہجے میں سوال کیا؟
یہ فیصلہ کب اور کیسے کیا؟تمہاری زندگی پرکیا ہمارا کوئی اختیار نہیں؟شوکت صاحب، بوجھل آواز میں پوچھ رہے تھے۔’’یہ اختیار آپ استعمال کر چکے ابو۔‘‘
نالائق، ایک زور دار تھپڑ رضا کے رخسار کو سرخ کرگیا۔حمیدہ بیگم بیٹے کی اس گستاخی پر آگ بگولہ ہوگئی تھیں۔امی پلیز خود پر قابو پانے کی کوشش کیجئے۔ثانیہ رونے لگی۔اس سے پہلے کہ تم ہمیں چھوڑ جاؤ،ہم ہی اپنے گاؤں واپس چلے جائیں گے۔دیکھنا دوبارہ کبھی لوٹ کر نہیں آئیں گے۔شوکت صاحب فیصلہ سنا کر شدید غصے سے ہانپنے لگے۔امی،ابورضاکوخوشی سے اجازت دیجئے کہ وہ اپنی زندگی اپنی خوشی سے جیئے۔میں آپ کے ساتھ ہوں اور ان شاء اللہ زندگی کی آخری سانسوں تک آپ کے ساتھ رہوں گی۔ثانیہ یہ نہیں سمجھیں گے۔ رشتوں کو اتنی آسانی سے آزاد نہیں کرسکتے کیونکہ ہندوستانی ہیں ناں۔
میری پرابلم بھی نہیں سمجھ سکتے۔رضا بڑبڑاتا ہواوہاں سے اٹھ کر چلا گیا۔ثانیہ میری بچی! یہ سب کیا ہورہا ہے۔حمیدہ بیگم بچوں کی مانند روپڑیں۔امی ! پلیز حوصلہ رکھیں۔وہ کبھی میرے تھے ہی نہیں ،پھرانہیںکھونے کا کیا غم؟
میری بچی،ہم تیرے قصور وار ہیں! دادو بھی رودئیے لیکن ثانیہ کی آنکھیں خشک تھیں۔وہ تقدیر کے آگے گھٹنے ٹیک چکی تھی۔ اب قدرت کی مرضی اس کی حیات کی کشتی کس رخ بہالے جائے ، وہ خوشی سے اس رخ بہتی چلی جانا چاہتی تھی۔
(باقی آئندہ، ان شاء ا للہ)
٭٭٭٭٭٭٭٭
  
 

شیئر: