کوئی نماز فرض ہو یا سنت و نفل،چاہے وہ نماز وتر ہوسوائے نماز جنازہ کے جس نماز میں بھی نمازی سے کچھ بھول چوک ہو جائے اور وہ بھول بھی ایسی ہو کہ نماز کا کوئی رکن نہ چھوٹا ہومثلاً قیام یا رکوع و سجود ہی نہ چھوٹ جائیں کہ جن کے بغیر نماز ہی نہیں ہوتی اور جن کی ادائیگی کے سوا کوئی چارۂ کار ہی نہیں ۔ بعض دیگر امور میں بھول ہو جائیں تو اس کا ازالہ نماز کے آخر میں 2 سجدے کرنے سے ہو جاتا ہے جنہیں ’’سجدئہ سہو‘‘ کہا جاتا ہے۔
نماز کو پوری توجہ سے ادا کرنا اور اِدھر اُدھر کے خیالات سے بچنا باعث فضیلت و اجر ہے لیکن اس کے باوجود بھی انسان سے بھول چوک ممکن ہے۔ عام انسان تو کجاخیر البشر حضرت محمد سے بھی بعض اوقات نماز میں بھول ہو جایا کرتی تھی جس کاعلم صحیح احادیث میں مذکور متعدد واقعات سے ہوتا ہے جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم ابو دائود، نسائی، ابن ماجہ اور مسند احمد میں ارشادِ نبوی ہے:
’’میں بھی تمہاری طرح کا ایک انسان ہوںاور جس طرح تم بھول جاتے ہو مَیں بھی بھول جاتا ہوںلہٰذا جب میں بھول جائوں تو مجھے یاد دہانی کرا دیا کرو۔‘‘
صحیح مسلم میں ارشادِ نبویہے:
’’جب کوئی شخص اپنی نماز میں کمی یا زیادتی کر جائے تو اسے چاہئے کہ (نماز کے آخر میں) 2سجدے کرے۔‘‘
سجدۂ سہو کی صورتیں
نماز کے آخر میں سجدئہ سہو کے وقت اور موقع و محل کی تعیین اور اس کے طریقہ سے قبل آئیے دیکھیں کہ سجدئہ سہو کن کن صورتوں میں کیا جائے گا؟
(1) ان میں سے پہلی شکل یہ ہے کہ نمازی بھول کر نماز پوری ہونے سے پہلے ہی سلام پھیر لے اور بعد میں کسی کے بتانے سے پتہ چل جائے کہ نماز پوری نہیں ہوئی بلکہ ایک رکعت یا کم و بیش باقی ہے،ایسی صورت میں فوراً اُٹھ کر چھوٹی ہوئی نماز مکمل کر کے سجدئہ سہو کرنا چاہئے جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم‘ سنن اربعہ اور دیگر کتب حدیث میں ذوالیدین کے واقعہ والی حدیث معروف ہے جس میں مذکور ہے کہ نبی نے ظہر یا عصر کی نماز کی امامت کرائی اور صرف 2 رکعتیں پڑھ کر ہی سلام پھیر لیا اور ایک لکڑی کے پاس آ گئے جو کہ مسجد میں رکھی تھی اور اس کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑے ہو گئے۔ لوگ جلدی جلدی وہیں پہنچ گئے مگر کسی کو بات کرنے کی جرأت نہ ہوئی۔ آخر ایک صحابی حضرت ذوالیدین ؓ (جن کا اصل نام حضرت خرباق سُلمی تھا) نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ بھول گئے ہیں یا نماز کم ہوگئی ہے؟ آپ نے اس بات کی دوسرے صحابہؓ سے تصدیق کرائی اور جب بات واضح ہو گئی کہ صرف 2 ہی رکعتیں پڑھی گئی ہیں تو آپ کی جو (2 رکعت) نماز چھوٹی تھی وہ ادا فرمائی پھر سلام پھیرا‘ پھر سہو کے2سجدے کئے اور پھر سلام پھیرا۔
(2) سہو کی دوسری صورت یہ ہے کہ نماز کی رکعتیں زیادہ پڑھ لی جائیں جیسا کہ بخاری و مسلم‘ سنن اربعہ‘ مسند احمد اور دیگر کتب حدیث میں مذکور ہے کہ نبی نے ایک مرتبہ نمازِ ظہر کی5 رکعتیں پڑھا دیں۔ آپ سے کہا گیا کہ کیا نماز زیادہ ہوگئی ہے؟ فرمایا: ’’کیا بات ہے؟۔‘‘
صحابہؓ نے بتایا کہ آپنے 5 رکعتیں پڑھی ہیںتو آپ نے سہو کے 2 سجدے کئے اور پھر سلام پھیرا۔
(3) سہو کی تیسری شکل یہ ہے کہ نمازی قعدئہ اولیٰ یا تشہد اوّل کیلئے بیٹھنا بھول جائے اور بیٹھنے کی بجائے تیسری رکعت کے لئے کھڑا ہو جائے چنانچہ صحاح ستہ و مسند احمد‘ مؤطا امام مالک اور بیہقی میں ہے کہ نبی نمازِ ظہر کی دو سری رکعت کے بعد تشہد پڑھے بغیر (تیسری رکعت کے لئے) کھڑے ہو گئے اور سلام پھیرنے سے پہلے آپ نے سہو کے2 سجدے کیے اور پھر سلام پھیراجبکہ ابو دائود‘ ابن ماجہ‘ مسند احمد‘ دارقطنی اور بیہقی میں ارشادِ نبویہے:
’’ جب تم میں سے کوئی شخص دوسری رکعت میں قعدہ کئے بغیر کھڑا ہونے لگے لیکن اگر وہ پوری طرح کھڑا نہ ہوا ہو تو اسے چاہئے کہ بیٹھ جائے اور کھڑا ہو چکا ہو تو اسے چاہئے کہ پھر نہ بیٹھے بلکہ آخر میں سہو کے2 سجدے کر لے۔‘‘
(4) سہو کی چوتھی شکل یہ ہے کہ کسی کو اس بات میں شک ہو جائے کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں۔ اس شکل کا ذکر صحیح بخاری و مسلم‘ ابو دائود‘ نسائی‘ ابن ماجہ‘ مسند احمد‘ ابن حبان‘ مستدرک حاکم اور بیہقی میں ہے۔ نبی کا ارشاد ہے :
’’ جب تم میں سے کوئی شخص اپنی نماز کی رکعتوں کی تعداد بھول جائے اور اسے شک ہوجائے کہ نہیں معلوم اس نے 3 رکعتیں پڑھی ہیں یا 4 تو اسے چاہئے کہ اپنا شک دُور کرے اور یقینی بات پر بنیاد رکھ کر نماز پوری کرے،پھر سلام پھیرنے سے پہلے 2سجدے کرے۔ اس طرح اگر اس نے 5 رکعتیں پڑھ لی ہوں گی تو (ان 2 سجدوں کی وجہ سے) وہ شفع (جفت یا جوڑی) ہو جائیں گی اور اگراس نے پوری نما ز ہی پڑھی ہو گی تو یہ (2سجدے) شیطان کی ذلت و رسوائی کا باعث بن جائیں گے۔‘‘
ایک دوسری حدیث میں شک زائل اور یقین حاصل کرنے کا طریقہ بھی لکھا ہے۔ ابو دائود‘ ترمذی‘ ابن ماجہ‘ مسند احمد اور بیہقی میں ارشادِ نبویہے :
’’ جب تم میں سے کسی شخص کو نماز میں شک ہو جائے کہ اس نے ایک رکعت پڑھی ہے یا2 تو اسے چاہئے کہ اپنی ایک ہی رکعت سمجھے اور جب اسے یہ شک ہو جائے کہ اس نے 2 رکعتیں پڑھی ہیں یا 3‘ تو اسے چاہئے کہ اپنی2ہی رکعتیں سمجھے‘ اور جب اسے یہ شک ہو جائے کہ اس نے 3 رکعتیں پڑھیں یا 4 تو اسے چاہئے کہ اپنی3 ہی رکعتیں سمجھے‘ پھر نماز کے آخر میں سلام پھیرنے سے پہلے2 سجدے کر لے۔‘‘
ان دو نوں حدیثوں کا مجموعی مفاد یہ ہے کہ 3 یا 4‘ 2یا 3 اور 2یا ایک میں شک ہو جائے مگر اُن دونوں میں سے کوئی ایک پہلو ظنِ غالب سے راجح ہو تو پھر ظنِ غالب پر ہی بنیاد رکھے اور اگر کوئی پہلو بھی ظن غالب سے راجح محسوس نہ ہو تو پھر کم پر بنیاد رکھ کر نماز مکمل کرے اور سلام پھیرنے سے پہلے2 سجدے کر لے۔
اس تفصیل سے یہ بات واضح ہو گئی کہ سجدئہ سہو سلام سے پہلے اور بعد دونوں طرح ہی ثابت ہے اور اس بات پر تمام ائمہ و فقہاء کا اتفاق ہے البتہ افضلیت میں اختلاف ہے۔ پھر اسی وجہ سے صحابہؓ و تابعینؒ اور ائمہ و فقہاءؒ نے سجدئہ سہو کے وقت کے بارے میں مختلف مذاہب اختیار فرمائے ہیں۔
سجدۂ سہو کا موقع ومقام
علامہ عراقی ؒکی شرح الترمذی سے نقل کرتے ہوئے امام شوکانی رحمہ اللہؒ نے نیل الاوطار میں 10 اقوال بیان کئے ہیں‘ جن میں سے:
٭سہو چاہے کیسا بھی ہو سجدئہ سہو سلام کے بعد ہی کرنا ہوگا۔ متعدد صحابہؓ و تابعینؒ اور امام ابو حنیفہ ؒ کا یہی مسلک ہے اور ان کا استدلال ان احادیث سے ہے جن میں سلام کے بعد سجدئہ سہو کا ذکر آیا ہے۔
٭اس سلسلہ میں دوسرا قول یہ ہے کہ سجدئہ سہو سلام پھیرنے سے پہلے ہے۔ یہ بھی متعدد صحابہ کرام ‘ اکثر فقہائے مدینہ‘ علمائے حدیث اور امام شافعی کا قول (جدید) ہے اور ان کا استدلال ان احادیث سے ہے جن میں سلام پھیرنے سے پہلے سجدئہ سہو کا ذکر آیا ہے۔
٭اس مسئلہ میں تیسرا قول یہ ہے کہ جہاں نماز میں کمی ہو وہاں سلام پھیرنے سے پہلے اور جہاں نماز میں زیادتی ہو وہاں سلام کے بعد سجدئہ سہو کیا جائے گا۔یہ امام مالک‘ مزنی‘ ابو ثور اور ایک قول کے مطابق امام شافعی کا مسلک ہے۔ علامہ ابن عبدالبر ؒ فرماتے ہیں کہ اس طرح دونوں قسم کی احادیث پر اُن کے موقع و محل کے مطابق عمل ہو جائیگا اور کسی حدیث کے منسوخ ہونے کے دعویٰ کی بھی ضرورت پیش نہیں آئیگی اور علامہ ابن العربی رحمہ اللہؒ نے اس مسلک کو بہت سراہا ۔
٭اس موضوع میں چوتھا قول یہ ہے کہ جس جس موقع پر سلام سے پہلے یا سلام کے بعد سجدئہ سہو حدیث میں ثابت ہے وہاں اسی طرح ہی سجدہ کیا جائے گا اور سہو کی جس شکل کے بارے میں کوئی حدیث ثابت نہیں وہاں صرف سلام سے پہلے ہی سجدئہ سہو کیا جائے۔ یہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہؒ کا مسلک ہے۔
٭پانچواں قول یہ ہے کہ جس موقع پر سجدئہ سہو حدیث سے ثابت ہے وہاں اسی طرح ہی سجدہ کیا جائے گا اور جہاں کوئی حدیث ثابت نہیں وہاں نماز میں کمی کے وقت سلام سے پہلے اور زیادتی کے وقت سلام پھیرنے کے بعد سجدئہ سہو کیا جائے گا۔ یہ امام اسحاق بن راہویہؒ کا مسلک ہے۔
٭اس سلسلہ میں چھٹا قول یہ ہے کہ نماز میں شک ہو جانے کی شکل میں اگر ظنِ غالب پر اعتماد کر کے نماز مکمل کر لے تو وہ سلام پھیرنے کے بعد سجدئہ سہو کرے اور اگر اس شکل میں کم مقدار پر بنیاد رکھ کر نماز مکمل کرے تو وہ سلام پھیرنے سے پہلے سجدئہ سہو کر لے۔ یہ ابو حاتم ابن حبان ؒ کا مسلک ہے۔
٭ساتواں قول یہ ہے کہ بھولنے والے کو اختیار ہے کہ نماز میں کمی ہو یا زیادتی وہ اپنی مرضی سے چاہے تو سلام سے پہلے سجدئہ سہو کر لے یا بعد میں۔ مصنف ابن ابی شیبہ میں ایک روایت کے مطابق یہ حضرت علی اور ایک قول کے مطابق امام شافعیؒ کا مسلک ہے۔
٭آٹھواں قول یہ ہے کہ صرف2شکلوں کے سوا ہر شکل میں سلام پھیرنے کے بعد ہی سجدئہ سہو کیا جائے گا اور اُن2شکلوں میں نمازی کو سلام سے پہلے یا بعد سجدئہ سہو کا اختیار ہے۔ پہلی شکل وہ ہے جب نمازی2رکعتوں کے بعد تشہد پڑھے بغیر ہی تیسری رکعت کیلئے کھڑا ہو جائے اور دوسری شکل وہ ہے جب نمازی کو رکعتوں کی تعداد میں شک ہو جائے۔ یہ ظاہریہ اور علامہ ابن حزمؒ کا مسلک ہے۔
٭سجدئہ سہو کے مقام و موقع کی تعیین کے سلسلہ میں معروف محقق و مجتہد امام شوکانی ؒلکھتے ہیں کہ سب سے عمدہ بات تو یہ ہے کہ نبی کے اقوال و افعال کے تقاضے کے مطابق ہی سلام سے پہلے یا بعد سجدئہ سہو کیا جائے۔ جن شکلوں میں سلام سے پہلے سجدئہ سہو کرنے کی قید ہے وہاں پہلے اور جہاں بعد کی ہے وہاں بعد میں کیا جائے اور جہاں ایسی کوئی قید آپ کے کسی قول و فعل سے ثابت نہیں وہاںکمی یا زیادتی ہر شکل میں ہی نمازی کو اختیار ہے کہ پہلے کرے یا بعد میںکیونکہ صحیح مسلم شریف میں ارشاد نبوی مطلق ہے:
’’جب انسان اپنی نماز میں کمی یا زیادتی کر جائے تو اسے چاہئے کہ سہو کے 2 سجدے کر لے۔‘‘
٭المرعاۃ شرح المشکوٰۃ میں امام ابو دائود ظاہری کا مسلک یہ لکھا گیا ہے کہ سجدئہ سہو صرف انہی چند شکلوں میں ہے جن میں احادیث سے ثابت ہے ،دیگر کسی بھول پر سجدئہ سہو نہیں اور علامہ عبیداللہ رحمانی نے سب سے راجح مسلک اسے قرار دیا ہے کہ نمازی کو اختیار ہے کہ سلام پھیرنے سے پہلے سجدہ کر لے یا بعد میں۔
بہرحال یہ سب اقوال محض اوّلیت و افضلیت کے بارے میں ہیں البتہ جواز کی حد تک اس بات پر سب ائمہ کا اتفاق ہے کہ سجدئہ سہو سلام پھیرنے سے پہلے کر لے یا بعد میں۔
سجدۂ سہو کا طریقہ
