Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

زمین و آسمان کی پیدائش، قدرت کا عظیم شاہکار

*** مولانا محمد عابد ندوی۔ جدہ***
سارے جہانوں کا پیدا کرنے والا ایک اﷲ ہے اور وہی عبادت کا مستحق ہے، اس کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں۔ یہ وہ حقیقت ہے جس کی دعوت نہ صرف رسول اللہ نے ساری اُمت کو دی بلکہ پچھلے تمام انبیاء علیہم السلام کی دعوت اور آسمانی شریعتوں کا اصل محور بھی یہی وحدانیت کی تعلیم رہی ہے۔رسول اﷲکے لائے ہوئے دین’’ اسلام‘‘ کی اصل اساس بھی یہی وحدانیت ہے یعنی اﷲ کو ایک مانا جائے  اور اس کیساتھ کسی غیر کو شریک نہ کیا جائے ۔اس کائنات میں اﷲ تعالیٰ نے توحید پر دلالت کرنے والی بے شمار نشانیاں پھیلا دی ہیں اور پھر ان میں غور و فکر کرنے کی دعوت دی ہے۔ اس سلسلے کی ایک جامع ہدایت سورۃ البقرہ آیت164میںہے ، جہاں اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
’’ بلا شبہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں ، رات و دن کے ہیر پھیر اور پیہم ایک دوسرے کے بعد آنے جانے میں ، ان کشتیوں اور جہازوں میں جو انسانوں کے فائدے کی چیزیں لے کر سمندروں میں چلتی پھرتی ہیں ، بارش کے پانی میں جسے اﷲ آسمان سے برساتا ہے پھر اس سے مردہ زمین کو زندگی بخشتا ہے اور زمین میں ہر قسم کی جاندار مخلوق کو پھیلاتا ہے ، ہواؤں کی گردش میں اور ان بادلوں میں جو آسمان و زمین کے درمیان تابع فرمان بناکر رکھے گئے ہیں  بے شمار نشانیاں ہیں ان لوگوں کیلئے جو عقل سے کام لیتے ہیں اور غور و فکر کرتے ہیں۔ ‘‘
اس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے اپنی جن نشانیوں میں عقلمندوں کو غور و فکر کی دعوت دی ہے اُن میں سب سے پہلے زمین و آسمان کی پیدائش کا ذکر ہے ۔کائنات میں غور و فکر کا دائرہ بہت وسیع ہے، اس میں جتنا تدبر کیا جائے گا ، اتنے ہی اس کے اسرار و رموز منکشف ہو ں گے اور خالق کائنات کی عظیم قدرت پر ایمان و یقین میں اضافہ ہوگا ۔ آسمان و زمین کی پیدائش کا ذکر اور ان میں غور و فکر کی دعوت قرآن پاک کی اور بھی آیات میں ہے۔ چند آیات کا ترجمہ ہم یہاں پیش کرتے ہیں ، ارشاداتِ ربانی ہیں : 
٭ اﷲ وہ ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے بلند کر رکھا ہے کہ اسے تم دیکھ رہے ہو ( الرعد2)۔
٭ اسی ( اﷲ ) نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے پیدا کیا تم انھیں دیکھ رہے ہو ( لقمان10)۔
٭ ہر شخص اپنی آنکھوں سے ہر روز ہر لمحہ اس بات کا مشاہدہ کرتا ہے اور کرسکتا ہے کہ اس کے سرپر یہ بلند و بالا آسمان چھت کی مانند بغیر کسی ستون کے قائم ہے۔ کیا دنیا میں آج تک کسی انسان نے ستون کے بغیر کوئی عمارت قائم کی ؟ اور کیا عقلِ انسانی اس کا تصور کرسکتی ہے اور کیا ایسا ممکن بھی ہے ؟ لیکن اﷲ کی قدرت کا یہ عظیم شاہکار کیا اس بات کی دلیل نہیں کہ اس کا کوئی پیدا کرنے والا ہے اور وہ بہت بڑی قدرت و طاقت کا مالک ہے ’’ کیا اﷲ کے بارے میں تمہیں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے۔ ‘‘ ( ابراہیم10)۔
٭ اے لوگو ! اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے کے لوگوں کو پیدا کیا تاکہ تم پرہیز گار بن جاؤ جس نے تمہارے لئے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے بارش کو برسایا پھر اس سے تمہاری روزی کیلئے پھل نکالے ، پس جانتے بوجھتے اﷲ کے لئے شریک مقرر نہ کرو ( البقرۃ22,21)۔
٭ اور ہم نے ہی آسمان کو محفوظ چھت بنایا لیکن لوگ اس کی نشانیوں سے منھ موڑتے ہیں (الانبیاء32) ۔
یعنی اﷲ کی قدرت کی عظیم نشانیوں میں غور و تدبر نہیں کرتے بلکہ اس سے منھ موڑے گزر جاتے ہیں ، اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’ اﷲ ہی ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو ٹھہرنے کی جگہ اور آسمان کو چھت بنایا اور تمہاری صورتیں بنائیں اور بہت اچھی بنائیں اور تمہیں عمدہ چیزیں کھانے کو دیں ، یہی اﷲ تمہارا پروردگار ہے ،پس اﷲ بہت ہی برکتوں والا اور سارے جہانوں کا پروردگار ہے۔ ‘‘ (غافر 64) ۔
زمین کو اﷲ نے ٹھہرنے کی جگہ ، جائے قرار بنایا یعنی اس قابل بنایا کہ اس زمین پر انسان زندگی گزار سکے اور اس میں قیام کرسکے ۔ اسے نہ اتنی سخت بنایا کہ انسان سردی گرمی سے بچنے کیلئے اس پر گھر وغیرہ تعمیر نہ کرسکے اور نہ اتنی نرم بنایا کہ کوئی چیز اور خود انسان اس پر ٹھہر ہی نہ سکے ، پھر اس زمین پر اُسی اﷲ نے اپنی حکمت سے مضبوط پہاڑ رکھ دیئے تاکہ اس کا توازن برقرار رہے اور وہ نوعِ انسانی کے بوجھ سے اِدھر اُدھر نہ ڈولے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ اور اس نے زمین میں پہاڑ گاڑ دیئے تاکہ تمہیں لے کر نہ ہلے اور نہریں اور راہیں بنادیں تاکہ تم منزل مقصود کو پہنچو اور بھی بہت سی نشانیاں مقرر فرمائیں اور ستاروں سے بھی لوگ راہ حاصل کرتے ہیں ، تو کیا جو پیدا کرتا ہے اس جیسا ہے جو پیدا نہیں کرسکتا ؟ کیا تم بالکل نہیں سوچتے۔ ‘‘ ( النحل17-15)۔
آسمان قدرت الٰہی کا اس اعتبار سے بھی مظہر ہے کہ وہ نہایت بلند ہے ۔اس کی بلندی کا صحیح ادراک انسانی عقل شاید نہ کرسکے۔ اس نیلگوں آسمان کے نیچے بے شمار کواکب اﷲ کے حکم سے گردش کررہے ہیں ۔ کرۂ ارض پر انسانی زندگی کی بقاء اور اس کی منفعت کے پیش نظر چاند سورج 2 اہم سیارے ہیں جن کی گردش سے لیل و نہار اور سال کے موسموں کی تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ سورج اور چاند کے علاوہ اس آسمانِ دنیا کو اﷲ نے بے شمار ٹمٹماتے ستاروں سے مزین کردیا ہے جو نہ صرف آسمانِ دنیا کی زینت ہیں بلکہ وہ رات کی تاریکی میں راہ چلتے مسافروں کو راستہ دکھاتے اور صحیح سمت متعین کرنے کا فریضہ بھی انجام دیتے ہیں ۔سورۃ الملک کی آیت ایک تا5 پڑھئے اور اس میں غور کیجئے کہ کس طرح اﷲ تعالیٰ کی عظمت و بلندی اور اس کی عظیم قدرت و سلطنت کا بیان ہوا ہے ؟ ارشاد باری تعالیٰ ہے : 
’’ بہت بابرکت ہے وہ اﷲ جس کے ہاتھ میں بادشاہت ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے جس نے موت اور زندگی کو اس لئے پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے کام کرتا ہے ؟ اور وہ غالب اور بہت زیادہ بخشنے والا ہے ، اسی نے اوپر تلے7 آسمان بنائے ، تو ( اے دیکھنے والے !) رحمن کی پیدائش میں کوئی بے ضابطگی نہ دیکھے گا ، دوبارہ ( نظر ڈال کر ) دیکھ لے کیا اس میں کوئی شگاف بھی نظر آرہا ہے ؟ پھر2,2بار نظر لوٹا کر دیکھ تیری نگاہ تیری طرف عاجز اور تھکی ہوئی لوٹ آئے گی ، بے شک ہم نے آسمانِ دنیا کو چراغوں ( یعنی ستاروں ) سے مزین کیا اور انھیں شیطانوں کے مارنے کا ذریعہ بنادیا اور شیطانوں کیلئے ہم نے دوزخ کا جلانے والا عذاب تیار کردیا۔ ‘‘  
اسی طرح ایک دوسری جگہ ستاروں کا ایک فائدہ یوں بیان ہوا :
’’ اور ستاروں سے وہ ( لوگ ) راہ پاتے ہیں۔ ‘‘ (النحل16)۔
چاند کرۂ ارض سے قریبی سیارہ ہے جو لگتا ہے کہ ہم سے نہایت قریب ہمارے سروں پر ایک چھوٹی سی ٹکیہ کی مانند معلق ہے ۔کیا کوئی اندازہ کرسکتا ہے کہ اس کا حجم اور زمین سے اس کی مسافت کیا ہے ؟ سائنسدانوں کی تحقیق یہ ہے کہ چاند ہم سے ڈھائی لاکھ میل سے کم دور نہیں ، اس طرح اس وسیع و عریض زمین سے چاند کے حجم کا موازنہ کیا جائے تو وہ زمین سے 50 گنا بڑا ہے ۔
سورج کے بارے میں سائنسدان کہتے ہیں کہ وہ کرۂ ارض سے 13لاکھ گنا بڑا اورزمین سے تقریباً 149,6 ملین کلو میٹر دور ہے ۔ سورج ہی کی طرح بلکہ اس سے کئی گنا بڑے اور سورج سے بے انتہا بلندی پر بے شمار کواکب اﷲ کے حکم سے اپنے اپنے مدار پر گردش کررہے ہیں ۔ اُفق پر ٹمٹمانے والے ستارے اربوں کھربوں کی تعداد میں ہیں ۔علم ِفلکیات کے ایک ماہر کا کہنا ہے کہ دنیا کے تمام ساحل پر ریت کی جتنی کنکریاں ہیں اُس سے زیادہ آسمان کی بلندی پر ستاروں کی تعداد ہے ، اس کے بعد کوئی اندازہ لگائے کہ آخر یہ آسمان کتنی بلندی پر ہے ؟ کیا یہ انسان کیلئے سزاوار ہے کہ آسمان و زمین کی عظیم بادشاہت والے کو چھوڑ کر کسی اور کے آگے سرنگوں ہو ؟ آسمان و زمین کی تخلیق کے مقابلے میں حقیر پانی کی بوند سے پیدا ہونے والے انسان کی کیا حیثیت ؟ ارشاد باری تعالیٰ ہے : 
’’ کیا تمہارا پیدا کرنا زیادہ دشوار ہے یا آسمان کا ؟ اﷲ نے اسے بنایا ، اس کی بلندی اونچی کی ، پھر اسے ٹھیک ٹھاک کردیا ، اس کی رات کو تاریک بنایا اور اس کے دن کو نکالا اور اس کے بعد زمین کو ہموار بچھادیا اس میں سے پانی اور چارہ نکالا اور پہاڑوں کو مضبوط گاڑ دیا ، یہ سب تمہارے اور تمہارے جانوروں کے فائدہ کیلئے ہیں۔ ‘‘ ( النازعات33-27)۔
دلائلِ توحید کے ضمن میں زمین و آسمان کی پیدائش میں غور و فکر کی دعوت جگہ جگہ قرآن پاک میں دی گئی اور اسے قدرت کی عظیم نشانیوں میں شمار کیا گیا۔ کہیں اس کی بلندی اور وسعت و پھیلاؤ کو بیان کیا گیا تو کہیں زمین و آسمان کے درمیان فضائے بسیط میں موجود چاند ، سورج اور اس کی گردش سے رات اور دن کی تبدیلی نیز رات کی تاریکی اور دن کی روشنی اور اس کی حکمتوں کی طرف اشارہ کرکے خالق کائنات کی عظمت پر یقین اور اس کی وحدانیت پر ایمان لانے کی راہ ہموار کی گئی۔ آفاق میں پھیلی ہوئی نشانیوں میں غور و فکر کی دعوت دیتے ہوئے بعض ایسے حقائق بھی قرآن نے بیان کئے کہ آج صدیاں گزرنے کے بعد سائنسی علوم کی ترقی کے دور میں نئی نئی تحقیقات اور انکشافات کے نتیجے میں ماہرین ، قرآن کے بیان کردہ حقائق تسلیم کرنے اور ان کی صداقت ماننے پر مجبور ہوئے ۔ علم و سائنس کی ترقی اور تحقیقات کا دائرہ وسیع ہوکر قدرت کی نشانیوں تک پہنچا جس کی طرف اشارہ قرآن پاک میں ایک جگہ اس طرح کیا گیا :
’’ عنقریب ہم انھیں اپنی نشانیاں آفاقِ عالم میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کی اپنی ذات میں بھی یہاں تک کہ ان پر کھل جائیگا کہ حق یہی ہے ، کیا تمہارے رب کا ہر چیز سے واقف اور آگاہ ہونا کافی نہیں ؟ ۔‘‘ ( حم السجدہ53)۔
’’آفاق و انفس‘‘ ( یعنی عالم آفاق اور خود انسان کی اپنی ذات ) میں قدرت کی نشانیاں کوئی دیکھنا چاہے تو وہ طب و سائنس کی ترقی اور اس میدان میں ہونے والی تحقیقات اور نئے نئے انکشافات کا مطالعہ کرے اور پھر قرآن پاک کے بیان کردہ حقائق پر غور و فکر کرے ، اس کی عقل دنگ رہ جائے گی ، اگر تعصب اور ہٹ دھرمی حائل نہ ہوتو ناممکن ہے کہ ان نشانیوں میں غور و فکر کرنے والا خالق کائنات کی عظمت و بڑائی کا اقرار کرکے اس پر ایمان نہ لائے ۔
زمین و آسمان کی پیدائش کے سلسلے میں اﷲ تعالیٰ کافروں سے خطاب میں فرماتا ہے :
’’ کیا کافر لوگوں نے یہ نہیں دیکھا کہ آسمان و زمین باہم ملے جلے تھے ، پھر ہم نے انھیں جدا کیا اور ہر زندہ چیز کو ہم نے پانی سے بنایا ، کیا یہ لوگ پھر بھی ایمان نہیں لاتے ؟۔ ‘‘ ( الانبیاء30) ۔
اس آیتِ مبارکہ میں’’رتق‘‘اور’’فتق‘‘2لفظ ہیں۔ پہلے کے معنیٰ’’ منھ بند ہونا اور ملا ہوا ہونا‘‘ اور دوسرے کے معنیٰ ’’پھاڑنا‘‘ کے آتے ہیں ۔ آسمان و زمین کے باہم ملے جلے ہونے اور پھر انھیں الگ کئے جانے کی تشریح بعض مفسرین یوں کرتے ہیں کہ وہ دونوں ظلمت ِعدم میں گویا ایک دوسرے سے غیر متمیز تھے ، قدرت نے انھیں جدا جدا پیدا کیا پھر ابتدائے خلق میں بھی وہ منھ بند تھے۔ خالق کائنات نے بنی نوعِ انسان کے فائدے کیلئے زمین و آسمان کے دہانے کھول دیئے ، اوپر سے بارش برسائی اور زمین سے غلہ اُگایا۔ اگر یہ منھ بند ہی رہیں تو کرۂ ارض پر انسانوں کی زندگی اور بقاء ناممکن ہوجائے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ مسلّم ہے لیکن دوسری طرف سائنسی تحقیقات نے یہ بات بھی ثابت کی ہے اور ماہرین فلکیات یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ابتدا میں زمین ، آسمان میں موجود سیاروں میں سے کسی سیارے کا ہی جز تھی جو بعد میں اس سے جدا ہوئی ۔ عام انسانی عقل شاید اس کا تصور نہ کرسکے کہ زمین آسمان کا جز یا آسمان کے نیچے فضاء میں موجود سیارے باہم ملے جلے تھے لیکن علم و تحقیقات کی روشنی میں فلکیات کے ماہرین سب اس پر متفق اور قرآن کی بیان کردہ حقیقت کا اعتراف کرنے پر مجبور نظر آتے ہیں۔یہ بات بھی عجیب ہے کہ اس آیت میں خطاب اہل کفر سے ہے اور ان حقائق کا انکشاف بھی اکثر انہی کی جانب سے ہوتا ہے اوراوپر ذکر کردہ حٓم سجدہ کی آیت53 میں بھی اﷲ تعالیٰ نے انہی کے بارے میں کہا کہ ہم انھیں اپنی نشانیاں آفاق و انفس میں دکھائیں گے لیکن جسے ہدایت کی طلب نہ ہو وہ واضح نشانیاں دیکھ کر بھی ایمان کی دولت سے محروم ہی رہتا ہے ۔
زمین کی وسعت اور پھیلاؤ اسی طرح آسمان کی رفعت و بلندی قدرت کا کرشمہ ہے ۔ اﷲ تعالیٰ نے خصوصیت کے ساتھ آسمان کی بے انتہا بلندی کا ذکر کرکے اس میں غور و فکر کی دعوت دی ہے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ پس کیا یہ اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ وہ کس طرح پیدا کئے گئے ہیں اور آسمان کو کہ کس طرح اونچا کیا گیا ہے اور پہاڑوں کی طرف کہ کس طرح گاڑ دیئے گئے ہیں اور زمین کی طرف کہ کس طرح بچھائی گئی ہے ۔‘‘( الغاشیہ21-17)۔
سورۃ الرحمن میں اﷲ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو عطاکی گئی اپنی نعمتوں کا شمار کرتے ہوئے زمین و آسمان کی تخلیق کا ذکر یوں فرمایا:
’’ اور اسی نے آسمان کو بلند کیا اور اسی نے ترازو رکھی کہ تم ترازو ( تولنے ) میں تجاوز نہ کرو ، انصاف کے ساتھ ترازو ٹھیک رکھو اور تولنے میں کمی نہ کرو اور اسی نے مخلوق کیلئے زمین بچھادی جس میں میوے ہیں اور بھُس والا اناج ہے اور خوشبو دار پھول ہیں ، پس ( اے انسانو اور جنو !)  تم اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤگے۔ ‘‘ ( الرحمن13-8)۔
آسمان کی بلندی اور زمین کی وسعت و پھیلاؤ کے درمیان میزان ( ترازو ) کا تذکرہ آخر کس مقصد سے ہے ؟ لوگوں کو آپس میں
 عدل و انصاف قائم رکھنے اور ناانصافی یا ناپ تول میں کمی بیشی نہ کرنے کی ترغیب کیساتھ اس میزان کی ایک لطیف تشریح مفسرین نے یہ بھی کی ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے نہ صرف زمین و آسمان بلکہ ان کے درمیان کی تمام مخلوقات اور فضائے بسیط میں گردش کرنیوالے بے شمار سیاروں کے درمیان اپنے علم و حکمت سے ایسا زبردست توازن قائم کردیا ہے کہ اسی توازن سے ہر چیز اپنی جگہ قائم اور اپنے فرضِ منصبی کی ادائیگی میں مشغول ہے ۔اگر اس توازن میں ذرا بھی فرق آجائے تو اس ساری کائنات کا نظام درہم برہم ہوکر رہ جائے ۔ اﷲ تعالیٰ کے اس فرمان پر غور کیجئے ، ارشاد ہے : 
’’ اور ان کیلئے ایک نشانی رات ہے جس سے ہم دن کو کھینچ دیتے ہیں تو وہ یکایک اندھیرے میں رہ جاتے ہیں اور سورج کیلئے جو مقررہ راہ ہے وہ اسی پر چلتا رہتا ہے ، یہ غالب اور علم والے کا اندازہ ( مقرر کردہ ) ہے اورچاند کی بھی ہم نے منزلیں مقرر کر رکھی ہیں یہاں تک کہ وہ لوٹ کر پرانی ٹہنی کی طرح ہوجاتا ہے ، نہ آفتاب کی مجال ہے کہ چاند کو پکڑے اور نہ رات دن پر آگے بڑھ جانیوالی ہے ، سب کے سب آسمان پر ( اپنے مدار میں ) تیرتے پھرتے ہیں۔ ‘‘ ( یٰسین40-37) ۔
سورہ حٓم سجدہ آیت9تا12میں بھی 6 دنوں میں زمین و آسمان اور ان کے درمیان کی مخلوقات کے پیدا کئے جانے کا ذکر کرنے کے بعد اخیر میں اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’ یہ زبردست غالب اور علم والے کا مقرر کردہ اندازہ ہے۔ ‘‘ 
آج علمِ فلکیات کے ماہرین بھی اپنی تحقیقات کی روشنی میں اس حقیقت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوئے کہ عالمِ افلاک جس حکیمانہ و مدبرانہ توازن سے مربوط ہے ،اگر اس میں تھوڑی بھی اونچ نیچ ہوجائے تو اس کرۂ ارض پر انسان بلکہ کسی بھی جاندار کی بقا ناممکن ہوجائے ۔
ایک حدیث میں زمین و آسمان کے درمیان کی مسافت بلکہ ہر آسمان سے دوسرے آسمان کے درمیان کی مسافت اسی طرح ہر آسمان اور زمین کی موٹائی500 سال کی مسافت کے برابر قرار دی گئی ہے یعنی500 سال میں جو مسافت طے کی جاسکتی ہے اتنا فاصلہ زمین وآسمان کے درمیان ہے ، منزلِ مقصود تک پہنچنے کا وقت رفتار کی کمی بیشی کے سبب مختلف ہوتا ہے۔ اﷲ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ کس رفتار سے500سال کی مسافت مراد ہے اور سال بھی کونسے سال مراد ہیں ؟ دنیا کے سال یا آخرت کی تقویم کے سال جہاں کا ایک دن دنیا کے ایک ہزار اور 500 ہزار سال کے برابر ہے ( ملاحظہ کیجئے : سورۃ السجدہ5 ، سورۃ المعارج 6)۔
اس حیرت انگیز کائنات کے خالق کو چھوڑ کر کسی اور کے آگے جبین نیاز خم کرنا کتنی بڑی جہالت اور گمراہی ہے ؟
 
 
 

شیئر: