وزیراعظم عمران خان ترجیحات بدلیں
چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کے وزیر اعظم بننے کے بعد سے شروع ہونے والے اعلانات ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ عمران خان کی حکومت قوم کو مسلسل بتا رہی ہے کہ ماضی کی حکومتوں کے کون سے کام جائز تھے اور کون سے ناجائز، کیا گناہ ہے اور کیا ثواب، بھیک کسے کہتے ہیں اور مدد کیا ہوتی ہے، ملک کی گاڑی ترقی کی پٹڑی پر کیسے دوڑتی ہے وغیرہ وغیرہ مگر اس کے برعکس عملی طور پر کوئی ٹھوس فیصلہ، اعلان یا منصوبہ ایسا نظر نہیں آ رہا جس کے فوری نہ سہی، دور رس نتائج ہی دکھائی دے رہے ہوں۔ گو کہ گزشتہ تحریر میں ہم نے کہا تھا کہ کوشش کریں گے کہ آئندہ کی تحریروں میں ’’سب اچھا ہے‘‘ کی رپورٹ دیں گے، مگر زندگی کے کسی بھی شعبے سے وابستہ افراد کے پاس چلے جائیں تو وہ اپنی پریشانیاں اور مصائب سنانے میں دیر نہیں کرتا۔ خوشی عوام کے چہروں پر دکھائی نہیں دے رہی، انڈسٹری بند اور بے روزگاری بڑھ رہی ہے، اب ایسے میں جب ہر جانب مایوسی دکھائی دے، ہم ’’آل اِز ویل‘‘ بھلا کیسے گنگنائیں؟۔
تازہ خبر ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے فرمایا ہے کہ غیر قانونی طریقے سے رقوم ملک سے باہر لے جانے اور اسمگلنگ کے خلاف حکومت پوری قوت اور تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے کارروائی کا آغاز کررہی ہے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ تمام اداروں کو اس حوالے سے ایک پلیٹ فارم پر لاکر جامع اور ٹھوس پالیسی لائی جائے گی تاکہ منی لانڈرنگ کے راستے ہمیشہ کے لیے بند ہو سکیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ناجائز طریقے سے پیسے کمانا اور ٹیکس چوری کرنا گناہ کے کام ہیں۔ اس کے علاوہ ایک بہت پتے کی بات جو وزیر اعظم نے بتائی وہ یہ کہ ہاتھ پھیلانے والا ملک کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔ (اس سے ثابت ہوا کہ اب تک کے بیرون ملک دورے اور ان میں امداد کے مطالبے بھیک نہیں تھے) وزیر اعظم نے ایک تقریب سے خطاب میں مزید کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت ملک سے غربت کے خاتمے اور برآمدات میں اضافے کی بھرپور کوشش کررہی ہے۔ جبکہ صورت حال اس کے برعکس دکھائی دے رہی ہے کیونکہ غربت کے بجائے غریب خاتمے کے در پر ہے اور برآمدات میں اضافہ تب ہوگا جب انڈسٹری کا پہیہ گھومے گا۔ یہاں تو پورے پورے ہفتے گیس بند ہے جس کے نتیجے میں نہ صرف ٹرانسپورٹ کا شعبہ اور گھریلو صارفین براہ راست متاثر ہو رہے ہیں، ساتھ ہی گیس سے چلنے والے پلانٹ کی حامل فیکٹریاں اور کارخانے بند رہے جس سے روزانہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں کا چولہا نہیں جلا۔
بظاہر حکومت، اور اس کے کپتان، ان کی ٹیم، عدلیہ اور دیگر ادارے سب کے سب قوم کی خدمت کے لیے کوشاں ہیں اور اپنے اصولوں اور عزائم پر سب ایک پیج پر دکھائی دے رہے ہیں، اس دوران قومی احتساب بیورو بھی دن دیکھ رہا ہے نہ رات، ملک لوٹنے والوں کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہے۔ اسی دوران سابق وزیرا عظم نواز شریف اور ان کے بھائی سابق وزیر اعلیٰ پنجاب اور قومی اسمبلی میں موجودہ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے بعد مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وزیر خواجہ سعد رفیق کو بھائی سمیت گرفتار کرلیا گیا ہے۔ نیب عدالت میں ایک سماعت کے دوران جج نے سابق وزیرا عظم کے وکیل سے پوچھا کہ سپریم کورٹ کے پانامہ کیس میں واضح فیصلے کے بعد عدالت کیسے مان لے کہ نواز شریف صادق اور امین ہیں۔ آمدن چھپانے، جائداد ظاہر نہ کرنے پر وزیر اعظم نااہل ہوئے، گرفتار ہوئے، بیٹی اور داماد سمیت جیل بھی کاٹی اور ’’سچے و امانت دار‘‘ بھی قرار نہ پائے۔ دوسری جانب عدالت نے وزیر اعظم عمران خان کی ہمشیرہ پر جائداد ظاہر نہ کرنے پر 2 کروڑ 94 لاکھ روپے جرمانہ کیا۔ موجودہ صورت حال میں حکومت کے دعوے درست دکھائی نہیں دیتے۔ ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے لیے جو اقدامات چاہئیں، وہ نظر نہیں آ رہے۔ حکومت غالباً یہ سمجھ رہی ہے کہ اپوزیشن کے پیچھے نیب کو لگا دینے، مقدمات پر مقدمات قائم کرنے اور ان سب کو پکڑ کر جیل میں ڈال دینے سے ترقی ملے گی تو یہ اقدامات ٹھیک نہیں لگتے۔
حکومت کو 100 دن سے زیادہ ہو چکے ہیں، عدالتوں میںمقدمات بھی چل رہے ہیں، نہ صرف مسلم لیگ ن بلکہ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے خلاف بھی منی لانڈرنگ، بے نامی اکاؤنٹس سمیت دیگر دعوے سامنے آ رہے ہیں مگر ثابت کچھ نہیں ہو رہا۔ ابھی تک کی کارروائیوں میں کسی کے خلاف کچھ ثابت نہیں ہو سکا جس کے نتیجے میں اپوزیشن اور حکومت کی لڑائی اور اس کا ملک کو ہوتا نقصان تو نظر آ رہا ہے مگر اس پورے منظر میں ترقی اور کامیابی دیکھنے کے لیے جو عینک درکار ہے، وہ کہیں دستیاب نہیں۔
ملک میں پٹرول، گیس اور بجلی کے بحران اپنی جگہ جاری ہیں اور ان کے نتائج سے بھی سب آگاہ ہیں، معاشی معاملات بھی ٹھیک نہیں۔ وزیر خزانہ دعوے کررہے ہیں کہ ہم نے آئی ایم ایف کے مطالبات پیشگی طور پر ازخود قبول کرتے ہوئے اقدامات کرلیے۔ یہ بھیانک صورت حال اور حکومتی دور اندیشی سمجھ سے بالاتر ہے۔ ایسے میں ہماری تجویز ہے کہ خدارا کوئی وزیر اعظم کو صلاح دے کہ جس تیز رفتار گاڑی پر وہ اور ان کی ٹیم سوار ہیں، اسے کچھ دیر کے لیے سائیڈ پر لگائیں، تیل پانی تبدیل کریں اور انہیں بتائیں کہ کرنے کے کام کون سے ہیں اور نہ کرنے یا نظر انداز کرنے کے کون سے۔ انہیں ترجیحات سمجھائی جائیں اور ایسے اقدامات سے گریز کریں جن سے سیاسی انتقام کی بو آ رہی ہو۔