اب رہا سجدئہ سہو کا طریقہ تو وہ یوں ہے کہ اگر سجدئہ سہو سلام پھیرنے سے پہلے ہو تو آخری تشہد‘ درود اور دعاء کے بعد 2 سجدے کئے جائیں جبکہ سجدہ جاتے اور اس سے اٹھتے وقت اللہ اکبر کہا جائے اور پھر دونوں طرف سلام پھیر لیاجائے جیسا کہ سہو کی چوتھی شکل کے ضمن میں گزرا ہے۔ اگر سجدئہ سہو سلام کے بعد ہو تو آخری رکعت میں تشہد‘ درود شریف اور دعا کے بعد دونوں طرف سلام پھیر لیں پھر سہو کے 2 سجدے کر یں اور دوبارہ سلام پھیر لیں جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم‘ سنن اربعہ اور دیگر کتب حدیث میں مذکور ہے جس کا ذکر سہو کی پہلی شکل کے ضمن میں گزرا ہے۔
آج کل جو طریقہ عموماً مروّج ہے کہ ایک طرف سلام پھیر کر سجدئہ سہو اور پھر تشہد اور پھر دونوں طرف سلام پھیرا جاتا ہے یہ طریقہ بھی کثیر فقہاء و علماء اور ائمہ کا اختیار فرمودہ ہے اور ان کا استدلال ابو دائود و ترمذی کی ایک روایت سے ہے جسے بعض محدثینِ کرام نے ضعیف قرار دیا ہے البتہ تعد ّدِ طرق کی بناء پر کبار محدثین نے ہی اسے حسن بھی قرار دیا ہے۔
لیکن صرف ایک طرف سلام پھیر کر سجدئہ سہو کرنے کا طریقہ کس حدیث سے لیا گیا ہے وہ ہماری نظر سے نہیں گزری۔وہ غالباً محض اجتہاد کی بنیاد پر ہے جبکہ دونوں طرف سلام پھیرنا ہی اصل اور معروف ہے جبکہ صحیح بخاری شریف کے ترجمۃ الباب میں حضرت انس‘ حسن اور قتادہ ؓسے تشہد نہ پڑھنے کا ذکر منقول ہے۔
ان دونوں طرح کی روایات کے پیش نظر صاحبِ محلی اور مرعاۃ نے راجح اسے ہی قرار دیا ہے کہ اگر کوئی چاہے تو سجدئہ سہو کے بعد دوبارہ تشہد نہ پڑھے اور اگر چاہے تو پڑھ لے۔
سجدۂ سہو کی تسبیحات
سہو کے دونوں سجدوں میں بھی عام نماز کے سجدوں کی طرح ہی سُبْحَانَ رَبِّیَ الاَعْلٰی ہی پڑھنا ضروری ہے کیونکہ ارشادِ نبوی ہے:
’’اس تسبیح کو سجدوں میں پڑھا کرو۔‘‘
مسبوق کا سجدہ کب؟
اگر امام سے بھول ہوئی ہو تو مقتدی بھی سجدئہ سہو کریں البتہ جو شخص بعد میں شامل ہوا ہو وہ امام کے سلام سے پہلے سجدہ کرنے کی شکل میں تو سجدے کرے لیکن اگر سلام کے بعد سجدئہ سہو ہو تو وہ امام کے ساتھ سجدہ نہ کرے بلکہ امام کے سلام پھیرتے ہی کھڑا ہو جائے اور نماز مکمل کرے پھر سجدئہ سہو کر لے۔
سجدۂ سہو بھول جانا
اگر کوئی شخص سجدئہ سہو بھول جائے اور سلام پھیر کر اگلی نماز شروع کر دے تو وہ سلام پھیرنے کے بعد الگ سے سہو کے2 سجدے کر لے لیکن اگر سجدئہ سہو میں طویل تاخیر ہو جائے تو پھر سجدئہ سہو نہ کرے۔
امام اثرم سے مروی ہے کہ اگر کسی معمولی معاملہ میں سہو ہوا ہو تو پھر سجدئہ سہو نہ کرنے پر بھی کوئی مضائقہ نہیں۔