Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستانی سیاست کیا رُخ اختیار کرے گی؟

 کراچی (صلاح الدین حیدر ) جہاں مریم نواز اور دوسروں پر عدالتی فیصلہ بم بن کر گرا وہیں (ن) لیگ کے مخالفین خوش تھے، کہ اُن کے راستے سے ایک بھاری پتھر ہٹ گیا۔ 24 دسمبر کو احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم کو 7 سال کی قید، جرمانہ، اُن کے نام کی تمام جائیداد کی ضبطگی اور 10 سال کے لئے کسی بھی عوامی عہدے کے لئے نااہلی کا جو فیصلہ سنایا اُس کے پاکستانی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔شدّت غم سے مریم اورنگزیب اور دوسرے رہنما جو کمرہ¿ عدالت میں اجازت لے کر پہنچنے میں کامیاب ہوگئے تھے فیصلہ سن کر رو پڑے۔ خود نواز شریف نے فیصلے کا پہلا حصّہ جہاں جج محمد ارشد نے اُنہیں فلیگ شپ کیس میں باعزت بری کردیا تھا سن کر خوش ہوئے، دوسرے ہی لمحے جب اُنہیں سزا ہوئی تو وہ خاموشی سے بنچ پر بیٹھ گئے۔فیصلہ غیر متوقع نہیں تھا۔ پچھلے کئی روز سے یہ بات بہت سارے حلقوں میں یہ بات کہی جارہی تھی کہ نواز شریف کو پھر جیل کی ہوا کھانی پڑے گی۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اسے سیاہ ترین فیصلہ قرار دیا، جب کہ شےخ رشید اور فواد چوہدری نے اسے اصولوں اور قانون کی فتح سے تعبیر کیا۔جتنے منہ اُتنی باتیں۔ ایک بات پر تو سب ہی متفق نظر آتے ہیں کہ فیصلے کے بعد قومی سیاست کا نقشہ بڑی حد تک تبدیل ہوجائے گا۔ (ن) لیگ بلاشبہ ایک بڑی پارٹی ہے۔ اُس کے اثررسوخ پورے ملک، پنجاب میں خاص طور پر بہت زیادہ ہیں۔ وہ 2018 کے انتخابات کیوں ہاری، اس کی کئی وجوہ ہیں، سب سے بڑی وجہ تو عمران کا کرپشن کے خلاف نعرہ لوگوں کے دل میں گھر کرگیا تھا۔ کہنے کو تو لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ کچھ آسمانی قوتیں بھی نتائج پر اثرانداز ہوئیں۔ ثبوت دینے سے قاصر ہیں۔ اس لئے ہمیں الیکشن کمیشن کے نتائج پر لامحالہ یقین کرنا پڑے گا۔
پاکستانی سیاست شخصیات کے گرد گھومتی ہے۔بھٹو کو لے لیں۔، بے نظیر، یا خود نواز شریف اور اب تو عمران خان بھی اُسی سطح پر نظر آتے ہیں۔ نواز شریف کا نااہل ہونا، شہباز شریف کا نیب کی حوالات میں ایک ماہ سے قید میں رہنا کچھ تو اثر دِکھائے گا۔ یہ درست ہے کہ (ن) لیگ کا ورکر بہت قوت رکھتا ہے، بغیر کسی سربراہ کے وہ کیا کرسکے گا، یہی تو دیکھنا ہے۔ آج عدالت کے سامنے مسلم لیگ (ن) کے لیڈران اور ورکرز کی اچھی خاصی تعداد جمع تھی، دفعہ 144 بے اثر ہوگئی اور پولیس کو مجمع ہٹانے کے لئے لاٹھی چارج اور شیلنگ کرنی پڑی شاید پارٹی کے قائدین کو بعد میں احساس ہوا ہو کہیں اس کا اُلٹا نتیجہ نہ نکلے، اسی لئے شاہد خاقان عباسی نے احتجاج کو تو رد نہیں کیا، لیکن ساتھ ہی یہ بھی یقین دہانی کروائی کہ احتجاج پُرامن رہے گا۔
ابھی تو سانپ سیڑھی کا کھیل جاری ہے۔ اصل تجزیہ تو اُس وقت کرنے کی ضرورت پڑے گی، جب پیپلز پارٹی جو کہ اس وقت بھی نشان پہ توہے۔ زرداری، فریال تالپور، بینکنگ کورٹ میں پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ 35 ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ کا الزام ہے۔ بے نامی اکاونٹ جو کسی ٹھیلے والے، چائے والے، رکشا والے کے نام سے کھولے گئے تھے۔ اُن کا الزام اومنی گروپ پر لگ چکا ہے۔ اومنی گروپ کے مالک انور مجید اور بیٹے عبدالغنی قید میں ہیں۔ زرداری کو بھی روز صفائیاں پیش کرنی پڑتی ہےں۔ تینوں کے گرد گھیرا تنگ ہوتا جارہا ہے۔ آج ایک بینکنگ کورٹ نے اومنی گروپ کے بینک اکاونٹ منجمد کرنے کا حکم صادر فرمادیا۔ ریاض ملک جو آصف زرداری کے بڑے پارٹنر کہلاتے ہیں، اُن کے خلاف بھی عدالت نے بینک کی تفاصیل مانگ لیں۔ خود آصف زرداری اور فریال تالپور کے خلاف عدالت نے وزارت داخلہ کو خط لکھ دیا کہ دونوں بھائی بہن کو ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر ڈال دیا جائے۔ الزام یہی ہے کہ یہ سارے کروڑوں اور اربوں روپے جو غریب غربا کے بینک اکاونٹس میں سے نکل رہے تھے، زرداری نے اپنی ناجائز دولت چھپانے کے لئے کھولے تھے۔ اب تاثر تیزی سے اُبھرتا جارہا ہے کہ زرداری اور انور مجید بھی شاید جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوں۔اس سارے پس منظر کے معنی ایک ہی نکلتے ہیں کہ سیاست کا میدان نئے طور پر سجے گا۔ عمران تو خیر بھرپور طاقت سے جلوہ گر رہیں گے۔ کیا (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت مریم نواز اور بلاول بھٹو کے قدموں میں ہوگی۔ کچھ لوگ تو سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار کا نام لے رہے ہیں کہ شاید اُنہیں مسلم لیگ (ن) کی قیادت سنبھالنی پڑے۔ دیکھیں آنے والے دن کیا تماشا دِکھاتے ہیں۔
 
 

شیئر: