بچھڑنا بھی ضروری تھا: آج کل لوگ عقلمند ہیں زیادہ دیر بے وقوف نہیں بنتے
حیرت یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو اب ان لوگوں کی سمجھ کیوں نہیں آئی ، یہ لوگ اب تک ان سے بہت پیسہ لے چُکے ہیں
مسز زاہدہ قمر۔ جدہ
گزشتہ سے پیوستہ
صارف بولا’’تم تو یہیں ہوتے ہو، پلیز صادق کچھ مت چُھپانا تمھیں معلوم ہے میں تم پر کس قدر اعتماد کرتا ہوں ‘‘، اس نے صادق سے پوچھا۔۔۔۔تو صادق نے سر جُھکا کر اٹک اٹک کر اسے بتانا شروع کر دیا۔ صارف پر دُکھ اور کرب کے در ایک ایک کر کے وا ہونے لگے۔۔۔اس کا خدشہ بھیانک حقیقت بن کر سامنے آچکا تھا۔۔۔۔۔ وہ صادق کی زبانی مُشرف کے کرتوت سُن کر شرمسار تھا۔۔۔۔ اسے صادق سے ندامت محسوس ہو رہی تھی۔’’صاحب !! تتلی کا پورا خاندان مِل کرکسی بھی موٹی اسامی کو پھانسنے کی واردات کرتا ہے اور پھر اچھی طرح لوٹتے ہیں ۔۔۔۔ مگر آج کل کے لوگ عقلمند ہیں ۔۔۔زیادہ دیر تک کوئی ان لوگوں سے بے وقوف نہیں بنتا۔ ۔۔۔ دو چار مرتبہ مِل کر ہی لوگ ان کی اصلیت سمجھ جاتے ہیں ۔۔۔۔ حیرت یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو اب ان لوگوں کی سمجھ کیوں نہیں آئی ، یہ لوگ اب تک ڈاکٹر صاحب سے بہت پیسہ لے چُکے ہیں ۔تتلی ان سے شاپنگ کے بہانے پیسے لیتی ہے پھر گھر میں کھانا پینا سب بازار سے ڈاکٹر صاحب منگواتے ہیں بڑے بڑے ہوٹلوں میں آرڈر دے کر ۔۔۔۔‘‘ ، وہ بتا رہا تھا اور صارف دُکھ اور خفت کے سمندر میں ڈوبتا جا رہا تھا ۔۔۔۔ اسے یہ مسئلہ آسانی سے حل ہوتا محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ ’’ڈاکٹر صاحب کے ساتھ یہ لوگ گھومنے پھرنے ، شاپنگ کرنے اور کھانے کے لئے باہر جاتے ہیں پھر گھر آکر بھی ڈاکٹر صاحب وہیں رہتے ہیں۔وہیں سے رات گئے گھر چلے جاتے ہیں ، بستی میں سب کو پتا ہے ۔۔۔۔ ان لوگوں کا کردار بہت خراب ہے، خُدا ڈاکٹر صاحب کو بچا لے ‘‘، وہ پورے خلوص سے دُعا کر رہا تھا۔۔۔صارف پریشان کُن سوچوں میں گھراخالی خالی نظروں سے اسے تک رہا تھا!!!!پھر وہ اسی طرح گھر لوٹ آیا۔ زندگی ایک نئے امتحان کے ساتھ سامنے کھڑی تھی۔ وہ گھر آیا تو ساری سوچوں نے آنکھیں موند لیں، ہر فکر رُخ موڑ کر کھڑی ہو گئی ، وہ حیران تھا کہ کوئی اتنا ’’اہم ‘‘ بھی ہو سکتا ہے کہ زرا دیر کو ہر چیز ’’غیر اہم‘‘ ہو جاتی ہے۔سارے خدشے، خوف، دُکھ، فکر جیسے بھاپ بن کر اُڑ گئے اس کے سامنے نرمین تھی۔ ویسے ہی حسین اور پروقار!!! صارف کا وجود ہلکا پھلکا ہو گیا۔ وہ معطر اور نازک تھی صارف کو ہر طرف بھینی بھینی روشن مہک محسوس ہونے لگی۔
’’السلام علیکم بھائی جان!!‘‘،اس نے صارف کو بہت شگفتہ انداز میں سلام کیا۔ ’’وعلیکم السلام !!! کیا حال ہے ؟؟ اور بڑے ابو وغیرہ کیسے ہیں ؟؟؟‘‘۔ صارف کا لہجہ بظاہر سرسری تھا مگر وجود!!! اس نے اپنے آپ کو خود سے جُدا ہوئے ہوئے محسوس کیا۔’’سب ٹھیک ہیں !! اور آپ کی خیریت نیک مطلوب ہے ، دیگر احوال یہ ہے کہ مُجھے چچا جان کی یاد آرہی تھی اس لئے میں چلی آئی ‘‘۔
نرمین نے قواعد کی کتاب والے خط کے جملے دُہرائے تو وہ کھلکھلا کر ہنس پڑا۔۔۔۔۔ ’’خوب !!!‘‘اب نرمین صاحبہ گرامر کے خط اور درخواست کے انداز میں بات کیا کریں گی؟؟‘‘ وہ خوشگوار لہجے میں بولا تو اندر آتی عالم آراء بھی مُسکرانے لگیں۔ صارف نے بہت ادب سے ماں کو سلام کیا۔ ’’السلام علیکم امی !!ابو کہاں ہیں ؟؟ انکی طبعیت ٹھیک ہے ؟؟ ‘‘، اس نے روز کی طرح باپ کی خیریت دریافت کی ’’ہاں بالکل ٹھیک ہیں ،اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اب وہ بالکل ٹھیک ہیں ‘‘۔عالم آراء کا رواں رواں اللہ تعالیٰ کا احسان مند تھا۔ وہ بڑے تشکر سے خیریت بتا رہی تھیں ، صارف، یوسف صاحب کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ وہ جاگ رہے تھے۔ ’’السلام علیکم ابو، کیا حال ہے ، آج آپ دوپہر کو سوئے نہیں ‘‘۔ اس نے سلام کرتے ہی سوال کیا۔ ’’جیتے رہو!! بس یار کیا کریں ؟ نیند نہیں آئی اور آج تو خوشی کے مارے شاید پوری رات نیند نہ آئے‘‘۔۔۔۔۔ وہ خوش اور مطمیئن نظر آرہے تھے۔
’’واہ!! کیا بات ہے ابو؟؟ خوشی کی خبر؟؟ بتایئے ایسی کونسی خبر ہے جس نے آپ کی نیند اُڑا دی‘‘، صارف نے بھی خوش ہو کر پوچھا۔ ’’ارے بھئی!! ایک نہیں دو دو خوش خبریاں ہیں ‘‘، یوسف صاحب اس کا تجسس بڑھا رہے تھے۔ ’’دو دو ؟؟؟‘‘ وہ حیران ہوا ، ’’ پھر تو جلدی سے بتایئے ‘‘۔۔۔ وہ اصرار کر رہا تھا۔’’ بھئی تفصیل سے تو تمھاری امی بتائیں گی۔ہم سے تو صرف خُلاصہ سُن لو۔ پہلی خبر یہ ہے کہ تمھاری امی نرمین کی شادی کی تاریخ طے کرنا چاہتی ہیں اور تمھارے بڑے ابو اب مان گئے ہیں کہ اگلے مہینے کی کوئی تاریخ طے کر دی جائے، ابھی آئے تھے نرمین کو چھوڑنے تو اس وقت ہی تمام بات ہوئی ، دوسری بڑی خبر یہ ہے کہ شاید تمھیں یاد ہو ؟؟ میری بیماری میں ہماری ایک فیملی سے بڑی دوستی ہو گئی تھی غالباً خورشید بیگم کی فیملی سے !!!‘‘۔ ’’جی ! جی!!‘‘ ، صارف نے ان کی تصدیق کی ، ’’ان آنٹی کا نام یہی ہے، تو پھر کیا ہوا؟؟ وہ بڑے ضبط وسے کام لے کر اپنا انداز نارمل دِکھا رہا تھا۔
’’ہونا کیاتھا ؟؟؟ وہ اپنے بیٹے فرجاد کے لئے غزالہ کا رشتہ لانا چاہتی ہیں ۔ آج تمھاری امی سے فون پر بات ہوئی سے ‘‘۔ انہوں نے بتایا۔ ’’فرجاد انکم ٹیکس میں آفیسر ہے اچھے لوگ ہیں ۔ بھئی !! مُجھے تو ٹھیک ٹھاک لگے باقی اپنی امی سے پوچھنا‘‘۔ انہوں نے تفصیل بتائی۔ ’’اب بتائو تمھاری کیا رائے ہے اس سلسلے میں ،یہ دونوں شادیاں اگر ایک ساتھ ہو جائیں تو کیا مضائقہ ہے ‘‘ وہ صارف سے ہر کام میں مشورہ کرتے تھے اور اب تو آصف چچا کی بد دیانتی کے بعد وہ صارف کو اور زیادہ اہمیت دینے لگے تھے۔ صارف نے جیسے سُکھ کا سانس لیا۔ اس کا مسئلہ اور ذمہ داری دونوں ہی اللہ تعالیٰ کے کرم سے خود بخود حل ہو رہے تھے اسے اپنے دل پر سے پریشانی کی بھاری سل سرکتی محسوس ہوئی ، وہ اللہ تعالیٰ کی عنایت اور کرم نوازی پر جتنا شکر کرتا کم تھا۔ ’’ابو!!! یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا کرم ہے کہ غزالہ کے فرض سے بھی سُبکدوش ہو جائیں اور نرمین اور مُشرف کی ذمہ داری بھی احسن طریقے سے ادا ہو جائے، آپ فوراًً ہاں کر دیں۔ میں ان شاء اللہ سب بندوبست کر لوں گا، اللہ کے کرم اور مہربانی سے ۔۔۔۔ بس آپ دیر مت کیجئے گا۔۔۔۔‘‘ ،وہ باپ کو تسلی دے رہا تھا اور یوسف صاحب اسے بہت پیار اور فخر سے دیکھ رہے تھے۔
٭٭٭٭٭